مفتی ندیم احمد انصاری
مسجد میں ایک وقت کی ایک ہی جماعت ہونی چاہیے، شرعی مسجد ایک فرض کی ایک سے زیادہ جماعت مکروہِ تحریمی ہے۔ خصوصاً جمعہ – جو کہ شعارِ اسلام ہے- اس کی ایک سے زیادہ جماعت کرنے سے لوگ سُستی،کاہلی اور غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں، جس کا گناہ دوسری تیسری جماعت کا انتظام کرنے والوں پر بھی ہوگا۔ جن مسجدوں میں باقاعدہ اعلان کے ساتھ جمعے کی کئی کئی جماعتیں اس طرح ہوتی ہیں کہ- پہلی جماعت اتنے بجے، دوسری جماعت اتنے بجے اور تیسری جماعت اتنے بجے- اس علاقے کے لوگوں میں جمعے کی وقعت و عظمت باقی نہیں رہتی۔ مسجدوں میں اذان ہو چکی ہوتی ہے، جس سےسعی الی الجمعہ واجب ہو جاتی ہے، لیکن لوگ اپنے کام کاج میں مَست رہتے ہیں اور توجہ دلانے پر بڑی بے فکری سے کہتے ہیں کہ ہم دوسری؍تیسری جماعت سے نماز پڑھ لیںگے۔ بعض تو کسی کام میں بھی نہیں لگے ہوتے بلکہ اس مبارک دن میں بھی دیر تک سوتے رہتے یا اور کسی کھیل تماشے میںلگے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ’پہلی جماعت اپنے کو جمتی نہیں‘۔خدا کی عبادت نہ ہوئی ان کی نانی کا گھر ہو گیا!
مسجد میں ایک جماعت ہونے کے بعد پندرہ بیس منٹ میںدوسری جماعت ہونے سے نہ پہلی جماعت والوں کو سکون سے سنن و نوافل ادا کرنے کا موقع ملتا ہے اور نہ دوسری جماعت میںشریک ہونے والے جمعہ میں جلد حاضری کا ثواب حاصل کر پاتے ہیں۔ دوسری؍تیسری جماعت میںاکثر امامت کے لیے لائق شخص کا اہتمام نہیں کیا جاتا،کسی بھی ایرے غیرے کو امامت سپرد کر دی جاتی ہے، ان میں سے بہت سے فسادِ نماز کے مسائل تک نہیں جانتے۔کورونا وبا جیسے مخصوص حالات یا اور کسی ہنگامی صورتِ حال میں اس کی گنجائش ہو، لیکن عام حالات میںپے در پے شرعی مسجد میںکئی کئی جماعتوں کا اہتمام کسی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔
مسجد انتظامیہ کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ شعارِ اسلام میں غفلت برتنے سے لوگ کس بلا میں مبتلا ہو رہے ہیں؟مسجد واقعی تنگ پڑتی ہو تو اسے وسیع کرنے یا نئی مسجد تعمیر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، یا لوگوں کو مسجد کے علاوہ کسی مناسب جگہ میں جمعے کی ادایگی کا انتظام کرنا چاہیے، جمعے کے لیے مسجد شرط نہیں، اس طرف توجہ نہ دے کر شرعی مسجد میںکئی کئی جماعتیں کرنا ہرگز مناسب نہیں۔لوگوں کو پہلے سے پتا ہوتا ہے کہ پہلی جماعت میںنہ پہنچنے پر دوسری، ورنہ تیسری جماعت مل ہی جائے گی، اس لیے وہ پہلی جماعت کا اہتمام نہیں کرتے، بلکہ انھیں اس گناہ کا احساس بھی نہیں ہوتا، اور گناہ کو گناہ نہ سمجھنا انتہائی خطرناک ہے۔
شریعت کا صاف سا مسئلہ یہ ہے کہ جمعے کے دن مسجد جلد پہنچنے کی فکر کی جائے، سنن و آداب کی رعایت کے ساتھ اطمینان سے نماز ادا کی جائے، کسی عذر کی بنا پر قریب کی مسجد میں جماعت نہ مل سکے تو جہاں بہ آسانی جماعت ملنے کا گمان ہو وہاں با جماعت نمازِ جمعہ ادا کر لی جائے، اور جو جمعے کی جماعت سے محروم ہی رہ جائے تو وہ ظہر کی نماز ادا کرے اور آیندہ کے لیے توبہ و استغفار اور جماعت کا اہتمام کرے۔مسجدوں میں دوسری تیسری جماعت کا دھڑا دھڑ اہتمام یہ خدا جانے کس نے شروع کیا!
