مفتی ندیم احمد انصاری
تفسیر آیاتِ جمعہ
[دوسری اور آخری قسط]
[۲]دوسری آیت:
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ [الجمعۃ]پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تمھیں فلاح نصیب ہو۔
q{فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوةُ}
جب نماز سے فراغت ہوجائے تو اس مجمع سے چلے جانا اور اللہ کے فضل کی تلاش میں لگ جاناتمھارے لیے حلال ہے۔[تفسیر ابن کثیر]
q{فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ}
انتشار کا حکم اس وجہ سے ہوا کہ ضرورتِ اجتماع باقی نہیں رہی، اگر مختلف الطبع لوگ بلا ضرورت ایک جگہ رہیں گے تو فساد و نزاع کا احتمال ہے اور اسی لیے {انْتَشِرُوْا}کے بعد یہ بھی فرما دیا کہ {ابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ} جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد سے نکل کر بھی آوارہ نہ پھرو، بلکہ خدا کے رزق کی طلب میں مشغول ہو جاؤ۔[اشرف التفاسیر]
q{وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ}
عراک بن مالکؓجمعے کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوٹ کر مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوجاتے اور یہ دعا پڑھتے:أَللّٰهُمَّ إِنِّي أَجَبْتُ دَعْوَتَكَ، وَصَلَّيْتُ فَرِيْضَتَكَ، وَانْتَشَرْتُ كَمَا أَمَرْتنِي، فَارْزُقْنِي مِنْ فَضْلِكَ، وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ.اے اللہ میں نے آپ کی آواز پر حاضری دی، آپ کی فرض کردہ نماز ادا کی، پھر آپ کےحکم کے مطابق اس مجمع سے اٹھ آیا، اب آپ مجھے اپنا فضل نصیب فرمائیے! آپ سب سے بہتر روزی دینے والے ہیں۔اس آیت کو پیشِ نظر بعض سلفِ صالحین نے فرمایا ہے کہ جو شخص جمعے کے دن نمازِ جمعہ کے بعد خریدو فروخت کرے، اسے اللہ تعالیٰ ستّر گنا زیادہ برکت دے گا۔[تفسیر ابن کثیر]بعضے اہلِ ہویٰ صرف اسی آخر کے ٹکڑے کو لے لیتے ہیں کہ قرآن میں تلاشِ رزق کا حکم ہے، بس رات دن اسی میں مشغول رہنا چاہیے، گویا تمام قرآن میں ان کو یہی حکم پسند آیا، جیسے کوئی شخص روزہ تو رکھتا نہ تھا، مگر افطاری و سحری میں شریک ہو جاتاتھا، کسی نے کہا کہ روزہ تو رکھتا نہیں، سحری و افطاری کیوں کھاتا ہے؟ کہنے لگا: کیا تمھارا یہ مطلب ہے کہ بالکل ہی کافر ہو جاؤں!ایسے ہی انھیں بھی اوپر کی آیات کے احکام {فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ} تو پسند نہیں آئے، صرف آخر میں {وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ} پسند آیا۔ یہ نفس بڑا اپنے مطلب کا ہے، انتخابِ اعمال میں اس نفس کا یہی خاصہ ہے۔ بہ ہرحال! حق تعالیٰ نے محض {فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ}پر تو اکتفا نہیں فرمایا، کیوں کہ محض مسجد سے نکل جاناہی مقصود نہیں، کیوں کہ وہاں تو نمازی تھے اور یہاں بازار میں اہلِ بازی ہیں، اور نہ محض ابتغاےرزق پر اکتفا فرمایا، بلکہ اسی کے ساتھ {وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا}بھی فرمایا۔ پھر اس {وَابْتَغُوْا}میں بھی ایک قید لگائی یعنی رزق کو جو فضل سے تعبیر فرمایا تو اس کو اللہ کی طرف مضاف فرمایا یعنی اس طرح فرمایا {وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ}جس میں عجیب بلاغت ہے کہ خالی فضل نہیں فرمایا، بلکہ فضل اللہ فرمایا یعنی رزق کو رزق سمجھ کر حاصل نہ کرو، بلکہ خدا کا فضل سمجھ کر حاصل کرو کہ اس میں بھی خدا سے تعلق رکھو۔سبحان اللہ! کیا تعلیم ہے کہ دنیا طلبی میں بھی خدا سے تعلق رکھو، محض دنیا کا قصد نہ رکھو، بلکہ اس کے ساتھ خدا کے تعلق کو بھی ملا لو، یہی عارفین کی تعلیم کا خلاصہ ہے۔ [اشرف التفاسیر]
