مولانا ندیم احمد انصاری
رسول اللہﷺ کے جو حقوق آپ کی ماننے والوں پر واجب ہوتے ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ آپ کی بھرپور مدد و نصرت کی جائے اور آپ کا مکمل دفاع کیا جائے۔ آپ کی عزت و ناموس کا دفاع کرنا تمام اہلِ ایمان پر ہر دم واجب ہے۔ رسول اللہﷺ نے سیکڑوں مرتبہ عفو و درگزر کے باوجود اس طرف توجہ دلائی ہے۔ بخاری شریف میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسانؓسے فرمایا: تم مشرکوں کی ہجو کرو (جس نے تمھارے نبی کی شان میں نازیبا کلمات کہے، یا ہجو کی ہے)،جبریل ؑ تمھارے ساتھ ہیں۔(بخاری)امت کو جو یہ رسول اللہﷺ کے دفاع کا حکم دیا گیا، یہ خود امت کے حق میں درجات کی بلندی کا سبب ہے، ورنہ باری تعالیٰ کو کسی کی حاجت نہیں اور اُس نے اپنے حبیب کی حفاظت کی ذمّے داری خود لے رکھی ہے۔ ارشاد ربانی ہے:{فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُ، وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم}پس اب اللہ کافی ہے، آپ کی طرف سے، اور وہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔ (البقرہ)اس آیت میں واضح کر دیا گیا کہ آپﷺ اپنے مخالفوں کی زیادہ فکر نہ کریں، ہم خود اُن سے نمٹ لیں گے اور یہ ایسا ہی ہے، جیسے دوسرے مقام پر {وَاللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ} (المائدہ) میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ فرما دیا کہ آپﷺ مخالفین کی فکر نہ کریں، اللہ تعالیٰ اُن سے آپ کی حفاظت خود کریں گے۔ (معارف القرآن، بتغیر)
بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر
سیرتِ نبوی ﷺکا مشہور واقعہ ہے کہ جس وقت مدینے کے لوگوں نے بیعتِ عقبہ ثانیہ کے موقع پر رسول اللہﷺ کو مدینے میں تشریف آوری کی دعوت دی تھی، انھوں نے اُس وقت بھی آپﷺ کی حفاظت اور دفاع کا وعدہ کیا تھا۔ حضرت کعب بن مالکؓفرماتے ہیںکہ ہم سب اکٹھے ہوئے اور رسول اللہﷺ کا انتظار کرنے لگے، یہاں تک کہ آپﷺ تشریف لے آئے۔اُس وقت آپﷺ کے ساتھ آپ کے چچا عباس بن عبد المطلب بھی تھے، جو کہ اُس وقت تک اپنے باپ دادوں کے دین پر تھے۔ اُنھوں نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: کیا تمھیں معلوم ہے کہ محمدﷺ کا ہمارے درمیان کیا مقام ہے؟ ہم نے اُنھیں اُن لوگوں سے آج تک محفوظ رکھا ہے، جو دین میں ہمارے جیسی (اور اِن سے مختلف) رائے رکھتے ہیں، لہٰذا وہ اپنی قوم میں عزت اور اپنے شہر میں حفاظت کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا: آپ نے جو کچھ کہا، وہ ہم نے سُن لیا۔ اے اللہ کے رسولﷺ اب آپ کچھ ارشاد فرمائیں! آپﷺ نے قرآنِ کریم کی تلاوت فرمائی، اللہ عز و جل کی طرف اُنھیں دعوت دی اور اسلام کی رغبت دلائی اور فرمایا: میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم ہر اُس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر براء بن معرورؓ نے آپﷺ کا دستِ مبارک تھام کر عرض کیا: ہاں، اُس ذات کی قسم،جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! ہم یقیناً اس چیز سے آپﷺ کی حفاظت کریں گے جس سے اپنی جانوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اے اللہ کے رسول! آپ ہم سے بیعت لیں، ہم جنگ کے بیٹے ہیں اور ہتھیاروں سے خوب واقف ہیں۔ یہ وراثت ہمیں ہمارے باپ دادوں سے ملی ہے۔ (مسند احمد)
قرآنی ارشاد
