ذات پات اور قوم و برادری کا مسئلہ(۱)

 

 شیخ، سید، مغل، پٹھان اور صدیقی، فاروقی، عثمانی، انصاری سب کا سلسلہ آدم و حوا پر منتہی ہوتا ہے۔
یہ ذاتیں اور خاندان اللہ تعالیٰ نے محض تعارف اور شناخت کے لیے مقرر کیے ہیں۔

مفتی ندیم احمد انصاری

ذات پات اور قوم و برادری کا مسئلہ تکبّر و تعصب کی بنیاد پر جنم لیتا ہے، اس سے تفرقہ و منافرت پیدا ہوتی ہے، اور یہ سب صالح معاشرے اور اچھے سماج کے لیے مذموم اور اجتماعیت و مساوات کے منافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اور رحمۃ للعالمینﷺ نے احادیثِ مبارکہ میں اس کی بیخ کنی کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ تمام انسان ایک ماں باپ کی سگی اولاد اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔حجۃ الوداع کے موقع پر آخری کیل ٹھونکتے ہوئے ارشاد فرمایا گیاکہ ایمان والوں کے لیے اس طرح کا کوئی جذبہ رکھنا مذموم اور ناجائز ہے۔ اس کے باوجود عوام نہیں لکھے پڑھے لوگ بھی ذات و برادری کے نام پر منقسم اور باہم دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ بڑے خاندان میں پیدا ہونے والے نکمّے افراد بھی گویا زبانِ حال سے یہ کہتے ہیں: ﴿نَحْنُ اَبْنٰۗؤُا اللّٰهِ وَاَحِبَّاۗؤُهٗ﴾ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں، لیکن﴿فَلِمَ يُعَذِّبُكُمْ بِذُنُوْبِكُمْ ۭ بَلْ اَنْتُمْ بَشَرٌ مِّمَّنْ خَلَقَ﴾ پھر اللہ تمھارے گناہوں کی وجہ سے تمھیں سزا کیوں دیتا ہے؟ [المائدہ] کو بھول جاتے ہیں۔ظاہر ہے کسی گھر میں، خاندان میں، برادری میں پیدا ہونا موہوب ہے، مکسوب نہیں۔ جو چیز انسان کے اختیار میں نہ ہو وہ دینِ فطرت میں عزت و ذلت کا معیار نہیں بن سکتی۔
قرآن مجید اور احادیثِ شریفہ کی صراحت کے بعد کتنی ہی بڑی شخصیت اس مسئلے میں چوں چِرا کرے اور پر جو کچھ چاہے کہے یا لکھے، اس کی کوئی حیثیت نہیں۔برِ صغیر میں تو ویسے بھی قوموں کے شجرۂ نسب محفوظ نہیں، جو لوگ اس طرح کی چیزیں پیش کرتے ہیں وہ بھی خاصی مشکوک ہیں، الا ما شاءاللہ۔ حضرت مفتی محمد شفیع عثمانیؒ نے اپنے عثمانی ہونے کی دلیل میں احتیاط کے ساتھ صرف اتنا لکھا ہے کہ خاندان کے بزرگوں سے ایسا سنا ہے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے عقیدت کے پیشِ نظر اپنے ساتھ نعمانی کا ایسا لاحقہ چسپاں کیا کہ ان کے خاندان کو عوام جانتے تک نہیں۔ مولانا صدیقی کے ہاتھ پر ایمان لانے والے اپنے نام کے ساتھ صدیقی لکھ رہے ہیں۔ جسے دیکھو فاروقی بنا بیٹھا ہے۔ حد تو یہ ہے آلِ نبی کے قاتلوں کی اولادیں خود کو سید لکھ رہی ہیں،ع
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
نسلی برتری یا مراعات حاصل کرنے کے لیے جھوٹے دستاویز بنانا عام بات ہے۔ان حالات میں کس کا اعتبار کریں اور کیوں؟ اگر کوئی واقعی انصاری یا شیخ ہے تو اس میں اس کا کیا قصور؟ اگر کوئی واقعی صدیقی یا فاروقی ہے تو اس میں اس کا کیا کمال؟ابولہب کے ہاتھ ٹوٹ گئے! حضرت نوحؑ کا بیٹا غرق ہو گیا! حضرت لوطؑ کی بیوی ہلاک ہو گئی؟
ایک ڈیڑھ صدی سے ایک طبقے نے یہ کیا کہ نام کے ساتھ برادری کے بجائے علاقے یا پیشے کی نسبت جوڑ دی، لیکن یہ علاج تام نہیں، خیالِ خام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جس خاندان، جس برادری، جس علاقے، جس رنگ و نسل میں پیدا کیا اس کے اظہار میں شرم کیسی؟ کوئی کچھ کہے اور کچھ سمجھے، اپنی بلا سے! ہمارا حال تو یہ ہونا چاہیے؎
نہ خوشی اچھی ہے اے دل نہ ملال اچھا ہے
یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے

قوموں اور خاندانوں کا مقصد

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا  ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ؀ ﴾اے لوگو ! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا ہے تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کرسکو، درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہو، یقین رکھو کہ اللہ سب کچھ جاننے والا، ہر چیز سے باخبر ہے۔ [الحجرات]

