حضرت محمد ﷺ کے ظاہری و معنوی خوبیوں پر ایک نظر

rasoolullah-ke-zahiri-o-batini-kamalaat

ندیم احمد انصاری
جس کی شان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہو :{انک لعلیٰ خلق عظیم} ہم نے آپ کو عظیم اخلاق پر فائز کیا ہے… جس کے بارے میں صدیقہ بنت صدیق کا بیان ہو کہ آپ ا کے اخلاق قرآن (پر عمل کرنا) تھے، جسے اعلیٰ ترین اخلاق حروف کی شکل میں دیکھنا ہو،وہ مکتوبہ قرآن دیکھ لے اور جسے چلتا پھرتا قرآن دیکھناہو، وہ سیدنا حضرت محمدا کی ذات کو دیکھ لے… ظاہر ہے اُس ذات کے اخلاق پر لکھنا، وہ بھی ایک مختصر مضمون میں… نہایت مشکل بلکہ کہیے ناممکن کام ہے لیکن ’جو سب نہیں کر سکتا، کیا وہ کچھ بھی نہ کرے‘کے تحت رسول اللہا کے ظاہری و معنوی کمالات و صفات پر اختصار کے ساتھ یہاں چند باتیں عرض کرتا ہوں، امید کہ سود مند ثابت ہوں اور یہ گنہگار بھی آپ ا کے ثنا خوانوں میں جگہ پائے گا۔ان شاء اللہ
رسول اللہا درمیانہ قد کے پُر وقار شخص تھے، آپ جیسا نہ کبھی کوئی ہوا، نہ ہے اور نہ ہوگا۔ آپ ا اس قدر حسین و خوبصورت تھے، گویا چاندی سے آپ کا بدن مبارک ڈھالا گیا ہو،آپ باوجود رمیانہ قد کے، لمبوں میں لمبے نظر آتے تھے، یہ آپ ا کا معجزہ تھا۔ آپ ا نہ چونے کی طرح زیادہ سفید تھے اور نہ بالکل گندم گو کہ سانولا پن آجائے، بلکہ آپ ا چودھویں رات کے چاند سے زیادہ روشن اور پُر نور کچھ ملاحت لیے ہوئے تھے۔ یہ سب بھی صرف سمجھانے کے لیے ہے، ورنہ تو ایک چاند کیا ہزار چاند بھی اس محبوبِ کبریا جیسا نور نہیں رکھتے۔
آپ ا کا سر مبارک خوبصورتی اور اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، آپ ا کے بال نہ بہت زیادہ گھنگرالے تھے اور نہ بالکل ہی سیدھے کھلے ہوئے، بلکہ ان میں ہلکا سا گھنگرالہ پن تھا۔ آپ ا نہ موٹے بدن کے تھے، نہ گول چہرے کے، البتہ تھوڑی سی گولائی آپ کے چہرہ مبارک پر تھی۔ آپ ا کی پیشانی کُشادہ، بھویں لمبی اور خم دار تھیں، دونوں ابرو الگ الگ تھے اور اُن کے درمیان ایک رگ تھی، جو غصّے کے وقت ابھر آتی تھی۔ آپ ا کی آنکھیں کشادہ اور پُتلیاں بالکل سیاہ تھیں ۔ آپ کی آنکھوں کی سفیدی میں سُرخ ڈورے تھے اور پلکیں ذرا دراز تھیں۔ ناک بلندی مائل تھی اور اُس پر ایک نور تھا جسے بغیر غورسے دیکھنے والا اُسے بلند اور اونچی خیال کرتا تھا۔ آپ ا کے دندانِ مبارک باریک آب دار تھے اور اگلے دو دانتوں کے درمیان کچھ کشادگی تھی، جب آپ ا گفتگو فرماتے تو محسوس ہوتا کہ جیسے ایک نور ہے، جو دانتوں کے درمیان سے نکل رہاہے۔ آپ ا کے رُخسارِ مبارک پُر گوشت تھے اور ڈاڑھی مبارک بھر پور اور گنجان تھی۔
