دینی تعلیم پر اجرت جائز نہیں؟

مفتی ندیم احمد انصاری

[آخری قسط]

جنت کی خوش بو بھی نہیں پائےگا

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ایسا علم -جس کے ذریعے اللہ تبارک تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کی جاتی ہے-اس لیے سیکھا کہ اس کے ذریعے اسے دنیا کا کچھ مال و متاع مل جائے، ایسا شخص قیامت کے دن جنت کی خوش بو کو بھی نہیں پا سکےگا، یعنی جنت کی ہوا۔[ابوداود]

دنیوی فایدے کے لیے قرآن پڑھنا

حضرت بریدہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص قرآن اس لیے پڑھے کہ اس کے ذریعے لوگوں سے کمائے، وہ قیامت کے دن اس حالت میں اٹھ کر آئےگا کہ اس کا چہرہ صرف ہڈی ہوگا، اس پر گوشت نہیں ہوگا۔[مشکوۃ]

حضرت عبادہ بن صامتؓفرماتے ہیں: میں نے اہلِ صفہ میں سے کئی لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی۔میں نے اپنے دل میں کہا : یہ تو مال نہیں ہے، یہ اللہ کے راستے میں تیر اندازی کے لیے میرے کام آئےگا۔ پھر میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تو آپ نے فرمایا : اگر تمھیں یہ پسند ہو کہ اس کمان کے بدلے تمھیں آگ کا ایک طوق پہنایا جائے تو اسے قبول کر لو۔[ابن ماجہ]

اسی طرح حضرت ابی بن کعبؓفرماتے ہیں: میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھنا سکھایا تو اس نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : اگر تم نے یہ لی تو آگ کی ایک کمان لی! اس لیے میں نے اسے واپس کردیا۔[ابن ماجہ]

شارحِ مشکوٰۃ علامہ نواب قطب دہلویؒ فرماتے ہیں:حدیث میں ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ اور وعید ہے جو قرآنِ کریم کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بناتے ہیں، یوں تو یہ بات بہ طور خود انسانی شرف کے خلاف ہے کہ کوئی شخص اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک انسان کے سامنے دستِ سوال دراز کرے اور اسے حاجت روا قرار دے، چہ جائے کہ اس قبیح فعل کے لیے قرآنِ کریم کو ذریعہ بنایا جائے، اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ قرآنِ کریم پڑھ کر صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے آگے دستِ سوال دراز کرو، اپنے اخروی اور دنیوی امور میں جو چاہے اس سے مانگو، لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلاؤ، کیوں کہ وہ خود اسی ذات کے محتاج ہیںوہ تمھاری کیا حاجت پوری کریں گے۔[مظاہر حق جدید]

حضور ﷺ کی پیشین گوئی

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: لوگوں پر ایک وقت آئے گا جب آدمی کو اس کی کچھ پروا نہیں ہوگی کہ مال حلال طریقے سے حاصل کیا یا حرام طریقے سے؟[بخاری]

امامت، و تدریس پر اجرت جائز، لیکن تراویح پر نہیں

حضرت عثمان بن ابوالعاصؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے مجھے آخری وصیت یہ کی تھی کہ میں ایسا مؤذن مقرر کروں جو اذان پر اجرت نہ لے۔ امام ترمذیؒفرماتے ہیں:اہلِ علم کا اس پر عمل ہے کہ مؤذن کے لیے اذان پر اجرت لینا ناپسندیدہ ہے، اور مؤذن کے لیے مستحب ہے کہ وہ آخرت کے ثواب کے لیے اذان دے۔[ترمذی]اس حدیث سے علما نے یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ عباداتِ محضہ پر اجرت لینا جائز نہیں ہے۔ [تحفۃ الالمعی]

حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ کے اصحاب میں سے چند آدمی پانی کے رہنے والوں کے پاس سے گزرے، جن میں سے ایک شخص کو سانپ نے کاٹ لیا تھا۔ ان میں سے ایک آدمی ان صحابہؓکے پاس پہنچا اور کہا: تم میں سے کوئی شخص جھاڑنے والا ہے؟ پانی میں ایک شخص سانپ یا بچھو کا کاٹا ہوا ہے۔ ایک صحابی گئے اور بکریوں کی شرط پر سورۂ فاتحہ پڑھی تو وہ آدمی اچھا ہوگیا۔ وہ صحابہ کے پاس بکریاں لے کر آئے، لیکن ان لوگوں نے اسے ناپسند کیا اور کہنے لگے: تم نے کتاب اللہ پر اجرت لی! یہاں تک کہ وہ لوگ مدینہ پہنچے تو انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انھوں نے کتاب اللہ پر اجرت لی ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: جن چیزوں پر اجرت لینی جائز ہے ان میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے۔[بخاری]

حضرت مفتی سعید احمد پالن پوریؒ فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک اور تعویذ پر اجرت لینا جائز ہے کیوںکہ یہ بھی ایک علاج ہے، پس جس طرح دوا کی اجرت لینا جائز ہے تعویذ کی اجرت لینا بھی جائز ہے، اور یہ بات دلیل کی محتاج نہیں۔ [تحفۃ القاری]یعنی اس حدیث میں علاج پر اجرت لینے کا ذکر ہے، تلاوت اور عبادت پر اجرت کا ذکر نہیں۔

تین چیزیں اور ان کا حکم

تین چیزیں ہیں؛ (۱)عبادتِ محضہ جیسے اذان ، اقامت، امامت، قرآن وحدیث و تفسیر کی تعلیم وغیرہ (۲)دوم معاملاتِ محضہ جیسے بیع و شرا، اجارہ وغیرہ (۳)دونوں سے مرکب جیسے نکاح وغیرہ۔ تمام ائمہ متفق ہیں کہ جو چیزیں معاملاتِ محضہ ہیں یا دونوں سے مرکب ہیں ان پر اجرت لینا جائز ہے، اور جو چیزیں عباداتِ محضہ ہیں ان پر اجرت لینا جائز نہیں۔ مگر جب احوال بدلے؛ خلافتِ عباسیہ ڈانواڈول ہو گئی اور اسلام پھیلتا ہوا دار الاسلام سے دار الکفر تک پہنچا اور دینی کام کرنے والوں کی کفالت کرنے والا کوئی نہ رہا تو بدلے ہوئے حالات میں متاخرین علما نے دین کے ان کاموں پر -جن کے ساتھ اسلام کی شان وابستہ ہے-اجرت لینے کے جواز کا فتویٰ دیا اور آج تک یہی فتویٰ چل رہا ہے کیوں کہ ابھی حالات سدھرے نہیں، جب حالات پلٹ جائیںگے اور اسلام کی سابقہ شان و شوکت لوٹ آئےگی اس وقت عدم جواز کا فتویٰ دیا جائے گا۔اور متاخرین نے بدلے ہوئے حالات میں یہ جو دو سر افتویٰ دیا ہے یہ شریعت کی تبدیلی نہیں، کیوں کہ اس کی اصل موجود ہے، جب عدم جواز کا فتویٰ تھا اس وقت بھی دینی کام کرنے والوں کی کفالت حکومت کیا کرتی تھی، علما کو جاگیریں اور وظیفے دیے جاتے تھے اور وہ وظیفے بیت المال سے دیے جاتے تھے اور بیت المال لوگوں کی جیبوں سے جمع ہوتا تھا، پھر جب بیت المال کا نظام کمزور پڑ گیا یا درہم برہم ہو گیا تو متاخرین علما نے دینی کام کرنے والوں کا خرچہ بلا واسطہ لوگوں کی جیبوں پرڈال دیا۔ یہ خرچہ پہلے بھی لوگوں کے ذمّے تھا اب بھی انھیں کے ذمّے ہے، بس اتنا فرق ہے کہ پہلے درمیان میں حکومت کا واسطہ تھا، اب وہ واسطہ باقی نہیں رہا،البتہ دین کے وہ کام جن کے ساتھ اسلام کا نظام وابستہ نہیں مثلاً میت کے لیے ایصالِ ثواب کرنا یا رمضان میں تراویح میں قرآن سنانا، ان پر اجرت لینا اب بھی جائز نہیں ۔[ماخوذ ا ز تحفۃ الالمعی]

