رجب میں عمرہ کرنا مستحب اور صحابۂ کرامؓسے ثابت ہے

نبی کریمﷺ کارجب میں عمرہ

حضرت عروہ بن زبیرؓفرماتے ہیں؛میں اور حضرت ابن عمرؓدونوں حضرت عائشہؓکے حجرے کی طرف ٹیک لگائے ہوئے اس طرح بیٹھے تھے کہ ہم حضرت عائشہ ؓکے مسواک کرنے کی آواز سن رہے تھے،اتنے میں مَیں نے کہا: اے ابو عبدالرحمن! کیا حضرت نبی کریمﷺ نے رجب میں عمرہ کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہاں۔ مَیں نے حضرت عائشہؓسے عرض کیا: امّی! کیا آپ نہیں سن رہی ہیں کہ ابوعبدالرحمنؓکیا کہہ رہے ہیں؟ حضرت عائشہؓنے فرمایا: کیا کہہ رہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: وہ کہتے ہیں کہ حضرت نبی کریمﷺ نے رجب میں عمرہ کیا ہے۔ حضرت عائشہؓنے فرمایا: اللہ ابوعبدالرحمنؓکی مغفرت فرمائے، میری عمر کی قسم! آپﷺ نے رجب میں عمرہ نہیں کیا اور آپ نے جو عمرہ بھی کیا تو حضرت ابن عمرؓآپ کے ساتھ تھے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓیہ سب سن رہے تھے،لیکن انھوں نے نہ تو نہ کہا اور نہ ہاں،وہ خاموش رہے۔کُنْتُ أَنَا وَابْنُ عُمَرَ مُسْتَنِدَيْنِ إِلٰی حُجْرَةِ عَائِشَةَ وَإِنَّا لَنَسْمَعُ ضَرْبَهَا بِالسِّوَاکِ تَسْتَنُّ ، قَالَ: فَقُلْتُ؛ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ فِي رَجَبٍ،قَالَ نَعَمْ. فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ أَيْ أُمَّتَاهُ أَلَا تَسْمَعِينَ مَا يَقُولُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمٰنِ؟ قَالَتْ: وَمَا يَقُولُ؟ قُلْتُ: يَقُولُ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ فِي رَجَبٍ، فَقَالَتْ: يَغْفِرُ اللہُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمٰنِ لَعَمْرِي مَا اعْتَمَرَ فِي رَجَبٍ وَمَا اعْتَمَرَ مِنْ عُمْرَةٍ إِلَّا وَإِنَّہٗ لَمَعَهٗ ،قَالَ وَابْنُ عُمَرَ يَسْمَعُ فَمَا قاَلَ: لَا وَلَا نَعَمْ، سَکَتَ. [مسلم]

حضرت مجاہدؓکی روایت میں ہے؛ وہ فرماتے ہیں کہ میں اور حضرت عروہ بن زبیرؓمسجد میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ حضرت ابن عمرؓحضرت عائشہؓ کے حجرۂ مبارکہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور لوگ مسجد میں چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ہم نے حضرت ابن عمرؓسے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھاتو انھوں نے فرمایا: یہ بدعت ہے۔ پھر حضرت عروہ نے حضرت ابن عمرؓسے پوچھا کہ رسول اللہﷺ نے کتنے عمرے کیے ہیں؟ انھوں نے فرمایا:چار عمرے کیے اور ان میں سے ایک عمرہ آپﷺ نے رجب میں کیا۔ہم نے نامناسب سمجھا کہ ہم ان کو جھٹلائیں اور ان کی تردید کریں۔ پھر ہم نے حضرت عائشہؓکے حجرےمیں مسواک کرنے کی آواز سنی تو حضرت عروہؓکہنے لگے: ام المؤمنین! کیا آپ سن رہی ہیں کہ ابوعبدالرحمنؓکیا کہہ رہے ہیں؟ حضرت عائشہؓنے فرمایا: وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ عروہ نے کہا: وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے چار عمرے کیے اور ان میں سے ایک عمرہ رجب میں کیا ہے۔ حضرت عائشہؓنے فرمایا: اللہ ابوعبدالرحمنؓپر رحم فرمائے! رسول اللہﷺ نے کوئی عمرہ نہیں کیا سوائے اس کے کہ وہ ان کے ساتھ تھے، اور آپﷺ نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں فرمایا۔عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ؛ دَخَلْتُ أَنَا وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا عَبْدُ اللہِ بْنُ عُمَرَ جَالِسٌ إِلٰی حُجْرَةِ عَائِشَةَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ الضُّحٰی فِي الْمَسْجِدِ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ صَلَاتِهِمْ، فَقَالَ: بِدْعَةٌ، فَقَالَ لَهٗ عُرْوَةُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ کَمْ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللہِ ﷺ! فَقَالَ: أَرْبَعَ عُمَرٍ إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ، فَکَرِهْنَا أَنْ نُکَذِّبَهُ وَنَرُدَّ عَلَيْهِ.[بخاری] قَالَ:‏‏‏‏ وَسَمِعْنَا اسْتِنَانَ عَائِشَةَ فِي الْحُجْرَةِ، فَقَالَ عُرْوَةُ؛ أَلَا تَسْمَعِينَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِلٰی مَا يَقُولُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمٰنِ؟ فَقَالَتْ: وَمَا يَقُولُ، قَالَ: يَقُولُ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ أَرْبَعَ عُمَرٍ إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ، فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللہُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمٰنِ! مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللہِﷺ إِلَّا وَهُوَ مَعَهٗ وَمَا اعْتَمَرَ فِي رَجَبٍ قَطُّ. [بخاری]