رسول اللہ ا کا دہنِ مبارک اعتدال کے ساتھ فراخ تھا۔ آپ ا کی گردن مبارک خوبصورت اور چاندی کی طرح صاف تھی۔ آپ ا کا پیٹ اور سینہ دونوں برابر، ہمورا تھے۔ دونوں مونڈھوں کے درمیان کچھ فصل تھا، جوڑوں کی ہڈیاں مضبوط اور بھاری تھیں۔ آپ ا کا جسم مبارک مکمل طور پر معتدل، پُر گوشت اور گٹھا ہوا تھا۔آپ ا کے سینے اور ناف کے درمیان ایک لکیر کی طرح بالوں کی باریک سی دھاری تھی، اِس کے علاوہ چھاتی اور شکمِ مبارک پر بال نہ تھے البتہ دونوں بازوؤں، کندھوں اور سینے کے بالائی حصہ پر بال تھے۔آپ ا کی کلائیاں طویل اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں، دونوں ہاتھ اور پاؤں پُر گوشت تھے، انگلیاں لمبی تھیں، پاؤں کے تلوے مکمل طور پر زمین سے نہیں لگتے تھے بلکہ کچھ گہرے تھے اور دونوں پاؤں ہموار اور چکنے تھے، ان پر سے پانی فوراً ڈھل جاتا تھا۔آپ ا جب چلنے کے لیے قدم اٹھاتے تو پوری قوت سے اٹھاتے اور قدرے آگے کو جھُک کر چلتے تھے، اس طرح کہ قدم زمین پر آہستہ پڑتا تھا، یوں آپ ا تیز رفتار تھے اور ذرا کشادہ قدم رکھتے تھے، چھوٹے چھوٹے قدم نہیں رکھتے تھے، جب آپ ا چلتے تو ایسا لگتا جیسے آپ نیچے کی طرف اُتر رہے ہوں۔ یہ آپﷺ کے چند ظاہری کمالات کا ذکر ہوا، اب ذرا معنوی کمالات کا حال سنیے۔
رسول اللہ ا کا قبیلہ سب سے زیادہ بزرگی والا تھا۔ آپ ا مخدوم و مُطاع تھے کہ خدام آپ ا کی خدمت کرنے کے متمنی اور آپ ا کی اطاعت کے لیے بسر و چشم حاضر رہتے تھے، آپ ا تُرش رو یا سخت مزاج نہیں تھے۔آپ ا سب سے زیادہ سچے، سب سے زیادہ وعدے کو پورا کرنے والے اورباوفا، سب سے زیادہ نرم طبیعت تھے۔ آپ ا عظیم القدر اور معظَّم اور سب سے زیادہ حلیم و بُردبار تھے۔ آپ ا پردہ نشین کنواری لڑکی سے زیادہ اس قدر باحیا تھے کہ کسی کی طرف نظر بھر کر نہیں دیکھتے تھے، آپ ا کی نگاہیں نیچی اوراکثر زمین کی طرف رہتی تھیں، عامۃً کنکھیوں سے دیکھنے کی عادت تھی۔ آپ ا سب سے زیادہ رحم فرمانے والے تھے، یہاں تک کہ بلّی کے لیے بھی پانی کا برتن جھکا دیتے اورجب تک وہ سیراب نہ ہو جاتی برتن نہ ہٹاتے، عین نماز کی حالت میں اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آتی اور اس کی ماں آپ ا کی اقتدا میں نماز ادا کر رہی ہوتی، تو آپ ا شفقۃً نماز کو مختصر فرما دیتے۔
رسول اللہ ا سب سے زیادہ تواضع کرنے والے اور نرم مزاج تھے۔ غنی، فقیر، شریف، ادنیٰ، آزاد، غلام۔۔۔جو بھی آپ ا کی دعوت کرتا، آپ ا قبول فرما لیتے۔آپ ا سب سے زیادہ سخی تھے، آپ کی سخاوت رمضان میں خصوصیت سے زوروں پر آ جاتی تھی، آپ نے کبھی کسی سائل کو نہ نہیں کہا۔ آپ ا اپنی ذات کے لیے ذخیرے کے طور پر کچھ نہیں رکھتے تھے، درہم و دینار کبھی آپ کے گھر میں رات نہیں گزار سکتے تھے۔ آپ ا سب سے زیادہ پاک دامن تھے، کبھی آپ ا کے دستِ مبارک نے اپنی منکوحہ، مِحرم یا باندی کے سوا کسی عورت کو نہیں چُھوا۔