تعلیم پر اجرت ایک دینی ضرورت

حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ فرماتے ہیں:رہا یہ معاملہ کہ تعلیمِ قرآن پر اجرت و معاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں؟ فقہاے امت کا اس میں اختلاف ہے، امام مالک، شافعی، احمد بن حنبل جائز قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ رحمہم اللہ منع فرماتے ہیں، کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو ذریعہ کسبِ معاش کا بنانے سے منع فرمایا ہے،لیکن متاخرین حنفیہ نے بھی جب ان حالات کا مشاہدہ کیا کہ قرآن مجید کے معلمین کو اسلامی بیت المال سے گذارہ ملا کرتا تھا اب ہر جگہ اسلامی نظام میں فتور کے سبب ان معلمین کو عموماً کچھ نہیں ملتا، یہ اگر اپنے معاش کے لیے کسی محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ میں لگ جائیں تو بچوں کی تعلیمِ قرآن کا سلسلہ یک سر بند ہوجائے گا کیوں کہ وہ دن بھر کا مشغلہ چاہتا ہے، اس لیے تعلیمِ قرآن پر تنخواہ لینے کو بہ ضرورت جائز قرار دیا، جیسا کہ صاحبِ ہدایہ نے فرمایا ہے کہ آج کل اسی پر فتویٰ دینا چاہیے کہ تعلیمِ قرآن پر اجرت وتنخواہ لینا جائز ہے۔ صاحبِ ہدایہ کے بعد آنے والے دوسرے فقہا نے بعض ایسے ہی دوسرے وظائف جن پر تعلیمِ قرآن کی طرح دین کی بقا موقوف ہے مثلاً امامت و اذان اور تعلیمِ حدیث و فقہ وغیرہ کو تعلیمِ قرآن کے ساتھ ملحق کرکے ان کی بھی اجازت دی۔[درمختار، شامی]علامہ شامیؒنے درِمختار کی شرح میں اور اپنے رسالہ شفاء العلیل میں بڑی تفصیل اور قوی دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ تعلیمِ قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کو جن متاخرین نے جائز قرار دیا ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے پورے دین کا نظام مختل ہو جاتا ہے، اس لیے اس کو ایسی ہی ضرورت کے مواقع میں محدود رکھنا ضروری ہے۔اس لیے مُردوں کو ایصالِ ثواب کے لیے ختمِ قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ حرام ہے کیوں کہ اس پر کسی عام دینی ضرورت کا مدار نہیں اور اجرت لے کر پڑھنا حرام ہوا تو اس طرح پڑھنے والا اور پڑھوانے والا دونوں گنہگار ہوئے، اور جب پڑھنے والے ہی کو کوئی ثواب نہ ملا تو میت کو وہ کیا پہنچائےگا؟ علامہ شامیؒ نے اس بات پر فقہا کی بہت سی تصریحات تاج الشریعۃ، عینی شرحِ ہدایہ، حاشیہ خیر الدین بر بحر الرائق وغیرہ سے نقل کی ہیں اور خیر الدین رملیؒکا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ایصالِ ثواب کے لیے قبر پر قرآن پڑھوانا یا اجرت دے کر ختمِ قرآن کرانا صحابہؓوتابعینؒاور اسلافِ امت سے کہیں منقول نہیں، اس لیے بدعت ہے۔[معارف القرآن]

[کالم نگار الفاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here