بارش کے وقت گھروں میں نمازپڑھنے کی اجازت

بعض لوگوں کو تقوے کا بخار ہوتا ہے۔ شریعت میں موجود رخصتوں پر عمل چھوڑ کر خود کو مصیبت میں ڈالتے ہیں اور اسے دین داری سمجھتے ہیں۔ بغیر علم کے اپنے دل کے فتووں پر عمل کرتے ہیں اور اہلِ علم پر جملے کَستے ہیں۔ مَرد کو فرض نمازیں مسجدِ شرعی میں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے، لیکن بعض رخصتیں بھی دی گئی ہیں۔ بارش بھی ان میں سے ایک ہے۔

بارش کب عذر ہے؟

شارحِ بخاری حضرت مفتی سعید احمد پالن پوریؒ فرماتے ہیں: ترکِ جماعت کے اعذار میں بارش بھی ہے، کتنی بارش عذر ہے؟ اس کا فیصلہ مبتلی بہٖ پر چھوڑا گیا ہے کیوں کہ بارش دن میں بھی ہوتی ہے اور رات میں بھی، مسجد دور بھی ہوسکتی ہے اور نزدیک بھی، روشنی ہے یا نہیں؟ سٹرک کچی ہے یا پکی؟چھاتا ہے یا نہیں؟ ان چیزوں کی وجہ سے احوال مختلف ہوتے ہیں، اس لیے فیصلہ مبتلی بہٖ پر چھوڑ دیا گیا ہے، اگر غیر معمولی پریشانی کا سامنا ہے تو مسجد نہ جانے کی اجازت ہے اور کوئی خاص پریشانی نہیں ہے تو پھر بارش عذر نہیں۔[تحفۃ القاری] نیز جماعت کی تاکید مسجدِ شرعی کے ساتھ ہے، جماعت خانوں کے لیے وہ حکم نہیں۔

بارش کے وقت گھروں میں نماز پڑھنا

حضرت نافعؒسے روایت ہے، حضرت ابن عمرؓنےایک سرد اور ہوا دار شب میں نماز کی اذان دی، پھر کہا:اے لوگو ! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو! اس کے بعد کہا: رسول اللہ ﷺ موذن کو حکم دیتے تھے جب رات سرد اور مینہ کی ہو تو کہہ دے: أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِکہ اپنے اپنے گھر میں نماز پڑھ لو۔ عَنْ نَافِعٍ ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَذَّنَ بِالصَّلَاةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ‏‏‏‏‏‏ثُمّ قَالَ:‏‏‏‏ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “كَانَ يَأْمُرُ الْمُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ يَقُولُ أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ”. [بخاری] حضرت عبداللہ بن حارث کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہوگئی تھی، حضرت ابن عباسؓنے اس دن خطبہ دیا اور موذن سے کہہ دیا کہ جب حی علی الصلاہ پر پہنچے تو کہہ دے کہ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو! یہ سن کر لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، گویا انھوں نے اس کو برا سمجھا تو حضرت ابن عباسؓنے فرمایا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا سمجھا، بےشک ایسا انھوں نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے یعنی حضرت نبی کریم ﷺ نے۔ بےشک اذان کے بعد مسجد میں آنا عزیمت ہے لیکن میں نے یہ اچھا نہ سمجھا کہ تمھیں تکلیف میں ڈالوں۔ حضرت عاصمؒنے بھی حضرت ابن عباسؓسے اسی طرح نقل کیا ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ انھوں نے کہا : مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ گنہ گار کروں یا تم مٹی کو گھٹنوں تک روندتے ہوئے آؤ۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ صَاحِبُ الزِّيَادِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “خَطَبَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ فِي يَوْمٍ ذِي رَدْغٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ الْمُؤَذِّنَ لَمَّا بَلَغَ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلِ الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ فَكَأَنَّهُمْ أَنْكَرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ كَأَنَّكُمْ أَنْكَرْتُمْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ هَذَا فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي يَعْنِي النَّبِيَّ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّهَا عَزْمَةٌ وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُحْرِجَكُمْ”، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ حَمَّادٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَاصِمٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ كَرِهْتُ أَنْ أُؤَثِّمَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَتَجِيئُونَ تَدُوسُونَ الطِّينَ إِلَى رُكَبِكُمْ. [بخاری]

