جاگنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں وقت گزارا جائے

جاگنے کامطلب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں وقت گزارا جائے
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
شب ِ قدر کے متعلق بہت سارے اقوال ہیں،پچاس(۵۰)قول ہیں کہ کب ہوتی ہے؟ بعض حضرات اس طرف گئے ہیں، علّامہ ابن عربی نے بھی کہا ہے کہ سال بھرمیں گھومتی رہتی ہے ۔حضرت شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ شب ِقدر دو ہوتی ہیں، ایک تووہ جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کے متعلق فیصلے ہوتے ہیںاور بڑے بڑے معاملات طے ہوتے ہیں ؛وہ توسال بھر میں گھومتی رہتی ہے،اورقرآنِ پاک جس سال نازل ہوا وہ رمضان المبارک میںتھی ۔اس لیے کہ قرآن پاک کے نزول دوہیں ،ایک تو لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیاتک جویک بارگی ہواہے۔اوردوسرانزول آسمان دنیاسے حضوراکرمﷺ پر؛ وہ تیئس(۲۳)سال تک مختلف اوقات میں اُترتا رہا۔لہٰذا﴿اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر﴾ سے مراد یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ نے لوحِ محفوظ سےآسمانِ دنیا پرجواُتاراوہ اسی رات میںاتاراجو اس سال رمضان میں تھی۔ اوردوسری وہ رات جس میں دعائیں اورعبادتیں قبول ہوتی ہیںاور انوارات کا ایک خاص انتشار ہوتا ہے؛ وہ البتہ رمضان ہی میں ہوتی ہے ۔ویسے اکثر حضرات اِس طرف گئے ہیں کہ شب ِ قدر رمضان ہی میں ہوتی ہے، اوررمضان میں آخری عشرہ ہی میں اوراس میں بھی آخری عشرہ کی طاق راتوںیعنی ۲۱،۲۳،۲۵،۲۷اور۲۹ میں ہوتی ہے۔اگر چہ بعضوں نے پورے عشرہ ہی میں زیادہ تلاش کرنے کوکہا ہے، حضوراکرم ﷺکے زمانہ میںاکیس ( ۲۱)تئیس(۲۳)اورچوبیس(۲۴ )میںہوناروایتوںمیںآیا ہے، اور حضرت ابی بن کعب؄جواکابر ِ صحابہ میں سے ہیں وہ توفرماتے ہیں کہ ستائیس ( ۲۷ )ہی کوشب ِ قدر ہوتی ہے۔اس لیے آدمی کورمضان المبارک کی راتوں میں خاص طور سے اہتمام کرناچاہیے۔
حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ آدمی کوپورے سال رات کی دونمازوں یعنی مغرب اور عشاء کو جماعت کے ساتھ اداکرنے کااہتمام کرنا چاہئے ۔اس لیےکہ فجر صبحِ صادق کے بعد ہوتی ہے،لہٰذاوہ تو دن کی نماز میں آجاتی ہے۔اس لیےکم سے کم یہ دو نمازیں جماعت کے ساتھ اداکرنے کاپورے سال اہتمام کروگے توشب ِ قدر میں عبادت ہوہی جائے گی اوراس صورت میں بہت بڑاثواب مل جائے گااور یہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
حضراتِ صحابہ؇ ان راتوں میں عبادات کاخاص اہتمام کرتے تھے۔ حضرت عمر؄ رمضان کاپورامہینہ سوتے نہیں تھے ،رات بھر عبادت میں مشغول رہتے تھے۔حضرت عثمان ؄سے بھی پوراپورا قرآن ایک رات میں پڑھنا ثابت ہے ۔حضراتِ تابعین میں سے بہت سے حضرات وہ تھے جوسال بھر رات میں ہمیشہ جاگاکرتے تھےجیساکہ پہلے بتلاچکاہوں ۔حضرت سعید بن مسیّب جو اکابرِ تابعین میں سے ہیں ان کے متعلق ہے کہ پچاس سال تک انھوں نے عشاء کے وضو سے فجر کی نماز اداکی۔ حضرت امام ابوحنیفہ کے متعلق بھی یہی ہے ۔وہ حضرات رات بھر عبادت کا اہتمام کرتے تھے۔ حضرت شدّاد کے متعلق لکھاہے ،وہ فرماتے تھے:اے اللہ! جہنم کی آگ نے میری نیند اڑادی۔ حضرت صلہ بن اشْیَم کےمتعلق لکھاہے کہ وہ رات بھر عبادت کرتے تھے اور جب سحر کاوقت ہوتاتو صبحِ صادق سے پہلے یہ دعا کرتے تھے: یااللہ! اس بات کی تو مجھ میںہمت نہیں ہے کہ میں تجھ سے جنّت مانگوں، بس !جہنم کے عذاب سے مجھے بچالینا۔ بہرحال! یہ حضرات عبادت کرنے کے بعد ڈرتے رہتے تھے،انھیں کے اوصاف میں یہ آیت ہے ﴿وَبِالْأَسْحارِہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾رات کے آخری حصہ میں وہ لوگ اپنے گناہوں سے معافی مانگتے ہیں ۔گویا رات بھر کی اپنی عبادت کوبھی وہ لوگ نیکی نہیں سمجھتے،بلکہ یوںسمجھتےہیںکہ پتہ نہیں؛ اللہ تعالیٰ کے یہاں قبول ہو ئی یا نہیں۔