رسول اللہ ا اپنے اصحاب کا اکرام کرنے میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے تھے، کبھی کسی مجلس میں آپ کو کسی کی طرف پیر پھیلا کر بیٹھے نہیں دیکھا گیا، یہاں تک کہ جب آپ کے اصحاب کے لیے جگہ تنگ ہو جاتی، تو آپ ا خود سِکُڑ کر ان کے لیے گنجائش نکال لیتے،آپ کے گھٹنے کبھی کسی ساتھی کے گھٹنوں کے آگے نہیں بڑھے۔آپ ا کے اصحاب آپ کے آس پاس جمع رہتے تھے، اگر آپ کچھ ارشاد فرماتے تو سب خاموش ہو جاتے، اگر آپ کوئی حکم دیتے تو سب اُسے پورا کرنے کے لیے پھُرتی کرتے۔ آپ ا اپنے اصحاب کے ساتھ چلتے وقت اُنھیں آگے بڑھا کر خود اُن کے پیچھے چلتے، راستے میں جو بھی ملتا آپ ااسے سلام کرنے میں پہل کرتے۔ آپ کے چہرۂ انور پر رعب کا یہ عالم تھا کہ جو شخص اچانک آپ کو دیکھتا، ہیبت زدہ ہو جاتا اور جوآپ کی خدمت میں حاضر ہوتا رہتا، وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔آپ جس قدر اپنے گھر والوں کی خاطر تحمل فرماتے، اس سے بھی زیادہ اپنے اصحاب کے ساتھ تحمل فرماتے تھے۔آپ ا اپنے اصحاب کی خبر گیری کرتے، بیمار کی عیادت کرتے، مسافر کے لیے دعا کرتے، انتقال کرنے والے پر انا للہ الخ پڑھتے۔ آپ اکبھی اپنے اصحاب کے باغوں میں بھی تشریف لے جاتے، اگر وہاں وہ کوئی چیز پیش کرتے تو آپ نوش فرما لیتے۔
رسول اللہ ا اہل عزت و شرف سے الفت رکھتے اور اہل علم و فضل کا اکرام کرتے اور کسی سے ناراض ہوکر پیشانی پر بَل نہیں لاتے تھے، کسی کے ساتھ سختی کا معاملہ نہیں فرماتے تھے، عذر پیش کرنے والے کے عذرکو قبول فرما لیتے تھے، حق کے معاملے میں طاقت ور، کمزور، قریب اور دور کے۔۔۔آپ کے لیے سب برابر تھے۔ آپ ا کا غصہ اور انتقام کبھی اپنے نفس کے لیے نہیں ہوتا تھا، ہا ں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کے ارتکاب پر آپ سرزنش فرماتے تھے اور جب آپ ا غصہ فرماتے تو کوئی اس کی تاب نہ لا سکتا تھا۔
رسول اللہ ا کے بہت سے باندی وغلام بھی تھے، مگر آپ لباس و طعام میں ان سے برتر کچھ اختیار نہیں کرتے تھے اور جو بھی آپ ا کی خدمت کرتا، آپ بھی اس کی خدمت کرتے۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے تقریباً دس سال آپ ا کی خدمت کی، اللہ کی قسم! سفر و حضر جہاں بھی مجھے خدمت کا موقع ملا ، جتنی خدمت میں نے آپکی کی، اُس سے زیادہ آپ ا نے میری کی۔ آپ ا اپنے اصحاب کے ساتھ انتہائی محبت و بے تکلفی کا معاملہ فرماتے تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیجیے کہ ایک روز آپ اپنے اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے کھجوریں نوش فرما رہے تھے کہ صہیبؓ ایک آنکھ کو ڈھانکے ہوئے آئے، اس لیے کہ اُن کی وہ آنکھ آ رہی تھی یعنی وہ آشوبِ چشم کے مرض میں مبتلا تھے، وہ سلام کرکے کھجوروں کی طرف جھکے، آپ ا نے ارشاد فرمایا: تمھاری آنکھ دُکھ رہی ہے اور کھجور کھاتے ہو؟ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! جو آنکھ اچھی ہے، اس طرف سے کھاتا ہوں۔ اس پر آپ ا مسکرا دیے۔
