مولانا ندیم احمد انصاری
’حجاب‘ کو لے کر ان دنوں بھارت میں جو کچھ ہو رہا ہے، ہر عقل و دانش والا اس کو جانتا اور سمجھتا ہے۔ذاتی مسئلے کو مذہبی اور پھر سیاسی رنگ دینا موجودہ سیاست کی مجبوری ہے۔ورنہ ہر دور میں مہذب معاشرہ عموماً اور شرفا خصوصاً حجاب کو پسند کرتے رہے ہیں۔ مذہبی حیثیت کے علاوہ اس مسئلے کی تہذیبی اور ثقافتی حیثیت بھی ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔لیکن جس سماج میں خواتین کے حقوق کے نام پر انھیں عُریاں و نیم عُریاں کرنا عام ہوتا جا رہا ہے، وہاں قطعِ نظر سیاست کے بھی، حجاب سے پریشانی تو ہوگی۔جب کہ ماضی کے مقابلے میں آج حجاب کی ضرورت دو چند ہو گئی ہے۔ ’حجاب‘ حقیقت میں یہ ایک ایسی عمدہ بات ہے کہ جس کو غیرت مند لوگ ہی جانتے ہیں،ہاں جن قوموں میں یہ رسم نہیں،ان کی آزاد طبیعتیں جو چاہیں اس پر طعن کریں اور عورتوں کو قید میں ڈالنا یا اور کچھ کہیں، مگر غیرت اور عصمت پسند طبائع اس کو بہت عمدہ رسم کہتی ہیں۔ [تفسیرِ حقانی]
زمانۂ جاہلیت کی طرح نہ پھریں
قرآنِ کریم نے عورتوں کو غیرمحرم اور اجنبی مَردوں کے سامنے بے تکلف نکلنے سے روکتے ہوئے ہدایت فرمائی: وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْأُولَی۔ تم اپنے گھروں میں رہا کرو اور زمانۂ جاہلیت کی عورتوں کی طرح نہ پھرو۔[الاحزاب] (اس) آیتِ کریمہ سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہو رہی ہے کہ اصل مطلوب عند اللہ عورتوں کے لیے یہ ہے کہ وہ گھروں سے باہرنہ نکلیں، ان کی تخلیق گھریلو کاموں کے لیے ہوئی ہے، وہ انھیں میں مشغول رہیں، اور اصل پردہ جو شرعاً مطلوب ہے وہ حجاب بالبیوت (گھروں میں رہنا) ہے۔ [معارف القرآن]
آیتِ حجاب کا نزول
اللہ تعالیٰ نے حجاب کی ابتدا اپنے نبی کے گھر سے کروائی۔ ارشاد فرمایا گیا:وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔــلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَاۗءِ حِجَابٍ ۭ ذٰلِكُمْ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِكُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ ۭاور جب تمھیں نبی کی بیویوں سے کچھ مانگنا ہو تو حجاب کے پیچھے سے مانگو،یہ طریقہ تمھارے دلوں کو بھی اور ان کے دلوں کو بھی زیادہ پاکیزہ رکھنے کا ذریعہ ہوگا۔ [الاحزاب]
حکم ساری امت کے لیے
اس میں اگرچہ سببِ نزول کے خاص واقعے کی بنا پر بیان اور تعبیر میں خاص ازواجِ مطہرات کا ذکر ہے، مگر حکم ساری امت کے لیے عام ہے۔ خلاصہ حکم کا یہ ہے کہ عورتوں سے اگر دوسرے مَردوں کو کوئی استعمالی چیز برتن، کپڑا وغیرہ لینا ضروری ہو، تو سامنے آ کر نہ لیں، بلکہ پردہ کے پیچھے سے مانگیں۔ اور فرمایا کہ یہ پردے کا حکم مَردوں اور عورتوں دونوں کے دلوں کو نفسانی وساوس سے پاک رکھنے کے لیے دیا گیا ہے۔
اس جگہ یہ بات قابلِ نظر ہے کہ یہ پردے کے احکام جن عورتوں مَردوں کو دیے گئے ہیں ان میں عورتیں تو ازواجِ مطہرات ہیں، جن کے دلوں کو پاک صاف رکھنے کا حق اللہ تعالیٰ نے خود ذمہ لے لیا ہے، دوسری طرف جو مرد مخاطب ہیں وہ آں حضرتﷺ کے صحابۂ کرامؓہیں جن میں بہت سے حضرات کا مقام فرشتوں سے بھی آگے ہے۔لیکن ان سب امور کے ہوتے ہوئے ان کی طہارتِ قلب اور نفسانی وساوس سے بچنے کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ مرد و عورت کے درمیان پردہ کرایا جائے۔[معارف القرآن، ملخصاً]
چاد جھکا لیں
اسی سورۂ احزاب میں چند آیتوں کے بعد فرمایا گیا: يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَاۗءِ الْمُؤْمِنِيْنَ يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ ذٰلِكَ اَدْنٰٓى اَنْ يُّعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا اے نبی ! آپ اپنی بیویوں، اپنی بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادریں اپنے اوپر جھکا لیا کریں، اس طریقے میں اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی تو ان کو ستایا نہیں جائے گا۔اور اللہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ [الاحزاب]