اس لیے رسول اللہ ﷺکی بھر پور مدد و نصرت کرنا ہر ایمان والے پر رسول اللہﷺ کا حق ہے۔ارشادِ ربانی ہے:{وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ، اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ}اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کون غیب کی باتوں کو بغیر دیکھے اُس کی اور اُس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے، بے شک اللہ تعالیٰ (اس کے ذریعے تمھیں آزمانا اور نوازنا چاہتا ہے، ورنہ) بے شک اللہ تعالیٰ تو بہت قوت والا اور غلبے والا ہے۔ (الحدید)
انبیاے کرام سے عہد
سابقہ انبیاے کرام علیہم السلام سے بھی رسول اللہ حضرت محمدﷺ کی نصرت و حمایت کا عہد لیا گیا تھا۔باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَاِذْ اَخَذَ اللّٰہُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَآ اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتٰبٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآئَکُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہٗ}اور جب اللہ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ جب میں تم کو کتاب و حکمت عطا کروںپھر تمھارے پاس ایک رسول آئے، جوتمھاری کتاب کی تصدیق کرے تو تمھیں ضرور اُس پر ایمان لانا ہوگا اور ضرور اُس کی مدد کرنی ہوگی۔(آل عمران)اور اللہ کے فرشتے بھی رسول اللہ کے رفیق و مددگار ہیں:{ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ مَوْلٰئہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ، وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَھِیْرٌ}بے شک! اللہ اور جبریل اور نیک مومنین اُس (رسول) کے حامی و دوست ہیں اور ان کے علاوہ (دیگر) فرشتے بھی۔(التحریم)
قیامت تک کی ذمّے داری
اس لیے رسول اللہﷺ کی حیات میں اور وفات کے بعد قیامت تک مومنین پر لازم ہے کہ رسول اللہﷺ کی مدد و نصرت کریں۔ آپﷺ کی حیات میں توآپﷺ کے اصحابؓنے اس نصرت کا گویا حق ادا کردیا، اب آپ ﷺکے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد مومنین پر لازم ہے کہ وہ مندرجۂ ذیل صورتوں میں رسول اللہﷺ کی مدد و نصرت کریں:(۱)آپﷺ کی سنت کی باطل پرستوں کے ناجائز حیلوں، جاہلوں کی تحریف و تخریب سے حفاظت (۲) طعن پرستوں کے طعن اور گستاخوں کی گستاخی سے دفاع۔
موجودہ دور میں
موجودہ دور میں وقتاً فوقتاً جو گستاخانِ رسولﷺاپنے شر سے انسانی آبادی میں شر پھیلاتے رہتے ہیں، اس پر حکمتِ عملی کے ساتھ قدغن لگانا بھی اس حکم میں داخل ہے، اس لیے کہ پوری امت پر رسول اللہﷺ کی شان میں ہونے والی ادنیٰ گستاخی کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کرنا مسلمانوں پر واجب اور نہایت ضروری ہے۔اس سلسلے میں آزادیِ اظہار کے نام پر آج جن ناپاک کوششوں کو جواز فراہم کیا جاتا ہے، وہ کسی طور مناسب نہیں۔ اگر آزادیِ اظہار واقعی لوگوں کو اس طرح بے مہار چھوڑ دینے کا نام ہے، تو کل کوئی انسان اس کا فایدہ اٹھا کر کسی کی ماں/بہن۔بیٹی کی برہنہ تصویر کو سرِ عام کسی شرم ناک فعل کا مرتکب دکھا سکتا ہے۔ کسی کی بہن اور بیٹی کی عزت کو سرِ عام نیلام کر سکتا ہے۔تو کیا کوئی عقل مند اس حرکت کو درست ٹھہرا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو مسلمانوں کے رگ و ریشے میں جس رحمۃ للعالمین ﷺ کی محبت لہو کی طرح گردش کرتی ہے، اُس عظیم و برتر ہستی کے ساتھ بھی کوئی ادنیٰ ناشائستہ حرکت ہرگز برداشت نہیں کی جا سکتی۔آپﷺ سے منسوب کارٹون بنانے یا اس نوع کی کوئی بھی حرکت کرنے والےکی حد درجہ حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔اورمسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ناموس کی حفاظت کے لیے ہر وقت تیار رہیں اور اس کی خاطر اپنی جان و مال قربانی کو باعثِ صد افتخار سمجھیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذمّے داری کو بہ حسن و خوبی ادا کرنے والا بنائے۔ آمین