رسول اللہ ا جب اپنے گھر پر ہوتے تو اپنے اوقات کو تین حصوں میں تقسیم فرما لیتے، ایک حصہ خاص اللہ کی عبادت کے لیے، دوسرا حصہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے اور تیسرا حصہ اپنے نفس کے لیے اور جو حصہ اپنے لیے طے فرماتے، اُس کو اپنے اور لوگوں کے درمیان بانٹ لیتے اور خواص کے ذریعے اس وقت میں عوام کی ضرورتیں پوری فرماتے۔آپ ا اپنے اصحاب میں الفت پیدا فرماتے اور اُنھیں نفرت سے بچاتے۔ قوم کے ہر کریم کا اکرام کرتے اوراُسی کو اُن پر والی بناتے، قوم کے بہترین افراد کو آپ ا سے زیادہ قُرب ہوتا تھا، آپ کے نزدیک افضل وہ تھا، جو عام خیر خواہی اور نصیحت کرتا، آپ کے نزدیک بڑا وہ تھا، جو لوگوں کی مدد اور غم خواری زیادہ بہتر طریق پر کرتا۔
رسول اللہ ا کی کوئی نشست و برخواست ذکر ِالٰہی کے بغیر نہیں ہوتی تھی۔ آپ ا جب کسی مجلس میں تشریف لے جاتے، تو مجلس کے کنارے پر ہی بیٹھ جاتے، صدر مقام پر پہنچنے کی کوشش نہ فرماتے اور دوسروں کو بھی اس بات کی تاکید فرماتے۔ آپ ا سب کے ساتھ اس طرح کا معاملہ فرماتے کہ مجلس میں بیٹھا ہوا ہر شخص یہ سمجھتا کہ سب سے زیادہ میرا اکرام فرمایا ہے۔جب کوئی شخص آپ ا کی خدمت میں آکر بیٹھتا، جب تک وہ خود نہ اُٹھ جاتا، آپ ا نہ اٹھتے، سوائے اس کے کہ آپ کو کوئی جلدی کا کوئی کام درپیش ہوتا اور اگر آپ کو کوئی کام ہوتا تو آپ ااُس سے اجازت لے کر اُٹھتے۔ آپ کبھی کسی کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کرتے تھے، جو اُسے گراں گزرے۔ آپ ا نے کبھی کسی خادم کو مارا نہ کسی عورت کوبلکہ آپ ا نے جہاد کے علاوہ کبھی کسی پر ہاتھ ہی نہیں اٹھایا۔
رسول اللہ ا صلہ رحمی فرماتے ، مگر اس کی وجہ سے کسی مفضول کو افضل پر، ادنیٰ کو اعلیٰ پر ترجیح نہیں دیتے تھے۔ آپ ا کبھی برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے بلکہ برا کرنے والوں کے ساتھ بھی عفو و درگزر کا معاملہ فرماتے تھے۔پڑوسی کے حق کی حفاظت فرماتے، مہمان کا اکرام کرتے، سب سے زیادہ تبسّم فرماتے اورسب سے زیادہ بشاشت سے ملتے ۔آپ ا کا تمام وقت اللہ تعالیٰ کے عائد کردہ کسی حکم کو پورا کرنے، اپنے اہل و عیال کی ضرورتیں پوری کرنے یا اپنی حوائجِ ضروریہ کو پورا کرنے میں گزرتا تھا۔آپ ا کو جب بھی دو جائز چیزوں میں اختیار دیا جاتاتو اپنی امت پر شفقت کے باعث اور انھیں سکھانے کی غرض سے آسانی کو قبول فرماتے تھے۔
اے اللہ ! ہمیں بھی ان اعلیٰ ترین اخلاق و صفات سے کچھ حصہ نصیب فرما۔ آمین

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here