تراویح کی تعدادِ رکعات اور اس میں ختمِ قرآن کی حیثیت
تراویح ختمِ قرآن کی شرعی حیثیت
ز: تراویح میں قرآن سننا افضل ہے یا کہ الم تر کیف سے تراویح افضل ہے؟
لصحیح مذہب اور قولِ اصح یہ ہے کہ تراویح میں ایک قرآن ختم کرنا سنتِ مؤکدہ ہے۔ قوم کی کاہلی کی وجہ سے اسے ترک نہ کیا جائے۔ اور دو ختم کرنے میں فضیلت ہے اور تین ختم کرنا افضل ہے۔ جہاں فقہاء نے ایک ختم کو سنت لکھا ہے اس سے ظاہراً سنتِ مؤکدہ مراد ہے، الخ۔ (امداد الفتاویٰ ۱/۳۰۰) والختم مرة سنة مؤکدة۔ (نهایة شرح هدایه ۱ /۱۳۱) (از فتاویٰ رحیمیہ ۴۰۵،۴۰۶) والتفصیل ھناك فارجع إلیھا.
تراویح میں بیس رکعات کا ثبوت
زکیا تراویح ۸؍رکعت ہے یا ۲۰؍رکعت؟ غیر مقلدین حضرات احناف کی کتابوں سے ۸؍رکعت کا ثبوت نکالتے ہیں، جیساکہ انور شاہ کشمیری نے ترمذی کی تقریر ’’عرف الشذي‘‘ ۲۲۹ میں لکھا ہے: ولامناص من تسلیم أن تراویحه علیه السلام کانت ثمانیة رکعات۔ اور۳۳۰ : وأما النبي فصح عنه ثمان رکعات.۲ ’’مراقي الفلاح شرح نورالایضاح‘‘ میں فاضل ابوالاخلاص شرنبلالی کہتے ہیں: صلاته بالجماعة سنة کفایة، لما ثبت أنه ﷺ صلی بالجماعة أحدی عشرة رکعة بالوتر۔۳ اور فاضل طحطاوی در مختار کی شرح ۱/۲۹۶ میں لکھتے ہیں: لأن النبيﷺ لم یصلھاعشرین؛ بل ثمانیا، ولم یواظب علی ذلك۔ امام سیوطی نے اپنی کتاب’’المصابیح‘‘ طبع ہند کے ۴۳ میں لکھا ہے:الحاصل أن العشرین لم یثبت من فعلہ الخ۔عبدالحق محدث دہلوی ’’ماثبت بالسنة‘‘ ۸۸: ’’لیکن محدثین نے لکھا ہے کہ بیس والی روایت ضعیف ہے، صحیح تو حضرت عائشہ والی گیارہ ہے۔ ملاعلی قاری مرقات: ’’فتحصل من ھذا کله أن التراویح في الأصل إحدی عشرة رکعة‘‘۔ الخ۔ سید احمد طحطاوی حنفی شرح درمختار: ’’وقد ثبت أن ذلك کان أحدی عشرة رکعة بالوتر، کما ثبت في الصحیح من حدیث عائشة‘‘۔’’منیۃ المصلی‘‘ کی شرح ’’کبیری‘‘ کے ۳۹۳مطبوعہ لاہور میں لکھا ہے: ’’أنه علیه الصلوٰة والسلام قام بھم في رمضان فصلی ثمان رکعات وأوتر‘‘۔ الخ، ۳۹۴: فانها صلی بھم ثمان رکعات واوترالخ۔ ابن ماجہ: جابرکی روایت آٹھ رکعت والی، امام ابن الہمام ’’فتح القدیر شرح ھدایه‘‘ ۲۰۵ میں ۸/رکعت کا ثبوت ہے۔ کیا حضرت عمرکی روایت جو یزید ابن رومان سے منقول ہے، تو کیا یزید بن رومان نے حضرت عمرکا زمانہ نہیں پایا؟ کیا سند منقطع ہے؟ کیا یہ طریقہ جس طریقہ پر یہ نماز پڑھتے ہیں، جب کہ عبدالحق بنارسی نے یہ جماعت بنائی، اس سے پہلے کوئی اس طریقہ سے نماز پڑھتا تھا؟ جیسا کہ احناف کی کتابیں شوافع کی کتابیں شاہد ہیں۔
ل’’مراقي الفلاح‘‘ میں ہے: وھي عشرون رکعة بإجماع الصحابة۔ (اور تراویح کی بیس رکعتیں ہیں، صحابۂ کرام؇ کے اجماع سے)۔ (مراقي الفلاح علی ھامش الطحطاوي ۲۲۵)اس کی مزید تفصیل دیکھنا چاہیں تو فتاویٰ رحیمیہ جلد اول ۲۸۲ سے لے کر ۳۴۳ کا مطالعہ فرمائیں۔ اس میں غیر مقلدین حضرات کے اس فریب کی مکمل پردہ دری کی ہے۔ ان تمام کتابوں سے بلکہ فقہ حنفی کی دیگر معتبر کتابوں سے اور مستند علمائے احناف کے حوالے سے اس کا بیس رکعات ہونا تفصیل سے ثابت کیا ہے۔ حضرت عمر سے بیس رکعت کے ثبوت کے سلسلے میں فخر المحدثین حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی مدظلہم کی کتاب ’رکعاتِ تراویح‘ کا مطالعہ فرمائیں۔ اس مختصر فتویٰ میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
رمضان کی ستائیسویں میں ختمِ قرآن
ز ہرسال رمضان المبارک کی ستائیسویں رات میں قرآن پاک کو پورا کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
ل ضروری نہیں البتہ افضل ومستحب ہے۔ (مسائلِ تراویح بحوالۂ فتاوی محمودیہ ۲/۳۵۵)٭٭