مفتی ندیم احمد انصاری
خوف یا مرض کے سبب مسجد نہ جانا
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جو شخص اذان کی آواز سنے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے اسے کوئی عذر مانع نہ ہو،پھر بھی وہ مسجد نہ جائے، اس کی نمازمقبول نہ ہوگی ۔لوگوں نے عرض کیا : عذر کیا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا : خوف یا بیماری۔[ابوداود]
مرض اور بڑھاپا کب عذر ہے؟
مرض سے مراد ایسی بیماری ہے جس میں انسان کے لیے نمازِ جماعت کے لیے مسجد میں آنا دشوار ہو۔ ابن المنذرؒنے کہا: میرے علم کے مطابق اہلِ علم کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ مریض مرض کے سبب جماعت چھوڑ سکتا ہے، اس لیے کہ جب رسول اللہ ﷺ بیمار ہوئے تو مسجد میں تشریف نہ لائے اور فرمايا:ابوبکرؓسے کہو، لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ اسی طرح بڑھاپا بھی عذر ہے، جب کہ مسجد آنا دشوار ہو۔ [الموسوعۃ الففقہیۃ الکویتیۃ]
جان، مال یا اہلِ خانہ کا خوف
خوف تین طرح کا ہے: جان کا خوف ، مال کا خوف ، اہلِ خانہ کا خوف؛(۱)اپنی جان کا خوف ہو کہ کوئی حاکم اسے پکڑ لےگا یا دشمن کا ڈر ہو یا چور کا یا درندے کا یا جانور کا یا سیلاب وغیرہ کا، جس سے اس کی ذات کو اذیت پہنچے گی اور اسی معنی میں یہ بھی ہے کہ قرض خواہ اس کا پیچھا کرےگا اور اس کے پاس قرض کی ادایگی کے لیے کچھ نہ ہو، کیوں کہ قرض کے عوض اسے قید کرنا جب کہ وہ تنگ دست ہو ظلم ہے، لیکن اگر وہ قرض کی ادایگی پر قادر ہو تو یہ عذر نہ ہوگا ، اس لیے کہ قرض کی ادایگی واجب ہے (۲)مال کے بارے میں کسی ظالم یا چور کا ڈر ہو یا اندیشہ ہو کہ گھر سے چوری ہو جائےگا یا اس کا کوئی حصہ جل جائےگا یا روٹی تنور میں ہو یا کھانا آگ پر پک رہا ہو اور اس کو چھوڑ کر جانے میں جل جانے کا اندیشہ ہو یا اس کا کوئی مقروض ہو کہ اگر اس کا پیچھا چھوڑ دیا تو اس کا مال لے کر بھاگ جائےگا یا اس کا کوئی سامان یا ودیعت کسی کے پاس ہو کہ اگر اس کو نہ پکڑےگا تو وہ چلا جائےگا یا اس کے پاس کوئی امانت مثلاً ودیعت یا رہن یا عاریت ہو جس کی حفاظت کرنا اس پر واجب ہو اور چھوڑ دینے سے تلف ہو جانے کا خوف ہو، دوسرے کے مال پر خوف بھی اس کے تحت آتا ہے (۳)اہلِ خانہ یعنی اولاد، والد اور بیوی پر خوف ہو، ا گر وہ ان میں سے کسی کی تیمار داری کر رہا ہو تو یہ جماعت چھوڑنے کا عذر ہے اور اسی طرح کسی اجنبی آدمی کی تیمار داری کرنا بھی ہے جب کہ تیمار داری کرنے والا کوئی اور موجود نہ ہو اور اس کو چھوڑ کر جانے میں اس کی ہلاکت کا خوف ہو۔ یہ ثابت ہے کہ حضرت ابن عمرؓ نے سعید بن زید سے فریاد طلب کی، وہ اس وقت جمعے کے لیے دھونی دے رہے تھے ، وہ عقیق میں ان کے پاس آئے اور جمعہ چھوڑ دیا۔ [الموسوعۃ الففقہیۃ الکویتیۃ]
بھوک کے وقت جماعت چھوڑنا
حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب نماز کی تکبیر کہی جائے اور رات کا کھانا سامنے آجائے تو پہلے کھانا کھا لو۔[بخاری]اسی طرح حضرت انس بن مالکؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب رات کا کھانا آجائے اور تکبیر کہی جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔[بخاری ]حضرت ابن عمرؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانے پر بیٹھ جائے تو جلدی نہ کرے یہاں تک کہ اپنی اشتہا پوری کرلے، اگرچہ جماعت کھڑی ہوگئی ہو۔[بخاری] حضرت ابن عمرؓہی روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کا کھانا سامنے رکھ دیا جائے اور نماز کی اقامت بھی ہوجائے تو پہلے کھانا کھالو اور جلدی نہ کرو، یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوجاؤ۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ عمرؓکی عادت تھی کہ جب ان کے سامنے کھانا رکھ دیا جاتا اور جماعت بھی کھڑی ہو جاتی تو جب تک کھانے سے فارغ نہ ہو جاتے نماز کے لیے نہ جاتے، حالاں کہ وہ امام کی قراءت کی آوازسن رہے ہوتے تھے۔[بخاری]
امام ترمذیؒفرماتے ہیں:صحابۂ کرامؓمیں سے بعض اہلِ علم کا اسی پر عمل ہے ،جیسے حضرت ابوبکر، عمر اور ابنِ عمر رضی اللہ عنہم۔ امام احمدؒ اور اسحاقؒبھی یہی کہتے ہیں، ان دونوں حضرات کے نزدیک پہلے کھانا کھالے اگرچہ جماعت نکل جائے، ان کا یہ قول اتباع کے زیادہ لائق ہے کیوںکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ جب آدمی نماز کے لیے کھڑا ہو تو اس کا دل کسی اور چیز میں مشغول نہ ہو۔ حضرت ابنِ عباسؓفرماتے ہیں: ہم نماز کے لیے اس وقت تک کھڑے نہیں ہوتے جب تک ہمارا دل کسی اور چیز میں لگا ہوا ہو ۔[ترمذی]
قضاےحاجت کے سبب جماعت چھوڑنا
حضرت ابوامامہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے پیشاب پاخانہ روک کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔[ابن ماجہ]حضرت عبداللہ بن ارقمؓسے مروی ہے؛ نماز کی تکبیر ہوئی تو انھوں نے ایک شخص کا ہاتھ پکڑا اور اسے (امامت کے لیے) آگے بڑھا دیا-جب کہ وہ خود قوم کے امام تھے-اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جب نماز کھڑی ہو اور کسی کو قضاے حاجت کا تقاضا ہو تو وہ پہلے بیت الخلا جائے۔ اس باب میں حضرت عائشہ، ابوہریرہ، ثوبان اور ابوامامہ رضی اللہ عنہم سے بھی روایت ہے۔[ترمذی]
امام ترمذیؒفرماتے ہیں: کئی صحابہؓو تابعینؒاور امام احمد و اسحاق کا بھی یہی قول ہے کہ اگر پیشاب پاخانے کی حاجت ہو تو نماز کے لیے کھڑا نہ ہو، اور ان دونوں نے کہا کہ اگر نماز شروع کرنے کے بعد قضاے حاجت کا تقاضا ہو تو نماز توڑ دے۔ بعض اہلِ علم کے نزدیک جب تک نماز میں خلل نہ ہو پیشاب و پاخانے کی حاجت کے باوجود نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔[ترمذی ]
نیند کے غلبے کے وقت جماعت چھوڑنا
جس پر جماعت کا انتظار کرنے میں اونگھ اور نیند کا غلبہ ہو جائے، اسی طرح اگر امام کے ساتھ اس پر نیند کا غلبہ ہو تو وہ اکیلے نماز پڑھ لے،اس لیے کہ ایک شخص نے حضرت معاذؓ کے ساتھ نماز شروع کی لیکن جب انھوں نے لمبی نماز پڑھائی اور اسے اونگھ و مشقت کا خوف ہوا تو اس نے علاحدہ ہو کر اکیلے نماز پڑھ لی اور حضور ﷺ کو اس کی خبر ملی تو آپ نے اس پر نکیر نہیں فرمائی، البتہ افضل یہ ہے کہ نیند کو دور کرنے اور باجماعت نماز پڑھنے کے لیے صبر اور کوشش کرے۔[الموسوعۃ الففقہیۃ الکویتیۃ]
سخت سردی کے سبب مسجد نہ جانا