جامع تعلیم

حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی صاحبؒتحریر فرماتے ہیں: اس آیت میں ایک جامع تعلیم انسانی مساوات کی ہے کہ کوئی انسان دوسرے کو کم تر یا رذیل نہ سمجھے اور اپنے نسب اور خاندان یا مال و دولت وغیرہ کی بنا پر فخر نہ کرے کیوں کہ یہ چیزیں درحقیقت تفاخر کی ہیں ہی نہیں، پھر اس تفاخر سے باہمی منافرت اور عداوت کی بنیادیں پڑتی ہیں، اس لیے فرمایا کہ تمام انسان ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت سے بھائی بھائی ہیں اور خاندان اور قبائل یا مال و دولت کے اعتبار سے جو فرق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے وہ تفاخر کے لیے نہیں بلکہ تعارف کے لیے ہے۔[معارف القرآن]

نسب کی حقیقت

علامہ شبیر احمد عثمانی صاحبؒتحریر فرماتے ہیں: اصل میں انسان کا بڑا چھوٹا یا معزز و حقیر ہونا ذات پات اور خاندان و نسب سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ جو شخص جس قدر نیک خصلت، مودب اور پرہیزگار ہو اسی قدر اللہ کے ہاں معزز و مکرم ہے۔ نسب کی حقیقت تو یہ ہے کہ سارے آدمی ایک مرد اور ایک عورت یعنی آدم و حوا کی اولاد ہیں۔ شیخ، سید، مغل، پٹھان اور صدیقی، فاروقی، عثمانی، انصاری سب کا سلسلہ آدم و حوا پر منتہی ہوتا ہے۔ یہ ذاتیں اور خاندان اللہ تعالیٰ نے محض تعارف اور شناخت کے لیے مقرر کیے ہیں، بلاشبہ جس کو حق تعالیٰ کسی شریف اور بزرگ و معزز گھرانے میں پیدا کر دے وہ ایک موہوب شرف ہے -جیسے کسی کو خوب صورت بنادیا جائے-لیکن یہ چیز ناز اور فخر کرنے کے لائق نہیں کہ اسی کو معیار کمال اور فضیلت کا ٹھہرا لیا جائے اور دوسروں کو حقیر سمجھا جائے، ہاں شکر کرنا چاہیے کہ اس نے بلا اختیار و کسب ہم کو یہ نعمت مرحمت فرمائی۔ شکر میں یہ بھی داخل ہے کہ غرور و تفاخر سے باز رہے اور اس نعمت کو کمینہ اخلاق اور بری خصلتوں سے خراب نہ ہونے دے۔ بہ ہرحال مجدو شرف اور فضیلت و عزت کا اصلی معیار نسب نہیں تقویٰ و طہارت ہے اور متقی آدمی دوسروں کو حقیر کب سمجھے گا ؟[تفسیرِ عثمانی]

قومیت کا تعصب تباہ کن

مولانا ابوالکلام آزاد صاحبؒتحریر فرماتے ہیں: تمام انسانی برادری ایک ہی اصل سے پیدا ہوئی ہے اور وطن وقومیت کا تعصب ان کے لیے تباہ کن ہے، اس لیے انسانیت کی بھلائی اسی میں ہے کہ تمام انسانوں کو یک ساں نظر سے دیکھاجائے اور سب سے یک ساں سلوک کیا جائے، خصوصاً مسلم معاشرے کو ان خرابیوں سے محفوظ رکھنا ضروری ہے۔ جاہلیت میں ترجیح و برتری کی بنیاد نسلی امتیازات پر تھی، قرآن مجید نے اسلامی معاشرے کی بنیاد انسانی ہمدردی پر رکھی اور نسلی امیتازات کو یک سر ختم کردیا اور فرمایا کہ قوموں اور برادریوں کی یہ تقسیم محض تعارف کا ذریعہ ہے اور اسے اسی حد تک باقی رکھنا ضروری ہے لیکن اکرام واعزا پرہیزگاری اور تقوے کی وجہ سے ہے۔[ترجمان القرآن]

قیامت کا منظر

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن اللہ کی طرف سےایک منادی ندا دے گا؛ بےشک میں نے ایک نسب مقرر کیا تھا اور تم نے بھی ایک نسب مقرر کیا تھا۔ میں نے تو سب سے بڑے متقی کو سب سے زیادہ عزت والا قرار دیا تھا تم نے اس کو نہیں مانا بلکہ تم کہتے رہے : فلاں بن فلاں، فلاں بن فلاں سے بہتر ہے۔ سو آج میں اپنے قایم کیے ہوئے نسب کو سربلند کرتا ہوں اور تمھارے قایم کردہ نسب کو نیچے گراتا ہوں، کہاں ہیں اہلِ تقویٰ! عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ  ﷺ: “إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ أَمَرَ اللَّهُ مُنَادِيًا، فَنَادَى: إِنِّي جَعَلْتُ نَسَبًا، وَجَعَلْتُمْ نَسَبًا، فَجَعَلْتُ أَكْرَمَكُمْ أَتْقَاكُمْ، فَأَبَيْتُمْ إِلا أَنْ تَقُولُوا: فُلانُ بْنُ فُلانٍ خَيْرٌ مِنْ فُلانِ بْنِ فُلانٍ، فَأَنَا الْيَوْمَ رَافِعٌ نَسَبِي، وَأَضَعُ نَسَبَكُمْ، أَيْنَ الْمُتَّقُونَ؟” [معجم اوسط طبرانی]
[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here