جعفر بن محمد نے {وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ}کی یہ وضاحت کی ہے کہ اس سے مراد عمل ہے۔ حسن بن سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ اس سے مراد طلبِ علم ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد نقل نماز ہے۔ حضرت ابن عباسؓسے مروی ہے : دنیا کی کسی خاص شے کو طلب کرنے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ اس سے مراد مریضوں کی عیادت، نمازِ جنازہ میں حاضر ہونا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر بھائی سے ملاقات کرنا ہے۔[تفسیرِ قرطبی]
q{وَاذْكُرُوا اللّٰهَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ}
پھر فرمایا:خرید فروخت کی حالت میں بھی ذکر اللہ کیا کرو، دنیا کے نفع میں اس قدر مشغول نہ ہوجاؤ کہ اخروی نفع بھول بیٹھو۔[تفسیر ابن کثیر]سالم بن عبداللہ بن عمراپنے والد حضرت ابن عمرؓسے، وہ ان کے دادا حضرت عمرؓ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺنے فرمایا : جو شخص بازار میں یہ دعا پڑھے: لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهٗ لَا شَرِيْكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، يُحْيِي وَيُمِيتُ، وَهُوَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ، بِيَدِهِ الْخَيْرُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ. اللہ اس کے لیے دس لاکھ نیکیاں لکھ دے گا اور اس کے دس لاکھ گناہ مٹا دے گا اور جنت میں اس کے لیے ایک گھر بنائے گا۔ [ترمذی] حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں: بندہ کثرت سے ذکر کرنے والا اسی وقت کہلاتا ہے جب کھڑے، بیٹھے، لیٹے، ہر وقت اللہ کا ذکر کرے۔[تفسیر ابن کثیر]
[۳]تیسری آیت:
وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَ ۨا انْفَضُّوْٓا اِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا ۭ قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ [الجمعۃ] اور جب کچھ لوگوں نے کوئی تجارت یا کوئی کھیل دیکھا تو اس کی طرف ٹوٹ پڑے اور تمھیں کھڑا ہوا چھوڑ دیا۔ کہہ دیجیے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل اور تجارت سے کہیں زیادہ بہتر ہے، اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔
q{وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَ ۨا انْفَضُّوْٓا اِلَيْهَاوَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕمًا}