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ایک ٹھنڈی اور برسات کی رات میں اذان دی، پھر پکار کر کہا: أَلَا صَلُّوا فِي الرِّحَالِ:لوگو ! اپنے ٹھکانوں میں ہی نماز پڑھ لو۔ پھر فرمایا: حضرت نبی کریم ﷺسردی و بارش کی راتوں میں مؤذن کو حکم دیتے تھے کہ وہ اعلان کر دے کہ لوگ اپنی قیام گاہوں میں ہی نماز پڑھ لیں۔[بخاری]
سخت گرمی کے سبب مسجد نہ جانا
مختلف و متعدد اعذار کی بنا پر شریعت نے جماعت میں حاضر نہ ہونے کی رخصت دی ہے، لیکن فقہاے کرامؒنے سخت گرمی کو ان اعذار میں ذکر نہیں کیا، وجہ ظاہر ہے کہ سخت گرمی کے وقت میں ایک ہی نماز یعنی ظہر ادا کی جاتی ہے اور اس کے لیے باقاعدہ تبریدکا حکم دیا گیا ہے کہ گرمیوں میں ظہر کو ٹھنڈا کر کے پڑھا جائے، لیکن اگر کہیں مسجد انتظامیہ اس پر عمل نہیں کرتی اور نمازی کو مسجد جانے میں ایسی شدید تکلیف ہوتی ہے کہ بیمار ہو جانے یا بیماری کے بڑھ جانے کا اندیشہ ہو تو اس کے لیے رخصت ہوگی۔[ردالمحتار]
بارش یا کیچڑ کے سبب مسجد نہ جانا
حضرت نافعؒسے روایت ہے، حضرت ابن عمرؓنےایک ٹھنڈی اور ہوا دار شب میں نماز کے لیے اذان دی، پھر کہا:اے لوگو ! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو! اس کے بعد کہا: رسول اللہ ﷺ مؤذن کو حکم دیتے تھے جب رات سرد اور مینھ کی ہو تو کہہ دے:اپنے اپنے گھر میں نماز پڑھ لو۔[بخاری] حضرت عبداللہ بن حارث کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ بارش کی وجہ سے کیچڑ ہوگئی تھی، حضرت ابنِ عباسؓنے اس دن خطبہ دیا اور مؤذن سے کہہ دیا کہ جبحَيَّ عَلَى الصَّلَاةِپر پہنچے تو کہہ دے کہ اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو! یہ سن کر لوگ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، گویا انھوں نے اسے برا سمجھا تو حضرت ابنِ عباسؓنے فرمایا: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے اسے برا سمجھا! بےشک ایسا انھوں نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر تھے یعنی حضرت نبی کریم ﷺ نے۔ بےشک اذان کے بعد مسجد میں آنا عزیمت ہے، لیکن میں نے یہ اچھا نہ سمجھا کہ تمھیں تکلیف میں ڈالوں۔[بخاری] حضرت عاصمؒنے بھی حضرت ابن عباسؓسے اسی طرح نقل کیا ہے، صرف اتنا فرق ہے کہ انھوں نے کہا: مجھے اچھا معلوم نہ ہوا کہ گنہ گار کروں یا تم مٹی کو گھٹنوں تک روندتے ہوئے آؤ۔[أیضاً]
جمعے میں بھی رخصت دی گئی ہے
حضرت عبداللہ بن حارثؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓنے بارش کے دن میں اپنے مؤذن سے کہا: جب تم اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمّداً رَّسُوْلُ اللہِکہہ لو تو اس کے بعد حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ نہ کہو، بلکہ کہو صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ یعنی اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ لوگوں کو اس بات پر تعجب ہوا تو انھوں نے کہا کہ یہ اس شخص نے کیا ہے جو مجھ سے بہتر ہیں! اور نمازِ جمعہ اگرچہ فرض ہے لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ تمھیں نکالوں کہ تم کیچڑ اور مٹی میں چلو۔[بخاری]