دارالعلوم دیوبند کا فتویٰ
دارالعلوم دیوبند کے آن لائن فتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میںہے کہ ایک مسجد میں ایک وقت کی ایک ہی جماعت ہونی چاہیے، دوسری اور تیسری جماعت مکروہ ہے، آپ کی مسجد میں اب تک جمعے کی صرف ایک ہی جماعت ہوتی آرہی ہے، یہ طریقہ درست ہے، اسی کو برقرار رکھنا چاہیے،آپ کی مسجد میں جگہ کی تنگی اور نمازیوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسری اور تیسری جماعت کی ضرورت پڑتی ہے تو جو لوگ پہلی جماعت میں شامل ہونے سے رہ جائیں، وہ کسی دوسری مسجد میں جاکر جمعہ ادا کرنے کی کوشش کریں اور اگر دوسری مسجد بہت دور ہو، یا وہاں بھی جماعت ہو چکی ہو، تو ایسی صورت میں خارجِ مسجد کسی مناسب مقام پر بہ شرائط دوسری اور تیسری جماعت کرسکتے ہیں، اور مسجد چھوٹی ہے تو اس کو کشادہ کرنے یا مناسب فاصلے پر نئی مسجد تعمیر کرنے کی فکروکوشش کریں، شہر کی جن مسجدوں میں جمعے کی دوسری جماعت ہوتی ہے، ان کے لیے بھی یہ حکم ہے۔ [جواب نمبر: 164390]
دوسری جماعت والوں کی نماز مکروہِ تحریمی
اس کے بعد بھی اگر کوئی شرعی مسجد میں دوسری جماعت میں شریک ہوتا ہے تو اس کی نماز مکروہِ تحریمی ہوگی، دارالعلوم دیوبند کاہی فتویٰ سوال و جواب کی صورت میں ملاحظہ فرمائیں:
سوال:ہماری مسجد میں مختلف اوقات میں دومرتبہ جمعے کی نماز ہوتی ہے، ایک شروع وقت میں مسجد کے نیچے اور اور دوسرا جمعہ اسی مسجد کے اوپر، کام کرنے والے اور تجارت کرنے والے دوسرا جمعہ ادا کرتے ہیں، کیا ایک مسجد میں مختلف اوقات میں دو جمعے ادا کرنا جائزہے؟
جواب: ایک مسجد میں کسی نماز کی جماعتِ ثانیہ مسجد کے حدود میں کرنا مکروہِ تحریمی ہے، لہٰذا مذکورہ طریقے پر جمعے کی نماز کی دو جماعت کرنے سے دوسری مرتبہ جماعت کرنے والوں کی نماز کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی، لہٰذا ایک مسجد میں جمعے کی دوسری جماعت نہ کی جائے۔۔۔اور اگر قریب میں دوسری مسجد نہیں ہے تو کوشش کی جائے کہ سارے لوگ پہلی ہی جماعت میں آکر شریک ہوں اور جماعتِ ثانیہ کی ضرورت پیش نہ آئے،اگر کسی مجبوری سے جماعتِ ثانیہ کرنے کی ضرورت پیش آہی جائے تو حدودِ مسجد میں نہ کی جائے، بلکہ مسجد کی سہ دری وغیرہ- جو خارجِ مسجد ہے- اس میں کریں یا پھر مسجد کے علاوہ دوسری جگہ کسی کے مکان، کمرے وغیرہ میں کرلیں، اس صورت میں اگرچہ مسجد کا ثواب نہیں ملے گا، مگر کراہتِ تحریمی کا ارتکاب بھی نہ ہوگا۔[جواب نمبر: 3149]