جمعے میں بھی رخصت

حضرت عبداللہ بن حارثؒ(محمد بن سیرینؒکے چچاز بھائی) روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓنے بارش کے دن میں اپنے موذن سے کہا: جب تم اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہِکہہ لو تو اس کے بعد حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ نہ کہو بلکہ کہو صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا تو انھوں نے کہا کہ یہ اس شخص نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر ہے! اور نمازِ جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمھیں نکالوں کہ تم کیچڑ اور مٹی میں چلو۔ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْحَارِثِ ، ‏‏‏‏‏‏ابْنُ عَمِّ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ لِمُؤَذِّنِهِ فِي يَوْمٍ مَطِيرٍ:‏‏‏‏ “إِذَا قُلْتَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ فَلَا تَقُلْ حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏قُلْ صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ فَكَأَنَّ النَّاسَ اسْتَنْكَرُوا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي إِنَّ الْجُمْعَةَ عَزْمَةٌ وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُحْرِجَكُمْ فَتَمْشُونَ فِي الطِّينِ وَالدَّحَضِ”. [بخاری]

صرف ایک مرتبہ کا ذکر نہیں

حضرت ابن عمرؓفرماتے ہیں کہ بارش کی رات یا ٹھنڈی اور آندھی والی رات میں رسول اللہ ﷺ کا منادی یہ ندا دیتا تھا کہ اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ “كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يُنَادِي مُنَادِيهِ فِي اللَّيْلَةِ الْمَطِيرَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوِ اللَّيْلَةِ الْبَارِدَةِ ذَاتِ الرِّيحِ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ”. [ابن ماجہ]

محدثین و فقہا کا فرمان

امام ترمذیؒفرماتے ہیں: اہلِ علم نے بارش اور کیچڑ میں جمعہ اور جماعت کے ترک کی اجازت دی ہے۔ امام احمدؒاور اسحاقؒکا بھی یہی قول ہے۔ قال أبو عيسى:‏‏‏قَدْ رَخَّصَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الْقُعُودِ عَنِ الْجَمَاعَةِ وَالْجُمُعَةِ فِي الْمَطَرِ وَالطِّينِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ:‏‏‏‏ أَحْمَدُ،‏‏‏‏ وَإِسْحَاق. [ترمذی] فتاویٰ عالمگیری میں ہے: صحیح یہ ہے کہ بارش، کیچڑ، شدید سردی اور انتہائی اندھیرے کی وجہ سے جماعت کا حکم ساقط ہو جاتا ہے۔والصحيح أنها تسقط بالمطر والطين والبرد الشديد والظلمة الشديدة.(ہندیہ)

سفر کے دوران بارش میں جماعت

حضرت جابرؓسے روایت ہے، ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، اتنے میں بارش ہونے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے جس کا دل چاہے اپنے ٹھکانے پر نماز پڑھ لے۔‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فِي سَفَرٍ فَمُطِرْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ “لِيُصَلِّ مَنْ شَاءَ مِنْكُمْ فِي رَحْلِهِ”. [ابوداود ]آپ ﷺجب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تھے تو آپ کے خیمے کے قریب جگہ ہموار کر کے عارضی مسجد بنالی جاتی تھی،سب وہاں باجماعت نماز پڑھتے تھے، مگر جب بارش ہوتی تو آپ موذن کو حکم دیتے کہ وہ اذان کے بعد اعلان کرے’لوگ کجاووں میں نماز پڑھیں‘ کیوں کہ عارضی جگہ بھیگ چکی ہوتی تھی اس لیے یہ رخصت دی جاتی تھی۔ [تحفۃ القاری]

اعلان اذان میں کرے یا بعد میں

حنفیہ کے نزدیک اذ ان کے دوران گفتگو کرنا مکروہ ہے کیوں کہ اذان بھی تشہد کی طرح ذکرِ معظم ہے، لہٰذا غیر اذ ان کو اذان میں داخل کرنا کلامِ مسنون کو تبدیل کرنے کے مترادف ہے اور امت کا عمل ہمیشہ اذان کے دوران کلام نہ کرنے کا رہا ہے، لیکن چوںکہ حضرت ابن عباسؓوغیرہ کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمات -ألا صلوا فى رحالكم-اذ ان کے دوران کہے گئے تھے، لہٰذا اذان کے دوران میں یہ کلمات کہنا حرام نہیں، خلافِ اولیٰ ہے اور بعد میں کہنا احسن ہے، اس کی دلیل حضرت ابنِ عمرؓ کی روایت ہے، جو اوپر گزری۔ فالحاصل أن الحنفية أخذوا بحديث ابن عمر لما فيه من التصريح ما ليس في حديث ابن عباس أنه ما كان يأمر من يؤذن أن يقول على أثره (يعنى بعد الفراغ من الأذان) : ألا صلوا فى رحالكم. وهذا هو مقتضى القياس ، لأن الأذان ذكر معظم كالتشهد وإدخال غيره فيه يغير النظم المسنون ، ولكن لما كان الظاهر من حديث ابن عباس وابن النحام أن هذه الكلمة تقال فى نفس الأذان لم يقولوا بحرمته ، بل قالوا إن الكلام في أثناء الأذان خلاف الأولى وبعده أحسن ، لئلا ينخرم نظم الأذان.[اعلاءالسنن]

