رمضان المبارک کا استقبال، اس کی عظمت، فضیلت اور برکت
ندیم احمد انصاری
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے ۔اس مبارک مہینے میں مسلمان قرآن مجید کے سایۂ عاطفت میں زندگی گزارتے اور اپنے پروردگار سے رحمت ومغفرت کے طلب گار ہوتے ہیں۔اس لیے کہ تمام آسمانی کتابیں اسی ماہ میں نازل ہوئی ہیں۔ صحفِ ابراہیم علیہ السلام رمضان کی تیسری تاریخ میں، تورات چھٹی تاریخ میں ،انجیل تیرہویں تاریخ میں، زبور اٹھارہویں تاریخ میںاور قرآن کریم چوبیس تاریخ میں نازل ہوا۔ (الغنیۃ،مسند احمد ابن حنبل)
الفاظِ ’رمضان‘کے معنی
’رَمَضَان‘ عربی زبان کا لفظ ہے ، جو ہمیشہ مذکر استعمال ہوتا ہے ۔جب قدیم عربوں کی زبان سے ان مہینوں کے نام نقل کیے گیے ، تو اس وقت جو مہینہ جس موسم میں آیا ، اس کا نام اسی مناسبت سے رکھ دیا گیا اور اتفاق سے اس وقت رمضان کا مہینہ سخت گرمی کے موسم میں آیا ، اس لیے اس کا نام رمضان رکھ دیا گیا ۔ (لسان العرب )علامہ ابن کثیر ؒ نے تحریر فرمایا ہے:’رمضان‘کی جمع ’رمضانات‘اور ’رماضین‘ اور’رامضہ‘ آتی ہے۔
رمضان کی وجہِ تسمیہ
شیخ عبد القادر جیلانی ؒ رمضان کی وجہ تسمیہ پر گفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اس کی وجہ تسمیہ میں اختلاف ہے۔حضرت عبداللہؒ اور حضرت جعفر صادقؒ اپنے بزرگوں سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:رمضان اللہ تعالیٰ کا(خاص)مہینہ ہے۔بعض کہتے ہیں کہ اس ماہ کو رمضان اس لیے کہا گیا کہ اس میں گناہ جل جاتے ہیں۔حضرت نبی کریمﷺ کا ارشاد بھی یہی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس ماہ میں آخرت کی فکر اور نصیحت کی گرمی سے دل متأثر ہوتے ہیں،بالکل اسی طرح جس طرح سورج کی گرمی سے ریگستان اور پتھر گرم ہو جاتے اور جل اٹھتے ہیں۔حضرت خلیلؒ کا ارشاد ہے کہ’رمضان‘ لفظِ’رمض‘سے مشتق ہے،رمض اس بارش کو کہتے ہیںجو خریف کے موسم میں ہوتی ہے۔کیوں کہ ماہِ رمضان لوگوں کے دلوں اور جسم کو گناہوں سے پاک کر دیتا ہے،اس لیے اسے بھی رمضان کا نام دے دیا گیا۔(الغنیۃ)
الفاظِ رمضان سے مراد
لفظِ رمضان میں پانچ حروف ہیںاور ان تمام میں ایک خاص اشارہ ہے:’ر‘سے مراداللہ کی رضا،’م‘ سے مراد اللہ کی محبت،’ض‘ سے مراداللہ کی ضمانت،’ا‘سے مراداللہ تعالیٰ کی الفت و محبت اور’ن‘سے مراد اللہ کا نور۔اس طرح رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی، محبت، ضمانت،الفت اور اس کے نور …کاجامع ہے۔یہ بہت بڑی بزرگی اور بخشش کی علامت ہے،ان لوگوں کے لیے ،جو اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور نیک کردار ہیں۔(الغنیۃ)
رمضان کی فضیلت و عظمت