حضرت ابنِ عمرؓ پر یہ امر مشتبہ ہو گیا

امام نوویؒ فرماتے ہیں: جہاں تک حضرت ابن عمرؓکا قول ہے کہ ایک عمرہ ماہِ رجب میں کیا، جس پر حضرت عائشہؓ نے نکیر فرمائی اور اس پر حضرت ابن عمرؓخاموش رہے، تو علما کا کہنا ہے کہ یہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ ان پر یہ امر مشتبہ ہو گیا، یا وہ بھول گئے، یا انھیں شک ہو گیا اور وہ اسی لیے حضرت عائشہؓ کے انکار پر خاموش رہے۔وأما قول ابن عمر أن إحداھن فی رجب، فقد أنکر لہ عائشۃ و سکت ابن عمر حین أنکرتہ، قال العلماء: ھذا یدل علی أنہ اشتبہ علیہ أو نسی أو شک و لھٰذا سکت عن الإنکار علی عائشۃ، إلخ.[المنہاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج] علامہ قاضیؒ فرماتے ہیں:حضرت ابن عمرؓکا سکوت حضرت عائشہؓ کے قول کو ثابت کرنے اور ان کی روایت کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ وذلک دلیل إثبات قول عائشۃ، و صحۃ روایتھا.[اکمال المعلم بفوائد المسلم]

اسلاف رجب میں عمرہ کرتے تھے

علامہ ابن رجب حنبلیؒ فرماتے ہیں:حضرت عائشہؓ نے اس سلسلے میں حضرت ابن عمرؓ پر نکیر کی اور حضرت ابن عمرؓسن رہے تھے لیکن خاموش رہے اور رجب کے مہینے میں عمرہ کرنے کو حضرت عمر بن خطابؓوغیرہ بھی مستحب سمجھتے تھے اور حضرت عائشہؓ و حضرت ابن عمرؓ اس مہینے میں عمرہ کرتے تھے۔ علامہ ابن سیرینؒ نے اسلاف کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ لوگ اس مہینے میں عمرہ کرتے تھے۔فأنکرت ذلک عائشۃ علیہ،وھو یسمع،فسکت۔ واستحب الاعتمار فی رجب عمر ابن الخطاب وغیرہ، وکانت عائشۃ تفعلہ وابن عمر أیضاً. ونقل ابن سیرین عن السلف أنھم کانوا یفعلونہ.[لطائف المعارف:232] (قولہ: إلا وھو معہ تعنی ابن عمر) أی حاضر معہ، وقالت ذلک مبالغۃ فی نسبتہ إلی الإنسان (وما اعتمر فی شہر رجب قط). [تحفۃ الأحوذی]