کتنی بارش میں مسجد نہ آنے کی رخصت ہے؟

حضرت ابوملیح کہتے ہیں کہ میں بارش کی رات میں نکلا، جب میں واپس آیا اور میں نے دروازہ کھلوایا تو میرے والد نے پوچھا: کون ؟ میں نے کہا ابوملیح! انھوں نے فرمایا: ہم نے اپنے آپ کو حدیبیہ کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ دیکھا کہ بارش برسی اور ہمارے جوتے بھی تر نہ ہونے پائے تھے کہ رسول اللہ ﷺ کے منادی نے ندا لگائی کہ اپنے ٹھکانوں میں نماز پڑھ لو۔ ‏عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجْتُ فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا رَجَعْتُ اسْتَفْتَحْتُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبِي:‏‏‏‏ مَنْ هَذَا؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَبُو الْمَلِيحِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ “لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَصَابَتْنَا سَمَاءٌ لَمْ تَبُلَّ أَسَافِلَ نِعَالِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَادَى مُنَادِي رَسُولِ اللَّهِ ﷺ صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ”. [ابن ماجہ ] ابوداود شریف میں نمازِ جمعہ کا ذکر ہے۔ابوملیح سے روایت ہے، انھوں نے اپنے والد سے سنا، وہ کہتے تھے کہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر جمعے کے دن میں رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس دن بارش ہو رہی تھی، مگر اتنی کم کہ لوگوں کے جوتوں کے تلے بھی نہ بھیگ سکے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو حکم دیا کہ اپنے اپنے ٹھکانوں پر نماز پڑھ لو۔ ‏‏عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ ﷺ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَصَابَهُمْ مَطَرٌ لَمْ تَبْتَلَّ أَسْفَلُ نِعَالِهِمْ”فَأَمَرَهُمْ أَنْ يُصَلُّوا فِي رِحَالِهِمْ”. [ابوداود]

جب مسجد جانے کے لیے صاف راستہ ہو

موسیٰ بن عبداللہ بن یزیدبنی عبداشہل کی ایک عورت کا بیان ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول ﷺ! ہمارا مسجد میں جانے کا راستہ گندہ ہے، جب بارش ہو تو ہم کیا کریں؟ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: کیا اس گندے راستے کے بعد کوئی صاف راستہ بھی ہے؟ میں نے عرض کیا : ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا: پس یہ دوسرا راستہ پہلے راستے کا بدل ہے۔ ‏عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ،‏‏‏‏عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ لَنَا طَرِيقًا إِلَى الْمَسْجِدِ مُنْتِنَةً، ‏‏‏‏‏‏فَكَيْفَ نَفْعَلُ إِذَا مُطِرْنَا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ “أَلَيْسَ بَعْدَهَا طَرِيقٌ هِيَ أَطْيَبُ مِنْهَا ؟. قَالَتْ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَهَذِهِ بِهَذِهِ”. [ابوداود]

مسجد میں جماعت موقوف نہیں ہوگی

دھیان رہے؛ سخت سردی یا بارش میں یا طوفانی ہوا ہو تب بھی مسجد میں جماعت موقوف نہیں رہے گی، جماعت بہ ہر حال ہوگی، البتہ لوگوں کے لیے اعلان کیا جائےگا کہ گھروں میں نماز پڑھیں اور جو لوگ مسجد کے قریب رہتے ہیں وہ نماز کے لیے مسجد میں آئیں گے اور امام و موذن تو ہو نگے ہی، یہ لوگ جماعت کر لیں گے۔ اسی طرح جمعے کے دن جو لوگ آجائیں ان کو امام جمعہ پڑھائے اور خطبہ بھی دے، خطبہ اور جماعت موقوف نہیں رہیں گے۔ [تحفۃ القاری]

[کالم نگارالفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here