ربیع الاوِل کی بہاریں اور اس ماہ کے مخصوص اعمال

rabiul-awwal-ki-baharien-aur-uske-amaalندیم احمد انصاری
(الفلاح اسلامک فاؤنڈٰیشن، انڈیا)
ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے،اس ماہ سے متعلق کوئی خاص حکم شریعتِ مطہرہ نے نافذ نہیں کیاالبتہ !اسی ماہ میں چوں کہ خلاصۂ کائنات حضرت محمد اکی ولادت ِ باسعادت ہوئی،اس طور پر یہنہایت ہی مبارک و متبرک مہینہ ہے۔ شیخ علم الدین سخاویؒاپنی کتاب ’المشہور فی اسماء الایام والشہور‘ میں فرماتے ہیں کہ ربیع الاول کے نام کا سبب یہ ہے کہ اس مہینے میںان(اہلِ عرب) کی اقامت ہوجاتی ہے‘ ارتباع کہتے ہیں اقامت کو، اس کی جمع اربعاء ہے۔(تفسیر ابن کثیر)اس سے زیادہ صحیح بات ہمارے نزدیک یہ ہے کہ اس ماہ کو ربیع الاول اس لیے کہتے ہیں کہ ربیع کے ایک معنی بہار کے ہیں اور چوں کہ اس مبارک مہینے میں خلاصۂ کائنات حضرت محمدﷺ کی ولادت وقوع پذیر ہوئی، اس لیے اسے موسمِ بہارسے تعبیر کیا گیا۔کسی کو اس پر یہ اشکال بھی ہوسکتا ہے کہ مہینوں کے یہ نام تو قدیم زمانے سے چلے آتے ہیں اور ولادتِ نبویﷺ سے پہلے بھی یہی نام مشہور تھے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو بھی تو اس مبارک گھڑی کے وقوع پذیر ہونے کا علم ازل سے تھا، اسی لیے یہ نام مشہور کردیے۔
ربیع الاول کے اہم واقعات
ربیع الاول کے مہینے میںولادتِ نبوی ﷺکے علاوہ بھی کئی اہم واقعات رو نما ہوئے ہیں؛ایک قول کے مطابق اسی ماہ میں نبوّت کے شرف سے آپ ﷺ کو مشرف فرمایا گیا، ایک قول کے مطابق معراج کا واقعہ بھی اسی مہینہ میں پیش آیا، نیز اسی مہینے میں سرورِ کائنات مکّہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے اور اسی مہینے میں رحمۃ للعالمین ﷺ نے وفات پائی۔(لطائف المعارف)
ولادتِ نبویؐ کی صحیح تاریخ
تمام مؤرخین اور اصحابِ سیر کا اس پر تو اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادتِ با سعادت پیر کے دن ہوئی،البتہ تاریخ میں شدید اختلاف ہے۔2،8،9،10اور12 تاریخیں بیان کی گئی ہیں اور وفات کے سلسلے میں12ربیع الاول کو جب کہ ولادت کے سلسلے میں9ربیع الاول کو ترجیح دی گئی ہے،شاید یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی زبانوں پر لفظ ’بارہ وفات‘کا رہتا ہے اور جشن عید میلاد النبی ﷺ کا مناتے ہیں۔(دیکھیے رحمۃ للعالمین ،سیرۃ النبی للنعمانی،سیرۃ المصطفیٰ،نضرۃالنعیم)
یومِ ولادتِ نبویؐ
یومِ ولادت ِ نبویﷺ یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا‘وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا،اس لیے کہ اس مبارک دن میں رحمۃللعالمین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺاس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے،اگرچہ شریعت نے سالانہ آقا کے یومِ ولادت کو’منانے‘ کا حکم نہیں دیا، نہ اسے عید ہی قرار دیا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے،لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن آیا تھا، وہ واقعی نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔آج جو لوگ اس دن کو ’عید‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، وہ ایک من گھڑت بات ہے، اس لیے کہ ارشادِ نبوی ﷺ کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دیگر قوموں کے مقابلے میںمسلمانوں کے لیے عید کے دو دن مقرّر کیے ہیں :(۱)عید الفطر (۲) عید الاضحی۔یہ وضاحت اس موقع پر آپ ﷺ نے فرمائی تھی‘ جب کہ آپ نے اہلِ مدینہ کو دوسرے دنوں میں زمانۂ جاہلیت کے طرزپر عید و خوشی مناتے دیکھا۔(ابو داود)