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: مومنین پر ماہ ِ رمضان سے بہتر اور منافقین پر رمضان سے سخت کوئی مہینہ سایہ فگن نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ اس کے شروع ہونے سے پہلے (ہی اپنے علم ِ ازلی سے) اس کا اجر وثواب لکھ دیتے ہیں اور منافقین کا گناہوں پر اصرار اور بدبختی بھی پہلے سے لکھ دیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومنین اس مہینہ میں عبادت کے لیے طاقت جٹاتے ہیں اور منافقین لوگوں کی غفلتوں اورعیوب کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں ،پس یہ مہینہ مومنین کے لیے غنیمت ہے جس پر فاسق وفاجر رشک کرتے ہیں۔( مسند أحمد) حضرت نبی کریمﷺ رجب کا چاند دیکھ کر یہ دعا فرماتے تھے:اے اللہ! ہمارے رجب وشعبان میں برکت نصیب فرما اور ہمیں رمضان تک پہنچادے۔(عمل الیوم واللیلۃ)
رمضان کا استقبال
جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا تو رسول اللہﷺ کا مبارک رنگ متغیر ہو جاتا۔ آپﷺ کی نمازوں میں اضافہ ہو جاتااور آپﷺ آہ وزاری کے ساتھ دعا کرتے اور اس آپﷺ پر اس کا خوف طاری ہو جاتا۔ (شعب الایمان للبیہقی)یہ عمل تو خود خلاصۂ کائنات حضرت محمدﷺکا ذکر تھا جو کہ تمام صغائر و کبائر سے بالکل پاک و صاف اورامام الانبیاء والرسل ہیں، امت کے صلحاء نے بھی ہمیشہ اس مبارک مہینہ کا بڑی شدت سے انتظار کیا ہے۔معلی ابن الفضل فرماتے ہیں :اکابرین چھ مہینے پہلے سے یہ دعا کیا کرتے تھے : اللہ تعالیٰ ہمیںاپنے فضل و کرم سے رمضان تک پہنچااور پھر رمضان گزرنے کے چھ مہینے بعد تک یہ دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! اس مہینہ میں کی گئی ہماری نیکیوں کو قبول فرما لے۔یحییٰ بن کثیر ؒفرماتے ہیں کہ اکابرین رمضان کے لیے اس طرح دعا فرماتے تھے:اے اللہ!مجھے سلامتی کے ساتھ رمضان تک پہنچا،میرے لیے رمضان کو سلامتی کا ذریعہ بنا اورمیری نیکیوں کو قبول فرما۔(وظائف رمضان)صحابہ کرامؓکے رمضان المبارک کی تیاری کس طرح کرتے تھے،یہ بیان کرتے ہوئے حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:شعبان کے شروع ہوتے ہی مسلمان قرآن کی طرف جھک جاتے اوراپنے اموال کی زکاۃ نکالتے تھے ،تاکہ غریب و مسکین لوگ روزے اور ماہِ رمضان کو بہتر طریقے سے گزار سکیں۔(لطائف المعارف)
رسول اللہﷺ کا خطبہ
صحابی کہتے ہیں؛ رسول اللہﷺ نے شعبان کے آخری دن میں ہمیں خطبہ دیا (ممکن ہے کہ دہ جمعہ کا دن رہا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ رمضان المبارک کی آمد پر بطوراہتمام مستقل خطبہ دیا ہو):اے لوگو!تمہارے اوپر ایک مہینہ سایہ فگن ہے،جو بہت ہی عظمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔اس میں ایک(خاص)رات ہے(جسے شب ِ قدر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے،جو تنہا)ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزوں کو فرض قرار دیا اور اس کی راتوں میں قیام (یعنی تراویح) کو سنت قرار دیا(عربی میں تطوع کا لفظ فرض و واجب کے علاوہ تمام نوافل کے لیے استعمال ہوتا ہے،یہاں اس سے سنت ِ مؤکدہ مراد ہے)۔جو شخص اس مہینے میں کسی بھی نیکی کے ساتھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا قرب حاصل کرے،وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں فرض ادا کرے اور جو شخص اس مہینے میں فرض ادا کرے ،وہ ایسا ہے جیسے غیر رمضان میں ستَّر فرض ادا کرے۔یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ غم خواری کا ہے۔اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔جو شخص اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے،یہ اس کے لیے گناہوں سے معافی اور آگ سے خلاصی کا سبب ہوگا اور اس روزہ دار کے ثواب میں سے کچھ کمی نہیں کی جائے گی۔صحابہ کرامؓ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول !ہم میں سے ہر شخص تواتنی طاقت نہیں رکھتا کہ روزہ دار کو افطار کرائے! رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’(جتنا مشکل تم سمجھ رہے ہو ایسا ہر گز نہیں ہے)جو شخص افطار کے موقع پر کسی روزہ دار کو ایک کھجور کھلا دے یا پانی کا ایک گھونٹ پلا دے یا ایک گھونٹ لسّی پلا دے-اللہ تعالیٰ اس کو بھی یہ ثواب عنایت فرما دیتے ہیں۔یہ وہ مہینہ ہے جس کا اول (عشرہ)رحمت ہے،درمیان (والا عشرہ)مغفرت ہے اور اخیر(عشرہ)آگ سے آزادی کا ہے۔جس نے اپنی باندی یا غلام سے اس ماہ میں بوجھ ہلکا کر دیا،اللہ تعالیٰ اسے بخش دیتے ہیں اور (جہنم)کی آگ سے آزاد فرما دیتے ہیں۔چار چیزوں کی اس مہینے میں کثرت کیا کرو،جن میں سے دو چیزیں جن کے ذریعے تم اپنے رب کو راضی کرو؛(۱)کلمہ:لا الہ الا اللہ اور(۲)استغفار ہیں،اور وہ دو چیزیں جن سے تمہیں چارۂ کار نہیں(۱)جنت کا سوال اور (۲)آگ سے پناہ مانگنا -ہیں۔جو شخص کسی روزہ دار کو افطار میں پانی پلا ئے،اللہ تعالیٰ اسے (قیامت کے روز)میری حوض(کوثر) سے پانی پلائیں گے(جس کی خصوصیت کی بنا پر اس کے بعد)اسے (بالکل )پیاس نہیں لگے گی،یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو۔(ابن خزیمہ،شعب الایمان)
رسول اللہﷺ کی ترغیب
ایک مرتبہ رسول اللہﷺ نے ماہِ رمضان کے قریب ارشاد فرمایا:رمضان کا مہینہ آگیا ہے!جو برکت والا ہے۔اللہ تعالیٰ اس ماہ میں (خصوصیت سے)تمہاری طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنی رحمت نازل فرماتے ہیں،خطاؤں کو بخش دیتے ہیں،دعائیں قبول فرماتے ہیں،تمہارے تَنافُس کو دیکھتے ہیں اور فرشتوں سے فخر فرماتے ہیں…تو تم اللہ تعالیٰ کو اپنی نیکیاں دکھلاؤ۔شقی وبدبخت ہے وہ شخص ،جو اس مبارک مہینے میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔(مجمع الزوائد)’ تَنافُس‘ اس کو کہتے ہیں کہ دوسرے کی حرص میں کام کیا جائے اور مقابلہ پر دوسرے سے بڑھ چڑھ کر کام کیا جائے ۔تفاخر و تقابل والے آئیں اور یہاں اپنے جوہر دکھلائیں ۔(فضائلِ رمضان)
رمضان المبارک کی خصوصیتیں
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:میری امت کو رمضان المبارک سے متعلق پانچ خصوصیتیں عطا کی گئی ہیں،جو سابقہ امتوں کو نہیں ملیں؛ پہلی یہ کہ ان کے منہ کی بو،اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔دوسری یہ کہ ان کے لیے دریا کی مچھلیاں بھی دعا کرتی ہیں اور افطار تک کرتی ہی رہتی ہیں۔تیسری یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے ہر روز جنت کو سجاتے اور فرماتے ہیں کہ عن قریب میرے نیک بندے (دینا کی)مشقتیںاتار پھینک کر تیری طرف آئیں گے۔چوتھی یہ کہ اس مبارک ماہ میں سرکش شیاطین قید کر دیے جاتے ہیں،پس وہ اس مبارک ماہ میں ان برائیوں تک نہیں پہینچ سکتے،جن تک رمضان کے علاوہ میں پہنچ سکتے ہیں۔پانچویں یہ کہ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزے داروں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا؛اے اللہ کے رسول !کیا یہ شبِ قدر ہے؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:نہیں،یہ رات شبِ قدر نہیںبلکہ یہ اس لیے ہے کہ کام کرنے والے کو کام پورا کرنے پر مزدوری دی جاتی ہے۔(کشف الاستار عن زوائد البزار، مجمع الزوائد)
نیکیوں میں اضافہ
ایک حدیث میںرسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :رمضان کی پہلی تاریخ میںآسمان اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں ، جو مہینہ کی آخری رات تک کھلے رہتے ہیں ۔ جو بندہ یا بندی ان راتوں میں نماز پڑھے ،اسے ہر سجدہ کے بدلے ایک ہزار سات سو نیکیاں ملتی ہیں ، جنت میں اس کے لیے سرخ یاقوت کا محل بنایا جاتا ہے ، جس کے ستر ہزا ر دروازے ہوں گے۔ یہ سب دروازے سونے کے ہوں گے ، جن میں سرخ یاقوت جَڑے ہوں گے ۔جب کوئی بندہ پہلے دن روزہ رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ رمضان کے آخر تک اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے اور ویہ دوسرے رمضان تک کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ وہ جتنے روزے رکھتا ہے ، اس کے ہر روزے کے بدلے میںاس کے لیے جنت میں سونے کا ایک محل بنایا جاتا ہے ، جس کے ایک ہزار دروازے ہوں گے ۔ ستر ہزار فرشتے صبح سے شام تک اس کے لیے بخشش کی دعا مانگتے رہتے ہیں۔دن رات میں وہ جتنے سجدے کرتا ہے ، ہر ایک سجدہ کے بدلے میں جنت میں ایک درخت عطا ہوگا ،اور اس درخت کا سایہ اتنا وسیع ہوگا کہ ایک سوار سو برس تک اس میں چلتا رہے ، تب بھی وہ ختم نہ ہو۔(الغنیۃ ،مجمع الزوائد)
جنت اور جہنم کے ساتھ معاملہ
رسول اللہﷺ نے ارشادفرمایا: اللہ عز و جل رمضان کی ہر رات میں چھ لاکھ آدمیوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد کرتے ہیںاور جب رمضان کی آخری رات ہو تی ہے تواتنے لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتے ہیں،جتنے لوگوں کو ایک رمضان سے آخر رمضان تک آزاد کیا ہے(یعنی تقریباً ایک کروڑ اسّی لاکھ لوگوں کو)۔(شعب الایمان للبیہقی)حدیث شریف میںہے :جب رمضان المبارک شروع ہو جائے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو گنہگار مسلمان رمضان شریف میں فوت ہوجائے ،وہ عذابِ قبر سے محفوظ رہتا ہے۔علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے ؛اگر کوئی گنہگار مسلمان ،رمضان المبارک میں یا (رمضان کے علاوہ کسی بھی مہینہ میں)جمعہ کے دن فوت ہو جائے ،تو وہ قیامت تک عذابِ قبر سے محفوظ ومامون رہے گا ،البتہ کافر کا عذاب دائمی ہوگا،صرف جمعہ کے دن اور رمضان شریف میں اس سے عذاب ہلکا ہوگا۔(الردالمحتار،بحوالہ فتاوی حقانیہ)