ایک اور سوال و جواب ملاحظہ فرمائیں:
سوال:ہمارے برما میں مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے، اس وقت آبادی زیادہ ہوگئی ہے، ایک چھوٹی سی مسجد میں جمعے کی نماز دو بار؍ مرتبہ پڑھتے ہیں ، ایک ہی جماعت کی جائے تو کچھ لوگوں کے جمعہ چھوڑدینے کا خطرہ ہے، سوال یہ ہے کہ ضرورت کی بنا پر دو مرتبہ نمازِ جمعہ قائم کرلیں تو کوئی حرج تو نہیں؟
جواب:ایک مسجد میں جمعے کی دو جماعت کرنا مکروہ ہے، اگر آبادی بڑھنے کی وجہ سے مسجد چھوٹی پڑ رہی ہے تو مسجد کی توسیع کی کوشش کی جائے اور دوسری مسجد بنانا اگر ممکن نہ ہو تو کسی وسیع میدان یا ہال میں جمعے کی دوسری جماعت کی جاسکتی ہے، جمعہ صحیح ہونے کے لیے مسجد ہونا شرط نہیں ہے، باقی اگر آپ کے یہاں کچھ مخصوص حالات ہوں تو علاقے کے معتبر علماے کرام کے دستخط سے تفصیل لکھ کر ارسال کی جائے۔[جواب نمبر: 174938]
مفتیِ اعظم گجرات کا فتویٰ
حضرت مفتی سید عبد الرحیم لاجپوریؒ تحریر فرماتے ہیں:نمازِ جمعہ کسی بھی طرح(چاہے مالی نقصان برداشت کرنا پڑے)اس کی اصل جگہ یعنی مسجد میں اور اگر یہ نہ ہوسکے توعبادت خانے میں جمِ غفیرکے ساتھ ادا کرے ، اگر وہاں کبھی کبھار پہنچ نہ سکے توایک امام اور کم از کم تین مقتدیوں کے ساتھ کسی اور جگہ یا کارخانے میں باجماعت ادا کرے، جہاں امام اور مؤذن مقرر ہو اور پنج گانہ نماز بروقت باجماعت ہوتی ہو، وہاں جماعتِ ثانیہ مکروہ ہے ، مبسوط سرخسی میں ہے:قال: (وإذا دخل القوم مسجداً قد صلی فیه أهله کرهت لهم أن یصلوا جماعةً بأذان وإقامة، ولکنهم یصلون وحداناً بغیر أذان وإقامة)؛ لحدیث الحسن: قال: کانت الصحابة إذا فاتتهم الجماعة فمنهم من اتبع الجماعات، ومنهم من صلی في مسجده بغیر أذان ولا إقامة.(مبسوط سرخسی: ج:۱، ص: ۱۳۵)(شامی: ج:۱، ص:۳۶۷ ،باب الاذان)جماعتِ ثانیہ کرنے سے جماعتِ اولیٰ کی اہمیت ختم ہوجاتی ہے، اصل تو جماعتِ اولیٰ ہی ہے، لوگ سمجھتے ہیں پہلی جماعت ملے تو ٹھیک ہے، ورنہ دوسری جماعت کر لیں گے، یہ طریقہ غلط ہے۔[فتاوی رحیمیہ: 6/125، ترتیبِ صالح]ایک مسجد میں دو جمعے قائم نہیں کر سکتے، جن کو جگہ نہ ملے وہ دوسری مسجد میں چلے جائیں، اگر دوسری مسجد میںگنجائش نہ ہو یا(دوسری) مسجد نہ ہو تو کسی ہال میں، کسی بڑے مکان میں (جہاں سب کو آنے کی پوری اجازت ہو، کسی کے لیے روک ٹوک نہ ہو) جمعے کا انتظام کیا جائے۔[أیضاً: 6/117]
[کالم نگار دارالافتا، نالاسوپارہ، ممبئی کے مفتی ہیں]