مفتی ندیم احمد انصاری
[تفسیر آیاتِ جمعہ: پہلی قسط]
[۱]پہلی آیت:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۭ ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ[الجمعۃ:9]اے ایمان والو ! جب جمعے کے دن نماز کے لیے پکارا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف لپکو، اور خریدو فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم سمجھو۔
q{يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا}
اللہ تعالیٰ نے جمعے کے لیے مومنین کو خطاب فرمایا، کافروں کو خطاب نہیں فرمایا، مقصد ان کی تکریم اور شرف کا اظہار ہے۔ اس امر پر اجماع ہے کہ یہاں خطاب صرف عاقل، بالغ مومنوں کو ہے، اس خطاب سے مریض، اپاہج، مسافر، غلام اور عورتیں خارج ہیں۔[تفسیرِ قرطبی] جمعے میں آنے کا حکم آزاد مَردوں کو ہے، عورتوں، غلاموں اور بچوں کو نہیں، مسافر ،مریض اور تیمار دار، اور ایسے ہی اور عذر والے بھی معذور شمار کیے گئے ہیں، جیسے کہ کتبِ فروع میں اس کا ثبوت موجود ہے۔[تفسیر ابن کثیر]
ہمارے علما نے فرمایا : جس پر جمعہ ادا کرنا لازم ہے، وہ جمعہ ادا کرنے سے پیچھے نہ رہے، مگر ایسے عذر کی صورت میں- جس کی موجودگی میں اس کے لیے جمعہ ادا کرنا ممکن نہ ہو- جس طرح ایسا مرض‘ جو اسے روک دے، مرض کے بڑھنے کا خوف، سلطان کے ظلم کا خوف‘ خواہ مال میں ہو یا بدن میں، ہاں حق لینے کا مسئلہ ہو تو صورت الگ ہے، موسلادھار بارش ساتھ میںکیچڑ بھی ہو، یہ عذر شمار ہوگا، جب کہ بارش ختم نہ ہو۔ جو آدمی کسی قریبی رشتے دار کی تیمار داری کی وجہ سے جمعہ ادا نہیں کرتا- جس کی موت کا وقت قریب ہواور اس کے پاس کوئی ایسا شخص بھی نہ ہو جو اس کی جگہ یہ خدمت انجام دے سکے- تو یہ امید کی جاتی ہے کہ اس کے لیے اس میں گنجائش موجود ہے، حضرت ابن عمرؒ نے ایسا ہی کیا۔ [تفسیرِ قرطبی]
عبداللہ بن حارث- محمد بن سیرین کے چچاز بھائی- روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓنے بارش کے دن اپنے مؤذن سے کہا: جب تم أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِکہہ لو تو اس کے بعد حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ نہ کہو، بلکہ صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ (اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو) کہنا۔ لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا تو انھوں نے کہا کہ یہ اس شخص نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر ہے، اور نمازِ جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمھیں نکالوںکہ تم کیچڑ اور مٹی میں چلو۔ [بخاری] جو آدمی عذر کے بغیر نمازِ جمعہ میں شامل نہ ہوا اوراس نے امام سے قبل نماز (ظہر) پڑھ لی، تو وہ نماز کا اعادہ کرے، اس کے لیے جائز نہیں کہ اس سے پہلے نماز پڑھے جب کہ نمازِ جمعہ میں شامل ہو سکتا تھااور وہ اس میں شامل نہ ہوا وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے والا ہوگا۔ [تفسیرِ قرطبی]
q{اِذَا نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِفَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ}
’نداے صلوٰۃ‘ سے مراد اذان ہے اور {مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ}بہ معنی {فِیْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ}ہے۔ {فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ} سعی کے معنی دوڑنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کام کو اہتمام کے ساتھ کرنے کے بھی، اس جگہ یہی دوسرے معنی مراد ہیں۔۔۔آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب جمعے کے دن جمعے کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑویعنی نماز و خطبے کے لیے مسجد کی طرف چلنے کا اہتمام کرو، جیسا ڈرنے والا کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہیں دیتا، اذان کے بعد تم بھی کسی اور کام کی طرف بہ جُز نماز و خطبے کے توجہ نہ دو۔