اس حدیث اور اس کے سیاق و سباق سے یہ مسئلہ بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺنے اپنے ماننے والوں کے لیے صرف دو دنوں کو عید کے طورپر مقرر فرمایا ،اب اگر کوئی اس پر زیاتی کرکے اپنی طرف سے مزید ایک دن بڑھاتا اور اس میں عید جیسی خوشیاں مناتا ہے،تو وہ رحمۃ للعالمین ﷺ کے اس ارشادِ عالی پر گویا اپنی عدم رضامندی کا اظہار کرتا ہےیااپنی طرف سے نیا دین تراشتا ہےاور یہ دونوں ہی طرزِعمل نہایت خطرناک ہیں۔
مفتی اعظم مکہ مکرمہ کا فتویٰ
اسی لیے سابق مفتیِ اعظم مکہ مکرمہ شیخ عبدالعزیز بن عبد اللہ بن باز تحریر فرماتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے 12ربیع الاول کی رات یا کسی اور رات میلاد النبیﷺ کی محفل منعقد کرنا جائز نہیں ہے،بلکہ حضرت نبی کریمﷺ کے علاوہ کسی اور کی ولادت کی محفل منعقد کرنا بھی جائز نہیں ہے،کیوں کہ میلاد کی محفلوں کا تعلق ان بدعات سے ہے،جو دین میں نئی پیدا کر لی گئی ہیں۔حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات ِ پاک میں کبھی اپنی محفلِ میلاد کا انعقاد نہیں فرمایا تھا،حالاں کہ آپ ﷺ دین کے تمام احکام کو بلا کم وکاست ،من وعن پہنچانے والے تھے اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے مسائلِ شریعت کو بیان فرمانے والے تھے،آپ ﷺ نے محفلِ میلاد نہ خود منائی اور نہ کسی کو اس کا حکم دیا،یہی وجہ ہے کہ خلفاے راشدین ،حضراتِ صحابہ کرامؓاور تابعینؒ میں سے کسی نے کبھی اس کا اہتمام نہیں کیا۔(مقالات وفتاویٰ)
12ربیع الاول کا جلوس
آج کل12ربیع الاول میں عید میلاد النبی ﷺ کا جشن منانے والے جلوس بھی نکالتے ہیں،جس میں جھنڈے لیے پھرتے ہیں اور نعرے بازی کرتے ہیں،جب کہ قرنِ اوّل سے اس عمل کا کوئی ثبوت ہے اورنہ دلائلِ شرع میں اس کی اصل موجود ہے ،اور جس عمل کی دلیل شریعت میں نہ ہو ،اس کو دین سمجھ کر کرنا بدعتِ سیئہ ہےاور بدعت سیئہ پر احادیث میں سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،لہٰذا یہ عمل جائز نہیں۔قرآنِ پاک میں ہے کہ کافروں نے کھیل تماشوں کو اپنا دین ٹھہرا لیا ہے،اس طرح جھنڈا لہرانا اور نعرے لگانا بھی کھیل تماشہ اور کھیل کی قبیل سے ہے۔(فتاویٰ ریاض العلوم)
12ربیع الاول کو کاروبار بند رکھنا
12ربیع الاول کو کاروبار بند رکھنے یا جاری رکھنے سے متعلق شریعت میںکوئی خاص حکم موجود نہیں ہے، البتہ جو دکان بند نہ کرے ،اس پر خدا و رسول کی طرف سے کوئی الزام نہیں ہے،اگر کوئی اس دن اپنا کاروبار بند رکھے،اس شرط کے ساتھ کہ اسے شرعی حکم نہ سمجھتا ہو اور کسی کو لعن طعن نہ کرے نیز کسی کو مجبور نہ کرے ،تو خیرلیکن ان کو اس بات کا حق نہیں کہ بغیر ہدایت ِ شرعیہ کے خود ایک بات ایجاد کریں پھر اس کو دوسروں سے جبراً کرائیں۔(کفایت المفتی)
موئے مبارک کی زیارت
بعض لوگ12ربیع الاول کو رسول اللہ ﷺ کے مبارک بال کی زیارت کرتے کراتے ہیں،اگر یہ ثابت ہو جائے کہ واقعی وہ بال حضرت نبی کریم ﷺ کے ہیںتوان کی زیارت بڑی سعادت مندی کی بات ہے،جب کہ یہ زیارت غلو سے بھی پاک ہو۔جیسا کہ ’فتاویٰ رحیمیہ‘ میں ہے کہ بے شک ! موئے مبارک اور تبرکات ِ نبویہﷺ موجبِ خیر وبرکت ہیں اور اس کی زیارت سے اجر وثواب ملتا ہے،لیکن اس میںغلو اور زیادتی کی جاتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حد سے بڑھ جانا چاہے اعتقاد میں ہو ،خواہ عمل میں،بہت برا اور سببِ عذاب ہے۔تبرکات سے برکات حاصل کرنے کاصحیح اور جائز طریقہ یہ ہے کہ بلاتعیینِ تاریخ اور بلا اہتمام اجتماع ،جب دل چاہے زیارت کر ے کرائے۔(فتاویٰ رحیمیہ جدیدملخصاً)
https://afif.in

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here