شانِ نزول
حضرت عمرؓسے نے بیان کیا کہ میں نے آں حضرت ﷺکی خدمت میں عرض کیا: آپ کے پاس ہر طرح کے لوگ آتے جاتے ہیں، لہٰذا اگر آپ اپنی بیویوں کو پردہ کا حکم دیں تو بہت اچھا ہو، اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیتِ حجاب نازل فرمائی۔ عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: قُلْتُ:يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَدْخُلُ عَلَيْكَ الْبَرُّ وَالْفَاجِرُ فَلَوْ أَمَرْتَ أُمَّهَاتِ الْمُؤْمِنِينَ بِالْحِجَابِ فَأَنْزَلَ اللَّهُ آيَةَ الْحِجَابِ.[بخاری]اس سلسلے میں دیگر روایات بھی وارد ہوئی ہیں۔
صحابیات کا عمل
حضرت امِ سلمہؓفرماتی ہیں کہ جب قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی،تو انصار کی عورتیں اس طرح باہر نکلیں گویا ان کے سروں پر کپڑوں کے کوّے بیٹھے ہیں یعنی وہ سیاہ کپڑے سروں پر ڈال کر نکلیں ۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:لَمَّا نَزَلَتْ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ خَرَجَ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ كَأَنَّ عَلَى رُءُوسِهِنَّ الْغِرْبَانَ مِنَ الْأَكْسِيَةِ.[ابوداود]یعنی اُس مبارک دور میں ہی صحابیات حجاب کا بہت ہی اہتمام کرنے لگیں۔ قیس بن شماس کہتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے پاس ایک عورت آئی جس کو امِ خلاد کہا جاتا تھا، وہ نقاب پوش تھیں۔ وہ اپنے شہید بیٹے کے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ ایک صحابی نے ان سے کہا : تم اپنے بیٹے کو پوچھنے چلی ہو اور نقاب پہنے ہوئے ہو ؟ انھوں نے کہا : اگر میں اپنے لڑکے کی جانب سے مصیبت زدہ ہوں تو میری حیا کو تو مصیبت نہیں آئی ہے!عَنْ عَبْدِ الْخَبِيرِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ ﷺ يُقَالُ لَهَا أُمُّ خَلَّادٍ وَهِيَ مُنْتَقِبَةٌ تَسْأَلُ عَنِ ابْنِهَا وَهُوَ مَقْتُولٌ، فَقَالَ لَهَا بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ: جِئْتِ تَسْأَلِينَ عَنِ ابْنِكِ وَأَنْتِ مُنْتَقِبَةٌ، فَقَالَتْ: إِنْ أُرْزَأَ ابْنِي فَلَنْ أُرْزَأَ حَيَائِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:ابْنُكِ لَهُ أَجْرُ شَهِيدَيْنِ،قَالَتْ: وَلِمَ ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ:لِأَنَّهُ قَتَلَهُ أَهْلُ الْكِتَابِ. [ابوداود]
ستر اور حجاب میں فرق
انسان کے جسم کا ایک حصہ تو وہ ہے جسے ’ستر‘ کہا جاتا ہے، اسے چھپانا ابتدا ہی سے فرض ہےاور یہ شرعی ذمّے داری ہونے کے ساتھ ساتھ عقلی اور طبعی ذمّے داری بھی ہے، اور یہ فرض تمام نبیوں کی شریعت میں رہا ہے، بلکہ ایمان کے بعد انسان پر عائد ہونے والا سب سے بڑا فرض ’سترِ عورت‘ ہے، نماز جیسی عظیم عبادت بھی اس کے بغیر درست نہیں ہوتی۔ مرد وعورت دونوں اس حکم کے پابند ہیں ، جلوت وخلوت دونوں حالتوں میں اس کی پابندی لازم ہے۔ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے، باندی کا ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے اور پیٹ، پیٹھ اور پہلو بھی ستر میں داخل ہے۔ آزاد عورت کا ستر چہرہ، ہتھیلیاں اور پیروں کے سوا پورا جسم ہے۔[دیکھیے الفقہ الاسلامی وادلتہ]
حجاب کا جسمانی فایدہ
سعودی نیشنل گارڈاسپتال جدہ کے شعبہ آنکالوجی کے ماہرین نے ایک تحقیق کی ہے، جس کے مطابق حجاب کی پابندی کرنے والی خواتین میں منھ اور حلق کے مختلف حصوں کے کینسر کی شرح بہت کم ہے ۔ سینیئر عہدے دار ڈاکٹر کمال ملاکار نے بتایا کہ تین سالہ تحقیق سے یہ بات نوٹ کی گئی کہ ریاض ،جدہ اور اسیر کے علاقوں میں خواتین میں منہ اور حلق کے کینسر کے بہت کم کیس سامنے آئے اس کی بنیادی وجہ اسلامی حجاب کا استعمال ہے۔ [روز نامہ نوائے وقت]