اہلِ مکہ کا رجب میں عمرہ کرنا

علامہ شامیؒ نے تحریر فرمایا ہے: بعض علما نے ملا علی قاریؒ سے نقل کیا ہے کہ ان کے رسالے ’الأدب فی رجب‘ میں ہے: رجب میں عمرے کا سنت ہونا -اس طرح کہ رسول اللہ ﷺ نے کیا ہو یا اس کا حکم دیا ہو-یہ تو ثابت نہیں، لیکن یہ روایت کی گئی ہے کہ حضرت عبداللہ بن زبیرؓجب بیت اللہ کی تعمیر سے رجب کی ستائیسویں تاریخ سے کچھ پہلے فارغ ہوئے تو انھوں نے اونٹ کو نحر کیا تھا اور دو مزید قربانیاں کی تھیں اور اہلِ مکہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اس وقت اس تعمیر پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے لیے عمرہ کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ کا فعل حجت ہے اور مسلمان جسے اچھا خیال کریں وہ امرِ حسن ہوتا ہے۔ اہلِ مکہ جو رجب کے مہینے میں عمرے کو خاص کرتے ہیں، اس کا سبب یہی ہے۔نقل بعضهم عن الملا علي في رسالته المسماة ’الأدب في رجب‘: أن كون العمرة في رجب سنة بأن فعلها عليه الصلاة والسلام أو أمر بها لم يثبت؛ نعم روي أن ابن الزبير لما فرغ من تجديد بناء الكعبة قبيل سبعة وعشرين من رجب نحر إبلاً وذبح قرابين وأمر أهل مكة أن يعتمروا حينئذ شكراً للہ تعالى على ذلك، ولا شك أن فعل الصحابة حجة وما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن ،فهذا وجه تخصيص أهل مكة العمرة بشهر رجب، اهـ.[فتاویٰ شامی]

حضرت تھانویؒ کا اشکال اور اس کا جواب

حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒکا خیال ہے کہ رجب میں حضورﷺ کے عمرہ فرمانے کی نفی ’صحیح مسلم‘ کی حدیث میں وارد ہے اور حضرت عبد اللہ بن زبیرؓکے فعل کا اتباع تین امر پر موقوف ہے:(۱)سند اس قصے کی صحیح ہو، تو وہ غیر معلوم ہے(۲) عقائدِعوام میں غلو نہ ہوجائے، اور ہمارے وقت میں غلو شاہد ہے(۳)مقصود ابن زبیرؓکا اس پر استدامت ہو اور اس کا دعویٰ محض بلا دلیل ہے، وہ خاص اسی وقت کے متعلق تھا کہ ایک تازہ نعمت ظاہر ہوئی تھی، اس پر دوام ایک گو نا عید منانا ہے، جو غیر مشروع ہے۔[زوال السنۃ عن اعمال السنۃ مخرج]

اگرچہ صحیح روایت سے رجب میں آپﷺ کا عمرہ نہ کرنا ثابت ہے، تاہم رجب میں عمرہ کرنا حضراتِ صحابۂ کرامؓسے ثابت ہے، چوں کہ یہ شہرِ حرام ہے اور وسطِ سال میں ہے۔حضرت ابن عمرؓہر سال رجب میں عمرہ کرتے تھے، حضرت عمر ؓ اور حضرت عثمانؓرجب میں عمرہ فرماتے تھے، حضرت عائشہؓ نے بھی مدینہ منورہ سے رجب میں عمرہ کیا تھا۔[شمائلِ کبریٰ]

اسلاف کا معمول

اس بابت روایات تلاش کی گئیں تو بہ شمول حضرت ابن زبیرؓمتعدد صحابۂ کرامؓسے رجب میں عمرے کا ثبوت مل گیا:
qحضرت نافعؒ سے مروی ہے، حضرت ابن عمرؓنے جنگ والے سال شوال اور رجب میں عمرہ ادا فرمایا۔عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؛ أَنَّہُ اعْتَمَرَ عام الْقِتَالَ فِی شَوَّالٍ وَرَجَبٍ.[مصنف ابن ابی شیبہ]
qحضرت سعید بن المسیبؒسے مروی ہے، حضرت عائشہؓنے ذی الحجہ کے آخر میں عمرہ ادا فرمایا، اور مدینے سے رجب میں عمرہ ادا کیا اور ذوالحلیفہ سے عمرےکا احرام باندھا۔عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ ، قَالَ : کَانَتْ عَائِشَۃُ تَعْتَمِرُ فِی آخِرِ ذِی الْحِجَّۃِ ، وَتَعْتَمِرُ مِنَ الْمَدِینَۃِ فِی رَجَبٍ ، تُھِلُّ مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃِ.[مصنف ابن ابی شیبہ]
qحضرت یحییٰ کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓاور حضرت عثمانؓکے ساتھ ماہِ رجب میں عمرہ کیا۔عَنْ یَحْیَی بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، عَنْ أَبِیہِ ، قَالَ : اعْتَمَرْتُ مَعَ عُمَرَ وَعُثْمَانَ فِی رَجَبٍ. [مصنف ابن ابی شیبہ]
qایک روایت میں حضرت یحییٰ بن عبد الرحمن کے والد فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عثمانؓکے ساتھ ماہِ رجب میں عمرہ کیا۔ عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃَ ، قَالَ : سَمِعْتُ یَحْیَی بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ یُحَدِّثُ ، عَنْ أَبِیہِ ؛ أَنَّہُ اعْتَمَرَ مَعَ عُثْمَانَ فِی رَجَبٍ. [مصنف ابن ابی شیبہ]
qحضرت اسودؒ نے رجب میں عمرہ ادا کیا اور پھر واپس لوٹ آئے۔عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَۃَ ، قَالَ : کَانَ الأَسْوَدُ یَعْتَمِرُ فِی رَجَبٍ ثُمَّ یَرْجِعُ.[مصنف ابن ابی شیبہ]
qحضرت قاسمؒبھی رجب میں عمرہ کرتے تھے۔عَنْ أَفْلَحَ ، قَالَ: کَانَ الْقَاسِمُ یَعْتَمِرُ فِی رَجَبٍ.[مصنف ابن ابی شیبہ]

