رمضان کا مہینہ نیکی کے کاموں کو انجام دینے کا سیزن

رمضان کامہینہ نیکی کے کاموں کوانجام دینے کاسیزن
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
آپﷺجب مرض الوفات میںتھےتوحضرت فاطمہ؅آپﷺکی ملاقات کےلیے حاضر ہوئیں،حضوراکرمﷺنےسرگوشی کے انداز میں ان کے کان میں ایک بات کہی جس کوسن کر وہ رونے لگیں، ان کوروتاہوا دیکھ کر نبیٔ کریم ﷺ نےپھر کوئی بات ارشاد فرمائی جس کوسن کر وہ ہنسنے لگیں۔ حضرت عائشہ؅نے بعدمیںان سے پوچھاکہ حضورنےکیافرمایاتھا؟انھوںنےکہاکہ وہ ایک راز کی بات ہے،میں نہیں بتاؤںگی۔حضوراکرمﷺکی وفات کےبعدحضرت عائشہ ؅نے اپنےاُس تعلق اور رشتہ کاحوالہ دےکرجوحضورﷺکےساتھ تھاپھرپوچھاکہ اب تو بتلاؤ۔توانھوںنے کہا کہ اب بتلاتی ہوں،پہلی مرتبہ حضوراکرمﷺنےسرگوشی فرماتے ہوئے فرمایاتھا کہ ہرسال حضرت جبرئیل؈میرے ساتھ قرآنِ پاک کاایک دَور کرتےہیں، لیکن اس سال دومرتبہ دَور کیا،اس سےمیںیہ سمجھا ہوں کہ میری موت کاوقت اب قریب آگیا ہے،یہ سن کر میں رونے لگی تھی، میرا رونادیکھ کر نبیٔ کریمﷺ نےدوبارہ ایک بات ارشادفرمائی ،اب اس سلسلہ میں دوروایتیں ہیںکہ کیافرمایاتھا، ایک روایت میں تو یہ ہے کہ آپﷺنےفرمایاکہ تم جنّت کی عورتوں کی سردار ہوگی۔ اوردوسری روایت میں یہ آیاہے کہ میرے گھر والوں میں سب سے پہلےتم مجھ سےآکر ملوگی، یعنی یہ جدائی کا زمانہ زیادہ طویل اورلمبا نہیں ہے؛ تووہ سن کر میںہنسنے لگی تھی۔
اور جس زمانہ میں حضرت جبرئیل؈نبیٔ کریمﷺسےملاقات کرتے تھےتو آپﷺکی سخاوت انتہائی درجہ کوپہنچ جاتی تھی،آپﷺمال خرچ کرنے میں بادلوں اورپانی کولانے والی ہوائوں سے بھی زیادہ سخی ہوجاتےتھے۔ یعنی جوہوا بادلوں کو اٹھا کرلےجاتی ہے اورلوگوں کےلیے سیرابی کاسامان مہیاکرتی ہےاورگھربیٹھے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرتی ہے؛اس سے بڑی سخاوت اورکیاہوسکتی ہے۔نبیٔ کریم ﷺکی سخاوت اس سے بھی زیادہ ہوجایاکرتی تھی۔
روایت کاسبق
یہاںتواس روایت کولاکر یہ بتلاناچاہتےہیںکہ عام حالت میں بھی نبیٔ کریم ﷺ سخاوت فرماتے ہی تھے، لیکن رمضان میں سخاوت کاسلسلہ اوربڑھ جاتا تھا۔ لہٰذا ایک مومن کی شان بھی یہی ہونی چاہئے کہ نبیٔ کریمﷺکی اتباع اورپیروی میں رمضان کےمہینہ میں سخاوت کاخوب اہتمام کرے،لیکن اس کامطلب یہ نہیںہے کہ سال بھر ہاتھ روکے رکھے،جیساکہ بعض لوگ کرتے ہیںکہ سال بھر کچھ نہیںدیتے، اگرکوئی سائل آبھی گیاتوکہتےہیںکہ ہم ابھی نہیںدیتے،رمضان میںآنا۔ آپﷺ کے یہاں سال بھر بھی سخاوت کا سلسلہ رہتا تھا اوررمضان میںتوبہت بڑھ جاتا تھا۔اوربعض لوگ اپنی زکوٰۃبھی رمضان ہی میں دیتے ہیں،حالاںکہ مسئلہ یہ ہے کہ سال پورا ہونے سےپہلےپہلے زکوٰۃ پوری اداہوجانی چاہیے۔ ہاں! اگر آپ کاسال رمضان میںپورا ہوتا ہے تو بات دوسری ہے۔اوربعض لوگ صرف زکوٰۃ پرہی اکتفا کرتے ہیں یہ بھی درست نہیںہے،سخاوت صرف زکوٰۃ تک ہی محدود نہیںہونی چاہیے، اس لیےکہ زکوٰۃ توفرض ہے، اس کے علاوہ نفل کے طورپر بھی خوب خرچ کرنا چاہیے۔
اس سے بڑی حماقت کیاہوگی؟
اللہ تعالیٰ نےمال ودولت دی ہے اس کوجتنا خرچ کرےکم ہے، اورجتنا خرچ کرے گا وہ اُسی کےلیے کار آمد ہوگا۔جب اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہے اور اس کو خرچ کرنے کا اختیار بھی دیا ہےتواپنی زندگی ہی میںخرچ کرلیجئے،جب آپ دنیاسے رخصت ہوجائیں گےتویہ مال آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا،پھر خرچ کرنے کا اختیار آپ کے ہاتھ میں نہیں رہے گا۔میںکہاکرتاہوںکہ اپنے ہاتھ میںاختیار ہے اُس وقت خرچ نہ کرنااوربعدمیں دوسروں سے توقع رکھنا؛اس سے بڑی حماقت اورکوئی نہیںہوسکتی۔جب اپنے ہاتھ میں اختیار ہوتا ہےاس وقت تو لوگ خرچ کرتے نہیں،اوریوں سوچتےہیںکہ ہمارےبعدبچےہمارےلئےخرچ کریںگے،حالاںکہ جب آپ نے خود اپنے ہاتھ سےخرچ کیا نہیں، تودوسرا آپ کے لیےکیاخرچ کرے گا؟ اور رمضان میںصرف مال خرچ کرناہی نہیں بلکہ ہرنیکی کے کام میں اضافہ ہونا چاہیے۔ تلاوت ،ذکر،تسبیحات ،نوافل اورنیکی کے کام جتنے بھی ہوسکتے ہیں ان تمام نیکی کے کاموں میں رمضان میں اضافہ ہوناچاہیے۔ رمضان کامہینہ یوں سمجھیے کہ نیکی کے کاموں کوانجام دینے کاسیزن اورموسم ہے، اس لیے اس میں زیادہ سے زیادہ نیکیوں کااہتمام کیاجائے۔
عن عائشة؅ قالت:كَانَ رسول اللهﷺ إِذَا دَخَلَ العَشْر أحْيیٰ اللَّيْلَ، وَأيْقَظَ أهْلَهُ، وَشَدَّ المِئْزَرَ۔(متفقٌ عَلَيْهِ) (ریاض الصالحین:۱۲۲۳)
حضرت عائشہ ؅فرماتی ہیںکہ رمضان کاجب آخری عشرہ آتا تو نبیٔ کریم ﷺ پوری رات بیدار رہتے تھے اوراپنے گھر والوں کوبھی جگاتے تھے اورلنگی باندھ لیتے تھے۔ یعنی عبادات میں بہت زیادہ مجاہدہ اورمشقت سے کام لیتے تھے۔اس سے معلوم ہواکہ آخری عشرہ میں ان چیزوں کااورزیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here