رمضان کا آخری عشرہ عبادت کے لیے مخصوص، ندیم احمد انصاری
رمضان المبارک سے متعلق ایک مشہور اور طویل روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس کا اول عشرہ رحمت ،درمیانی عشرہ مغفرت اور آخری عشرہ آگ سے آزادی کا ہے۔(ابن خزیمہ،شعب الایمان) یہ مشہور حدیث محمد بن اسحاق بن خزیمہ ابو بکر سلمی نیشاپوری نے اپنی ’صحیح‘ اور ابوبکر احمد بن الحسن بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں نقل کی ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کی سند میں ضعف پایا جاتا ہے لیکن اس روایت کو من گھڑت بھی نہیں کہا جا سکتا۔ پھر چوں کہ اس روایت میں حلال و حرام یا فرض و واجب کو ثابت کرنے جیسی کوئی بات نہیں، محض رمضان کے عشروں کی مختلف فضیلت بیان کی گئی ہے، اس لیے اس کے بیان میں کوئی حرج نہیںہونا چاہیے۔مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ فرماتے ہیں کہ محدثین کو اس روایت کے بعض رواۃ میں کلام ہےلیکن اول تو فضائل میں اس قدر کلام قابلِ تحمل ہے ، دوسرے اس کے اکثر مضامین کی دیگر روایات مؤید ہیں۔(فضائلِ رمضان)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان شروع ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگِ مبارک متغیر ہو جاتا اور آپ نمازوں کی کثرت کر دیتے اور اﷲ تعالیٰ سے عاجزی و گڑ گڑاکر دعا کرتے اور اس ماہ میں نہایت محتاط رہتے۔(شعب الايمان)حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آگیا ہے اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیےجاتے ہیں، اس میں شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے وہ شخص بڑا ہی بدنصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو پھر کب ہوگی؟(طبرانی، المعجم الاوسط)رمضان المبارک کے یوں تو تمام ایام اور تینوں ہی عشرے بہت ہی خصوصیت اور نہایت فضیلت و اہمیت کے حامل ہیں، لیکن تیسرے اور آخری عشرے میں یہ فضیلت و برکات کچھ زیادہ ہی ہیں، ویسے بھی چوں کہ اس کے بعد رمضان المبارک اختتام کو پہنچ جاتا ہے اس لیے جو حضرات پہلے و دوسرے عشرے میں خصوصی عبادات کا اہتمام نہ کر سکے ہوں انھیں بھی ان آخری ایام کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور کسی طرح ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہیے۔خود رسول اللہﷺ دیگر ایام کے بالمقابل آخری عشرے میں نیکیوں و عبادات کا خصوصی اہتمام فرمایا کرتے تھے۔چنا ں چہ بخاری میں ہے: جب رمضان المبارک کاآخری عشرہ آتا ، توحضرت نبیِ اکرمﷺ مضبوطی سے اپنا تہبند باند ھ لیتے یعنی مستعد ہوجاتے اور ان راتوںمیں خود بھی عبادت کا اہتمام فر ماتے اور اپنے گھر والوں کوبھی بیدار کرتے تھے۔(بخاری)اور بیہقی نے روایت کیا ہے:جب رمضان کا مہینہ آتا تو آپﷺ اپنا تہبند (مضبوطی سے) باندھ لیتے اور اپنے بستر پر تشریف نہیں لاتے تھے ، یہاں تک کہ رمضان گزر جائے۔(شعب الایمان)ان دونوں حدیثوں سے رمضان کی عبادت اور آخری عشرے میں زیادہ اہتمام و کوشش کرنا اور رات بھر عبادت میں مشغول رہنا ثابت ہوتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے ابتدائی عشرے میں اعتکاف فرمایا پھر آپ نے رمضان کے درمیانی عشرے میں ایک ترکی خیمے میں اعتکاف فرمایا جس کے دروازے پر چٹائی لگی ہوئی تھی۔ راوی کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے وہ چٹائی ہٹائی اور خیمے کے ایک کونے میں اسے رکھ دیا پھر آپ نے اپنا سر مبارک خیمے سے باہر نکالا اور لوگوں سے کلام فرمایا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس رات (شبِ قدر)کی تلاش میں پہلے عشرے میں اعتکاف کیا تھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا پھر (میرے پاس کسی کو) لایا گیا اور مجھ سے کہا گیا کہ یہ رات آخری عشرے میں ہے تو تم میں سے جسے اعتکاف کرنا پسند ہو تو اسے چاہیے کہ وہ اعتکاف کرلے، تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اعتکاف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس رات کو طاق رات میں دیکھا اور میں نے دیکھا کہ میں اسی طاق رات کی صبح کو مٹی اور پانی میں سجدہ کررہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اکیسویں رات کی صبح تک قیام کیا، صبح کے وقت بارش ہوئی اور مسجد سے پانی ٹپکا تو جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز سے فارغ ہوئے، میں نے دیکھا کہ آپ کی پیشانی اور ناک کی چوٹی کا کنارہ مٹی اور پانی سے آلودہ تھا اور یہ صبح اخیر عشرہ کی اکیسویں رات کی تھی۔ (مسلم)اس حدیث سے بھی آخری عشرے کی فضیلت خصوصیت سے ثابت ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان مبارک ایام میں خصوصی عبادتوں کا اہتمام کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین