جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی کی حیات کے ادبی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے!!
شعبۂ اردو، ممبئی یونی ورسٹی‘ کے زیرِ اہتمام طلبۂ تحقیق کی تربیت کے لیے کئی سالوں سے ریسرچ اسوسی ایشن کا قائم ہے، جس میں گاہ بہ گاہ طلبۂ تحقیق میں سے کوئی ایک اپنا تحقیقی مقالہ پیش کرتاہے۔ جس سے ایک طرف طالبِ علم کے حوصلے و اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری طرف سامعین کے اندر تحقیق کا ذوق و جذبہ پروان چڑھتا ہے۔اِنھیں مقاصد کے تحت شعبۂ اردو کے صدر پروفیسر صاحب علی نے ۱۵نومبر ۲۰۱۷ء کو ایک مجلس کا انعقاد کیا، جس کی صدارت معروف محقق پروفیسر نسیم احمد نے کی، جب کہ معروف فکشن نگار قاضی مشتاق احمد مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شریک رہے۔ اس موقع پر ندیم احمد انصاری نے جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی کی نظم و نثر پر اپنا مقالہ پیش کیا، جو اپنے مشمولات اور اظہارِ بیان ہر دو کے اعتبار سے سراہا گیا۔ندیم احمد انصاری نے کہا کہ علومِ اسلامی اور تحقیقِ اسلامی میں سرگرداں اور اصلاح وتذکیر میں مشغول، نیز نت نئے مسائل کی گتھیاں سلجھانے اور ملک و بیرون ِ ملک دور دراز کے سفر کے لیے ہر دم پابہ رکاب رہنے والے جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی نے اردو ادب کی حسین وادیوں کی نہ صرف سیر کی بلکہ اہلِ علم وفن سے دادِ تحسین بھی حاصل کی ہے۔ آپ کے سفر نامے، شخصی خاکے ، کتابی تبصرے اور مختلف اخبارات میں شائع ہو نے والے کالموں کے علاوہ گاہ بہ گاہ منظرِ عام پر آنے والی آپ کی شاعری اہلِ ذوق کی ذہنی بلکہ روحانی آسودگی کا سامان فراہم کرتی ہے۔ ندیم احمد انصاری نے بتایا کہ جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی نے ایک مذہبی، علمی اور ادبی گھرانے میں پرورش پائی کہ والد ماجد مفتیِ اعظم پاکستان ہو نے کے ساتھ ساتھ خوش اسلوب شاعراور بڑے بھائی زکی کیفی صاحبِ ’کیفیات‘بھی ممتاز شاعر تھے ، جب کہ دوسرے بھائی ولی رازی نے سیرت پر نثر میں پہلی بار غیر منقوط ضخیم کتاب ’ہادیِ عالَم‘ لکھی۔ندیم احمد انصاری نے کہا کہ جسٹس مفتی تقی عثمانی کی قلم کی رنگینی اور دلکشی کا سب سے بڑا مظہر آپ کے سفر نامے ہیں ، جو بلاشبہ آپ کے ادبی ذوق ومزاج کی بہترین تصویر ہیں، جنھوں نے اردو ادب کی نئی روایتوں کو زندہ کیا اور بڑے ہی پرلطف انداز میں قارئین کو سفری ادب سے آشنا کیا ہے، جن میں ادب کی حلاوت و چاشنی، ذوق و جذبات کی تسکین اور تاریخ و جغرافیہ ،حالات کا تجزیہ ،اور درپیش مسائل کا حل وغیرہ سب ہی کچھ موجود ہے۔جس کے کئی مجموعے ’جہانِ دیدہ‘’دنیا میرے آگے‘ اور’سفر در سفر‘وغیرہ ناموں سے بار بار شائع ہوتے رہے ہیں اور جن پر سنٹرل یونیورسٹی آف حیدرآباد سے ڈاکٹر مجاہد علی نے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی نے گو نا گو ذمے داریوں اور مشغولیوں کے باوجود اپنے اندر ودیعت کی گئی شعری صلاحیتوں کو پہچان کر عمدہ شعر کہے ہیں، اور ان کی شاعری کا موضوع عشقِ حقیقی ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی نظم ونثر کو باقاعدہ تحقیق کا موضوع بنا کر اس میں ادبی جواہر پارے تلاش کرنے کی کوشش کی جائے۔ پروفیسر صاحب علی نے مقالے کے اختتام پر جناب ندیم احمد انصاری کو ایسے پُر مغز مقالے کی پیش کش پر مبارک باد پیش کی، اور پروفیسر نسیم احمد نے مقالے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نیا اور اچھا موضوع ہے، جس پر کام کیا جانا چاہیے۔ پروفیسر نسیم احمد نے کہا کہ مقالہ نگار اپنی زبان اور اظہارِ بیان سے علمی آدمی معلوم ہوتے ہیں، انھیں جسٹس مفتی محمد تقی عثمانی کی حیات کے ادبی پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لیے اس پر مستقل کام کرنا چاہیے۔ قاضی مشتاق احمد نے بھی مقالہ نگار کو مبارک باد پیش کی اور سادگی کے ساتھ کہا کہ یہ میرا موضوع نہیں، لیکن مجھے اس علمی محفل میں آکر خوشی ہوئی اور نئی معلومات اور باتیں سیکھنے کو ملیں۔اس طرح یہ پُر رونق محفل ڈاکٹر عبد اللہ امتیاز کے شکریے کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی، جس میں دیگر اساتذہ میں ڈاکٹر جمال رضوی، ڈاکٹر قمر صدیقی، ڈاکٹر رشید اشرف خان، مزمل سرکھوت کے علاوہ روشنی خان نے شرکت کی، اور اس موقع پر ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے طلبہ کی خاصی تعداد سامعین کی حیثیت سے شریک رہی، جنھوں نے نہ صرف توجہ سے مقالہ سنا بلکہ آخر میں سوالات پوچھ کر مقالہ خوانی کو مزید کامیاب بھی بنایا۔