ذِكْرِ اللّٰهِ سے مُراد نمازِ جمعہ بھی ہو سکتی ہے اور خطبۂ جمعہ- جو نماز کے شرائط و فرائض میں داخل ہے- وہ بھی ہو سکتا ہے، اس لیے مجموعہ دونوں کا مراد لیا جائے، یہ بہتر ہے۔اذانِ جمعہ شروع میں صرف ایک ہی تھی- جو خطبے کے وقت امام کے سامنے کہی جاتی ہے- رسول اللہﷺ کے زمانے میں، پھر صدیقِ اکبرؓاور فاروق اعظمؓکے زمانے میں اسی طرح رہا ، حضرت عثمان غنیؓکے زمانے میں جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی اور اطرافِ مدینہ میں پھیل گئی، امام کے سامنے والی خطبے کی اذان دور تک سنائی نہ دیتی تھی تو عثمان غنیؓنے ایک اور اذان مسجد سے باہر اپنے مکان زَورا پر شروع کرا دی، جس کی آواز پورے مدینے میں پہنچنے لگی، صحابۂ کرامؓمیں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا ، اس لیے یہ اذانِ اول بہ اجماعِ صحابہؓمشروع ہو گئی اور اذانِ جمعہ کے وقت بیع و شراوغیرہ تمام مشاغل حرام ہو جانے کا حکم- جو پہلے اذانِ خطبہ کے بعد ہوتا تھا- اب پہلی اذان کے بعد سے شروع ہو گیا، کیوں کہ الفاظِ قرآن {نُوْدِيَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ} اس پر بھی صادق ہیں۔[معارف القرآن]اذانِ قدیم میں یہ حکم منصوص و قطعی ہوگا اور اذانِ حادث میں یہ حکم مجتہد فیہ اور ظنی رہے گا، اس تقریر سے تمام علمی اشکالات مرتفع ہوگئے۔ [تفسیرِ عثمانی]
حضرت حسنؓفرماتے ہیں: اللہ کی قسم! یہاں یہ حکم نہیں کہ دوڑ کر نماز کے لیے آؤ، یہ تو منع ہے، بلکہ مراد دل اور نیت اور خشوع وخضوع ہے۔حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں: اپنے دل اور اپنے عمل سے کوشش کرو، جیسے دوسری جگہ ہے: {فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ}حضرت ذبیح اللہ جب خلیل اللہ کے ساتھ چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے۔[تفسیر ابن کثیر]
q {وَذَرُوا الْبَيْعَ}
پھر فرمایا: بیع کو چھوڑ دو یعنی ذکر اللہ کے لیے چل پڑو، تجارت کو ترک کردو، جب نمازِ جمعہ کی اذان ہوجائے۔ یہاں اصل اس بات کا حکم دینا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کرنے والے امور مثلاً دنیا کے مشاغل‘ ان کو چھوڑ دو، البتہ ان مشاغل میں سے بیع کو خاص اس لیے کیا گیا کیوں کہ جمعے کے دن بیع و شرا زوال کے وقت کثرت سے ہوتی ہے، اس لیے فرمایا گیا کہ آخرت کی تجارت میں جلدی کرو اور دنیا کی تجارت کو چھوڑ دو اور اللہ تعالیٰ کی یاد کی طرف جلد لپکو، اس سے زیادہ نفع بخش اور فایدے مند کوئی چیز نہیں ہے۔[تفسیرِ نسفی]
صرف بیع کہنے پر اکتفا کیا گیا اور مُراد بیع و شرا (یعنی خرید و فروخت) دونوں ہیں، وجہ اکتفا کی یہ ہے کہ ایک کے چھوٹنے سے دوسرا خود بہ خود چھوٹ جائے گا، جب کوئی فروخت کرنے والا فروخت نہ کرے گا تو خریدنے والے کے لیے خریدنے کا راستہ ہی نہ رہے گا۔ اس میں اشارہ اس طرف معلوم ہوتا ہے کہ اذانِ جمعہ کے بعد خرید و فروخت کو اس آیت نے حرام کر دیا ہے، اس پر عمل کرنا تو بیچنے والوں اور خریداروںں سب پر فرض ہے، مگر اس کا عملی انتظام اس طرح کیا جائے کہ دکانیں بند کر دی جائیں تو خریداری خود بہ خود بند ہو جائے گی، اس میں حکمت یہ ہے کہ گاہکوں اور خریداروں کی تو کوئی حدو شمار نہیں ہوتی، ان سب کے روکنے کا انتظام آسان نہیں، فروخت کرنے والے دکان دار متعین اور معدود ہوتے ہیں، ان کو فروخت سے روک دیا جائے تو باقی سب خرید سے خود رک جائیں گے، اس لیے {ذَرُوا الْبَيْعَ} میں صرف بیع چھوڑ دینے کے حکم پر اکتفا کیا گیا ۔۔۔اذانِ جمعہ کے بعد سارے ہی مشاغل کا ممنوع کرنا مقصود تھا، جن میں زراعت ، تجارت ، مزدوری سبھی داخل ہیں، مگر قرآنِ کریم نے صرف بیع کا ذکر فرمایا، اس سے اس طرف بھی اشارہ ہو سکتا ہے کہ جمعے کی نماز کے مخاطب شہروں اور قصبوں والے ہیں، چھوٹے دیہات اور جنگلوں میں جمعہ نہیں ہوگا، اس لیے شہروں اور قصبوں میں جو مشاغل عام لوگوں کو پیش آتے ہیں‘ ان کی ممانعت فرمائی گئی، وہ بیع و شرا کے ہوتے ہیں ، بہ خلاف گاؤں والوں کے کہ ان کے مشاغل کاشت اور زمین سے متعلق ہوتے ہیں، اور بہ اتفاقِ فقہاے امت یہاں بیع سے مراد فقط فروخت کرنا نہیں، بلکہ ہر وہ کام جو جمعے کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہو، وہ سب بیع کے مفہوم میں داخل ہے، اس لیے اذانِ جمعہ کے بعد کھانا، پینا ، سونا ، کسی سے بات کرنا ، یہاں تک کہ کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ، سب ممنوع ہیں ، صرف جمعے کی تیاری کے متعلق جو کام ہوں وہ کیےجا سکتے ہیں۔ [معارف القرآن]
q{ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ}
پھر فرمایا:بیع کو چھوڑ کر ذکر اللہ اور نماز کی طرف تمھارا آنا ہی تمھارے حق میں دین و دنیا کی بہتری کا باعث ہے، اگر تم میں علم ہو۔[تفسیر ابن کثیر]
[کالم نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]
۔۔۔جاری۔۔۔