قرآنِ پاک میں ہے:﴿وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ﴾وہ لوگ جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں توایسی حالت میں کرتے ہیں کہ ان کے دل ڈرے رہتے ہیں۔ کسی نے حضرت عائشہ ؅سےپوچھا:﴿یُؤْتُوْنَ مَاآتَوْا وَّقُلُوْبُہُمْ وَجِلَۃٌ﴾کا کیامطلب ہے ؟کیاگناہ کرنے کے بعد ڈرےسہمے رہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: ایسا نہیں ہے،گناہ کرنے کاتوسوال ہی نہیں،بلکہ ان لوگوں کاحال یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ انجام دینےکے بعد اس بات سے ڈرے رہتے ہیں کہ پتہ نہیں !ہمارایہ عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول بھی ہوا یا نہیں،اللہ تعالیٰ کے دربارکی شان کے مطابق ہے بھی یانھیں، کہیں ایسا نہ ہوکہ منھ پرماردیا جائے ۔اس لیےہمیںبھی ان کیفیات کے ساتھ عبادات کا اہتمام کرنا چاہیے۔
ہمارے معاشرہ کی عام وبا
آج ہم میں ایک بڑی مصیبت یہ ہے کہ مبارک رات ہوتی ہے توکہتےہیںکہ بڑی رات ہے؛جاگو۔ حالاںکہ جاگنے کامطلب صر ف جاگنا نہیںہے،بلکہ جاگ کر عبادت کرناہے۔ بہت سے لوگ صرف جاگنے ہی کوکافی سمجھتے ہیں ،اور کسی بھی طریقے سے وقت گزاری ، مجلس بازی ،لطیفہ بازی ،اور پتہ نہیں کیسےکیسےکاموںمیں مشغول ہوجاتے ہیں،بعض لوگ گناہوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔نوجوان موٹرسائیکل لےکر گھومنے نکل جاتے ہیں، چوپاٹی کے چکّرلگاتے ہیں؛یہ سب بالکل غلط طریقے ہیں۔ ارے اللہ کے بندو!اگریہی سب کرنا تھا توپھرتوسو گئے ہوتے یہ زیادہ اچھا تھا۔ یہ رات صرف جاگنے کی نہیں ہے،اورصرف جاگنا مقصودبھی نہیںہے،بلکہ مقصود تو عبادت ہے، اگرجاگ کر اس کوضائع کرنا ہے تواس کے بجائے آدمی سوجائےیہ زیادہ اچھاہے، تاکہ اتناوقت گناہوں سےتو اپنے آپ کوبچاکر رکھ سکے۔
شیخ سعدی کاواقعہ پہلے بھی کبھی سناچکاہوں کہ ان کوان کے والدصاحب نے بچپن ہی سے رات کو تہجد میں نماز کےلیے اٹھنے کی عادت ڈالی تھی، وہ خود فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایساہوا کہ ہم تہجد کی نماز کےلیے اٹھے،جب نماز سے فارغ ہوئےتو دیکھا کہ دوسرے لوگ سورہے تھے ،میںاس وقت بچّہ تھا، میں نے والد صاحب سے کہا :یہ لوگ ایسےپڑے ہوئےہیں جیسےکہ مردے پڑے ہوں۔تو والدصاحب نےمجھ سے کہا: بیٹا!توبھی اگرسویا رہتا توزیادہ اچھاتھااس بات سےکہ لوگوں کی غیبت میں مشغول ہوا۔ تودرحقیقت جاگنے کامطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوا جائے اور ایسی مبارک راتوں اورایسے مبارک اوقات میں چھوٹے بڑے ہرگناہ سے اپنے آپ کو بچانےکاخصوصیت کے ساتھ اہتمام کرناچاہیے، خدانہ کرے ان راتوں میں اگر کوئی آدمی گناہ میںمبتلاہوگیاتو جیسے ان راتوں میں عبادت کاثواب بہت بڑا ہے، اسی طریقہ سے ان میں گناہ کی وجہ سے وبال بھی بہت بڑا ہے۔ جیسے: کوئی آدمی حرم میں جاکرعبادت کرےگاتوایک لاکھ گناثواب ملتا ہے ، اسی طرح وہاں اگرگناہ کرے گا توگناہ کاوبال بھی اُسی مناسبت سے ہواکرتا ہے۔ بہرحال! جاگنے کامطلب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں وقت گزارا جائے۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here