رجب میں عمرہ کیوں؟

علامہ طبریؒ نے حضرت عبد اللہ عمرؓ کے حوالے سے ذکر کیا ہے:وہ ہر سال رجب میں عمرے کا سفر کرتے تھے، جس میں وہ حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کا اتباع کرتے تھے، اس لیے کہ حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما رجب کے مہینے میں عمرہ ادا فرماتے تھے اور حضراتِ صحابۂ کرامؓاس کے ماہِ حرام اور درمیانی مہینہ ہونے کے باعث قابلِ احترام سمجھتے تھے کہ یہ مہینہ اس بات کا زیادہ حق دار ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کی تعظیم کے لیے عمرہ کیا جائے۔(علامہ طبریؒ فرماتے ہیںکہ) ابو ذرؒنے اسے اپنی مناسک میں بیان کیا ہےاور حضرت قاسمؒ، حضرت عائشہؓ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ماہِ رجب میں مدینے سے عمرے کے لیے جاتی تھیں اور ذو الحلیفہ پہنچ کر احرام باندھتی تھیں۔ اسے ابن الحاجؒاور ابن صلاحؒنے اپنی مناسک میں ذکر کیا ہے،اور رجب کے مہینے میں عمرے کی روایت سلف کی ایک جماعت سے مروی ہے۔أنہ کان یعتمر فی رجب کل عام، و یتبع فی ذلک فعل عمر و عثمان، وکلاھما کان یعتمر فی رجب، و یرونہ شھراً حراماً من أوسط الشھور، وأحق أن یعتمر فیہ لتعظیم حرمات اللہ۔ قال: أخرجہ أبو ذر فی منسکہ۔۔۔ وعن القاسم عن عائشۃ رضی اللہ عنھا: وأنھا تعتمر من المدینۃ فی رجب و تھل ،من ذی الحلیفۃ۔ ذکرہ ابن الحاج وابن الصلاح فی منسکیھا۔ قال ابن الصلاح: وروی الإعتمار فی رجب عن جماعۃ من السلف، اھ. [معارف السنن]

کیا رجب میں عمرہ کرنے والامتمتع ہوگا؟

حضرت مغیرہ فرماتے ہیں، حضرت ابراہیمؒسے دریافت کیا گیا : کچھ لوگ رجب کے مہینے میں عمرہ کرتے ہیں اور پھر وہیں پر رہتے ہیں کہ حج بھی کرلیتے ہیں، کیا وہ لوگ تمتع کرنے والے ہیں؟ آپ نے فرمایا : نہیں! حجِ تمتع کرنے والا وہ شمار ہوگا جو حج کے مہینوں میں عمرہ کرے اور پھر حج تک وہیں مقیم رہے اور حج بھی کرے یہ شخص تمتع کرنے والا ہے، اس پر ہدی (جانور ذبح کرنا) بھی ہے، اگر نہ پائے تو روزے رکھ لے۔ عَنْ مُغِیرَۃَ ، قَالَ : سَأَلْتُ إبْرَاھِیمَ ، قَالَ : قُلْتُ : الَّذِینَ یَعْتَمِرُونَ فِی رَجَبٍ ثُمَّ یُقِیمُونَ حَتَّی یَحُجُّوا ، أَمُتَمَتِّعُونَ ھُمْ ؟ قَالَ : لاَ ، إنَّمَا الْمُتَمَتِّعُ مَنْ أَھَلَّ بِالْعُمْرَۃِ فِی أَشْھُرِ الْحَجِّ، ثُمَّ أَقَامَ حَتَّی یَحُجَّ، فَذَلِکَ مُتَمَتِّعٌ وَعَلَیْہِ الْھَدْیُ ، أَوِ الصَّوْمُ إِنْ لَمْ یَجِدْ.[مصنف ابن ابی شیبہ]

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here