تراویح کے بعض بنیادی مسائل
تراویح کی جماعت کا ثبوت
ز حضور اقدسﷺ نے تراویح جماعت سے نہیں پڑھی تو تراویح جماعت سے پڑھنا کیسے مشروع ہوئی؟ واضح فرمائیں۔
لتین رات آپﷺ نے بھی جماعت سے پڑھی ہے، پھر وجوب کے اندیشے سے ترک فرمادیا۔ بعد میں صحابۂ کرام ؇ کا اس پر اجماع ہوا۔
ایک ہی مسجد میں متعدد تراویح
ز جامع مسجد میں اعلان یہ ہوا کہ نیچے کی منزل میں سوا پارہ تراویح میں پڑھا جائے گا، دوسری منزل میں ساڑھے تین پارے تراویح میں دوسرے حافظ اسی وقت میں سنائیںگے، آیا ایک ہی وقت میں دو حافظ دومنازل میں علاحدہ علاحدہ قرآن شریف نمازِ تراویح میں سناسکتے ہیں یانہیں؟کیا ایک حافظ کے پیچھے ایک جماعت مسجد میں ہورہی ہو تو اسی وقت میں مسجد کے صحن میں دوسرے حافظ کے پیچھے دوسری جماعت ادا کی جاسکتی ہے یانہیں؟
لمسجد میں جماعت کا تعدد مکروہ ہے اور اس کا عموم جماعتِ تراویح کوبھی شامل ہے، لہٰذا یہ بھی مکروہ ہے۔ خواہ ایک ہی وقت میں تراویح کی متعدد جماعتیں ہوں یا مختلف اوقات میں۔ (احسن الفتاوی۳/۵۲۶)
عشاء بعد تراویح کا اعلان
زہمارے یہاں مسجد میں بہت پہلے سے ماہِ رمضان میں عشاء کی اذان سے قبل ’’الصلاة سنة التراویح رحمکم اللہ الصلاة‘‘تین دفعہ مؤذن لاؤڈ اسپیکر میں پکارتا ہے اور عشاء کی ادا فرض کے بعد یہی الفاظ پہلے مؤذن بآواز بلند پکارتا ہے، پھر لوگ تراویح کے لیے کھڑے ہوتے ہیں اور پھر بعد تراویح کے ’’الصلاة واجب الوتر رحمکم اللہ الصلوٰة‘‘ مؤذن پکارتا ہے، پھر لوگ وتر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ کیا ان الفاظ کا ثبوت احادیثِ نبوی سے ملتا ہے اور کیا یہ مسنون ہے یا بدعت محض ہے؟
لخیرالقرون میں عرب وعجم میں کثیر تعداد میں جہلااور نو مسلم ہونے کے باوجود سلفِ صالحین سے ایسا اعلان ثابت نہیں، حالاں کہ وہ حضرات اسلامی اعمال کی تبلیغ میں نہایت چست اور عبادت کی درستگی میں بڑے حریص تھے۔ فقہاء نے بھی اس طرح کے اعلان کی ہدایت نہیں کی ہے۔ اگر ضرورت ہوتی تو ضرور تاکید فرماتے جیسے مسافر امام کو خصوصی تاکید فرمائی ہے کہ نمازیوں کو اپنے مسافر ہونے کی اطلاع دےدے، چاہے نماز سے پہلے ہو یا بعد میں- کہ ’میں مسافر ہوں‘ -کیوں کہ یہاں ضرورت ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے تنبیہ فرمائی ہے کہ مباح چیزوں کو ضروری سمجھنے سے دیگر خرابیوں کے سوا اس بات کا بھی احتمال ہے کہ مباح کو مسنون سمجھ لیا جائے اور غیر مسنون کو مسنون سمجھنا تحریفِ دین ہے۔ (ازالۃ الخفاء،ماخوذ از فتاویٰ رحیمیہ ۱/ ۲۴۵،۲۴۶)
تراویح میں سامع
ز نمازِ تراویح میں جو حافظ قرآن پاک سناتا ہے، اس کے پیچھے اگر سامع نہ ہو، تو کیا حکم ہے؟ آیا سامع کا ہونا شرعاً کیسا ہے؟
لاگر پڑھنے والے کا حفظ پختہ ہے، تو سامع ضروری نہیں۔ (احسن الفتاوی۳/۵۲۱)
تراویح میں نابالغ کی امامت
ز ایک بچے کے ۲۲/پارے ہوگئے ہیں، اور ۱۲/سال کی عمر ہے، تیرھویں سال میں چل رہا ہے اور قد بہت چھوٹا ہے، یعنی گِڈّا ہے۔ یہ رمضان المبارک میں تراویح پڑھا سکتا ہے یا نہیں؟
لتیرہ سال کا بچہ اگر اس کو احتلام وانزال نہیں ہوا ہے تو نابالغ ہے اور نابالغ کے پیچھے بالغ کی نماز درست نہیں ہوتی۔ اس لیے وہ تراویح میں امامت نہیں کراسکتا۔ البتہ اگر اس کو انزال ہوچکا ہے تو وہ بالغ ہے، اس صورت میں وہ تراویح میں بھی امام بن سکتا ہے۔٭٭