مدینے میں جمعے کے دن تجارتی مال کے آجانے کی وجہ سے جو حضرات خطبہ چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے انھیں اللہ تعالیٰ عتاب کر رہا ہے کہ یہ لوگ جب کوئی تجارت یا کھیل تماشہ دیکھ لیتے ہیں تو اس کی طرف چل کھڑے ہوتے ہیں اور آپ کو خطبے میں ہی کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔متعدد تابعینؒ نے اسی طرح ذکر کیا ہے، جن میں ابو العالیہ، حسن، زید بن اسلم اور قتادہ رحمہم اللہ شامل ہیں۔[تفسیر ابن کثیر]حضرت مقاتل بن حیان فرماتے ہیں: یہ مالِ تجارت دحیہ بن خلیفہ کا تھا، جو جمعے کے دن آیا اور شہر میں خبر کے لیے طبل بجنے لگا۔ حضرت دحیہ اس وقت تک مسلمان نہ ہوئے تھے، طبل کی آواز سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے، صرف چند آدمی رہ گئے۔[تفسیر ابن کثیر]حضرت جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت نبی کریم ﷺ کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، ایک قافلہ آیا جس کے ساتھ اونٹوں پر غلّہ لدا ہوا تھا، لوگ اس قافلے کی طرف دوڑ پڑے اور حضرت نبی کریمﷺ کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے، اس پر یہ آیت اتری۔ [بخاری]رسول اللہﷺ نے فرمایا: اگر یہ بھی باقی نہ رہتے اور سب اٹھ کر چلے جاتے تو تم سب پر یہ وادی آگ بن کر بھڑک اٹھتی۔ جو بارہ لوگ حضور کے پاس سے نہیں گئے تھے، ان میں حضرت ابوبکر صدیقؓاور حضرت عمر فاروقؓبھی تھے۔[مسند ابی يعلی الموصلی]یہ واقعہ بہ قول بعض‘اس وقت کا ہے جب رسول اللہ ﷺ جمعے کی نماز کے بعد خطبہ پڑھا کرتے تھے۔ ’مراسیلِ ابوداود‘ میں ہے: رسول اللہ ﷺ خطبے سے پہلے جمعے کی نماز پڑھا کرتے تھے، جیسے عیدین میں ہوتا ہے، یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ خطبہ پڑھ رہے تھے اتنے میں ایک شخص نے آ کر کہا کہ دحیہ بن خلیفہ مالِ تجارت لے کر آگیا ہے، یہ سن کر سوائے چند لوگوں کے اور سب اٹھ کھڑے ہوئے۔[تفسیر ابن کثیر]حضرت حسن بصریؒاور ابو مالکؒنے فرمایا کہ یہ وہ زمانہ تھا، جب کہ مدینے میں اشیائےضرورت کی کمی اور سخت گرانی تھی، یہ اسباب تھے کہ حضراتِ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بڑی جماعت تجارتی قافلے کی آواز پر مسجد سے نکل گئی، اول تو نمازِ فرض ادا ہو چکی تھی ، خطبے کے متعلق یہ معلوم نہ تھا کہ جمعے میں وہ بھی فرض کا جز ہے، دوسرے اشیا کی گرانی ، تیسرے تجارتی قافلے پر لوگوں کا ٹوٹ پڑنا ، جس سے ہر ایک کو یہ خیال ہو سکتا تھا کہ دیر کروں گا تو اپنی ضروریات نہ پا سکوں گا۔ بہرحال! ان اسباب کے تحت صحابۂ کرامؓسےیہ لغزش ہوئی اور اسی کے سبب رسول اللہ ﷺنے خطبے کے معاملے میں اپنا طرز بدل دیا کہ نمازِ جمعہ سے پہلے خطبہ دینے کا معمول بنا لیا اور یہی اب سنت ہے۔ [معارف القرآن]
q{قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ ۭ وَاللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ}
فرمایا: اے نبی ﷺ! انھیں خبر سنا دیجیے کہ دارِ آخرت کا جو ثواب عنداللہ ہے، وہ کھیل تماشوںاور خریدو فروخت سے بہت ہی بہتر ہے، اللہ پر توکل رکھ کرجو شخص اللہ سے طلبِ رزق اجازت کے اوقات میں کرے، اللہ اسے بہترین طریق پر روزی دے گا۔[تفسیر ابن کثیر] یہاں یہ بتایا ہے کہ معاشیات ومالیات میں بھی اصل بھروسہ اپنے اسی رحیم وشفیق خالق ومالک پر رکھو۔ اجرِ آخرت سے قطع نظر، دنیوی اسبابِ رزق کے سلسلے کا بھی آخری سرا تو اسی کے ہاتھ میں ہے۔ [تفسیرِ ماجدی]
[کالم نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]