خواتین اور نمازِ تراویح اور اُن کی جماعت
عورتوں پر بھی تراویح ہے
ز رمضان المبارک کے ماہ میں اکثر مقامات میں مستورات نمازِ تراویح سے محروم رہتی ہیں، لیکن ایک مولوی صاحب نے یہ حکم رمضان المبارک میں نافذ کیا تھا کہ عورتیں بعد صلوٰۃِ عشاء قبلِ وتر ۲۰/رکعات نفل کی نیت سے ادا کر لیں، ان شاء اللہ تراویح کے قائم مقام ہو جائے گی۔ تو ایسا کرنا درست ہے یانہیں؟
ل نمازِ تراویح کی مسنونیت مرد اور عورت دونوں کے لیے یکساں ہے، اس لیے عورتوں کو بھی چاہیے کہ ماہِ رمضان المبارک میں اس کا اہتمام کریں۔ بہشتی زیور میں ہے-مسئلہ: رمضان کے مہینے میں تراویح کی نماز بھی سنت ہے، اس کی بھی تاکید آئی ہے اس کا چھوڑ دینا اور نہ پڑھنا گناہ ہے۔ عورتیں تراویح کی نماز اکثر چھوڑ دیتی ہیں، ایسا ہرگز نہ کرنا چاہیے۔ عشاء کی فرض اور سنتوں کے بعد بیس رکعات تراویح پڑھے، چاہے دو رکعت کی نیت باندھے، چاہے چار چار رکعت کی، مگر دو دو رکعت پڑھنا اولیٰ ہے، جب بیسوں رکعتیں پڑھ چکے تو وتر پڑھے۔ (بہشتی زیور اختری۲/۲۹)
عورتوں کے لیے تراویح اور اس کی جماعت
ز عورتوں کے لیے تراویح کا کیا حکم ہے؟ ہمارے یہاں ایک مفتی صاحب نے مسئلہ شائع کیا ہے کہ جمعہ وعیدین اور تراویح عورتوں کے لیے سنت نہیں بلکہ مستحب بھی نہیں، کیا یہ درست ہے؟ اگر کوئی بالغہ حافظہ ہو اور گھر میں عورتوں کی جماعت میں قرآن سنانا چاہے تو (کیا)اس کا جواز ہے؟ کیا اس کے لیے تداعی جائز ہے؟
لتراویح جس طرح مَردوں کے لیے سنت ہے، اسی طرح عورتوں کے لیے بھی سنت ہے۔ درمختار میں ہے: التراویح سنة مؤکدة لمواظبة الخلفاء الراشدین للرجال والنساء إجماعاً۔(درمختار علی ھامش الشامی ۱ /۵۲۰)تراویح صرف مَردوں کے لیے بتلانا روافض کا قول ہے۔(قوله: إجماعاً) راجع إلی قول المتن سنة للرجال والنساء، وأشار إلی أنه لااعتداد بقول الروافض أنھا سنة الرجال فقط علی مافي الدر والکافي الخ۔(شامی۱ /۵۲۰)تنہا عورتوں کی جماعت (چاہے تراویح ہی کیوںنہ ہو) مکروہ ہے۔ویکرہ تحریماً جماعة النساء ولو في التراویح۔ (درمختار) (قوله: یکرہ تحریماً) صرح به في الفتح والبحر۔ (قوله: ولو في التراویح) أفاد أن الکراھة کل ما تشرع فیه جماعة الرجال فرضا أو نفلا۔ (شامی ۱/ ۴۱۸)
ہاؤس کی تراویح میں عورتوں کی شرکت
ز ہمارے یہاں ایک بڑے احاطے میں ایک بڑا ہاؤس ہے، جس میں ہماری برادری کے تقریباً ۵۰-۶۰ مکانات (فلیٹ) ہیں، جس میں ہم رمضان المبارک میں احاطے کی ایک کھلی جگہ میں تراویح ادا کرتے ہیں۔ جس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ جو حضرات مسجد کے دور ہونے کی وجہ سے تراویح ترک کردیتے تھے، وہ لوگ ہاؤس میں ادا کرلیتے ہیں۔قابلِ دریافت امر یہ ہے کہ جس جگہ مرد تراویح پڑھتے ہیں، اس کے متصل میں ایک حجرہ ہے، جس میں ہاؤس کی خواتین بھی پردے کے اہتمام کے ساتھ تراویح کی جماعت میں شرکت کرتی ہیں، کیوں کہ مشاہدہ ہے کہ ۹۰/فیصد خواتین گھر میں تراویح نہیں پڑھتی ہیں۔ تو ایسی صورت میں شرعاً عورتوں کی تراویح میں شرکت اور ان کی تراویح کی نماز کے لیے کیا حکم ہے؟
لعورتیں اگر اسی ہاؤس کی ہوں کہ ان کا حجرے میں تراویح کے لیے آنا خروج عن المکان نہ ہو تو ان کی یہ شرکت درست ہے، ورنہ نہیں۔ اس لیے کہ عورتوں کے لیے جماعت میں شرکت کی ممانعت کی علت جو فقہاء نے بتلائی ہے، وہ یہ ہے کہ ان کے گھروں سے نکلنے ہی میں فتنہ ہے۔ صورتِ مسئولہ میں اگر علتِ ممانعت وکراہت یعنی خروج عن المکان -جو سببِ فتنہ ہے- نہیں پائی جاتی، تو حکم یعنی ممانعت وکراہت بھی نہیں۔أما المرأة فلأنھا مشغولة بخدمة الزوج، ممنوعة عن الخروج إلی محافل الرجال؛ لکون الخروج سببا للفتنة، ولھذا لا جماعة علیھن، ولاجمعة علیھن أیضاً۔ (بدائع الصنائع۱/ ۲۵۸) ولا یباح للشواب منھن الخروج إلی الجماعات بدلیل ماروی عن عمر انه نھی الشواب عن الخروج، ولان خروجھن إلی الجماعة سبب للفتنة، والفتنة حرام، وما أدی إلی الحرام فھو حرام۔.(بدائع الصنائع۱/ ۱۵۷)البتہ اگر ہاؤس کی عورتوں کی اس شرکت میں دوسری کوئی ایسی خرابی پائی جاتی ہو، جو علتِ ممانعت بن سکتی ہے، تو اس صورت میں ان کی یہ شرکت درست نہ ہوگی۔٭٭