روزہ قصرِ اسلام کا اہم ترین رکن، ندیم احمد انصاری
روزہ‘ قصرِ اسلام کا اہم ترین رکن ہے اور دکسی عمارت کے بقا کے لیے اس کے تمام اہم رکنوں کا صحیح و سالم ہونا ضروری ہوتا ہے، اگر ان میں سے ایک بھی منہدم ہو جائے تو عمارت ہی منہدم ہو جاتی ہے۔ اس لیے جو لوگ نماز وغیرہ کے پابند ہیں لیکن بلا شرعی عذر ر وزوں کا اہتمام نہیں کرتے انھیں اس بات کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔سابقہ امم اور دیگر مذاہب میں بھی اس اہم ترین عبادت کا اہتمام رہا ہے اور قرآن مجید کی وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ سابقہ امتوں میںبھی روزہ فرض تھا،جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ۔(البقرۃ:۱۸۳)
قدیم مذاہب کا تاریخی جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندومت، جین مت، یہودیت، عیسائیت، قدیم مصری اور یونانی وپارسی مذہب میں بھی روزے کا تصور تھا اور ان مذاہب واقدار کو ماننے والے روزہ رکھتے تھے، چناںچہ ہندومت میں ہندی مہینے کی گیارھویں اور بارھویں تاریخ کا، برہمنوں پر اکاشی کا روزہ ہے۔ ہندو جوگی چلہ کشی (یعنی ۴۰؍دن تک کھانے پینے سے احتراز کرتے ہیں)، ویکنتا ایکادشی تہوار میں ہندوئوں کے مختلف فرقے دن میں روزہ رکھتے ہیں اور رات میں پوجا کرتے ہیں۔ جینی دھرم میں ۴۰-۴۰ دن تک ایک روزہ ہوتا ہے۔یہودیوں کی بات کریں تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر چالیس دن بھوکے پیاسے گزارے، لہٰذا ان کی پیروی میں ان کے متبعین پر ۳۹؍ روزے مستحب اورچالیسویں دن کا روزہ فرض ہے، اس کے علاوہ اور بھی روزے ہیں۔ عیسائیت میں‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نبوت سے پہلے چالیس دن کا روزہ رکھا اور نبوت کے بعد بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اتباع میں برابر چالیس روزے رکھتے رہے۔ چوتھی صدی مسیحی میں ’عید الفصح‘سے قبل دو دن روزے کے لیے مخصوص کیے گئے، اس کے علاوہ اور بھی روزے ہیں، جو عیسائی حضرات رکھتے ہیں۔اہلِ عرب بھی اسلام کے قبل سے روزے سے کچھ نہ کچھ مانوس تھے، مکہ مکرمہ کے قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشوراء یعنی ۱۰؍محرم الحرام کا روزہ رکھتے تھے، اس لیے کہ اس دن خانۂ کعبہ پر غلاف ڈالا جاتا تھا۔ (سیرۃ النبی، ارکانِ اربعہ)
روزہ‘ عقل کی نظر میں
فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ اس کی عقل کو اس کے نفس پر غلبہ اور تسلطِ دائمی حاصل رہے، مگر بشریت کے باعث بسا اوقات اس کا نفس، اس کی عقل پر غالب آجاتا ہے۔ لہٰذا تہذیب وتزکیۂ نفس کے لیے اسلام نے روزے کو اصول میں ٹھہرایا ہے۔روزے سے انسان کی عقل کو نفس پر پورا تسلط وغلبہ حاصل ہوجاتا ہے اور خشیت اور تقوے کی صفت انسان میں پیدا ہوجاتی ہے۔ روزہ رکھنے سے انسان کو اپنی عاجزی اور مسکنت اور خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کی قدرت پر نظر پڑتی ہے، خدا تعالیٰ کی شکر گزاری کا موقع ملتا ہے اور انسانی ہم دردی کا دل میں ابھار پیدا ہوتا ہے۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ جس نے بھوک اور پیاس محسوس ہی نہ کی ہو وہ بھوکوں اور پیاسوں کے حال سے کیوں کر واقف ہوسکتا ہے؟ اور وہ رزاقِ مطلق کی نعمتوں کا حقیقی طور پر شکریہ کیسے ادا کرسکتا ہے؟ اگرچہ زبان سے شکریہ ادا کرے، مگر جب تک اس کے معدے میں بھوک اور پیاس کا اثر اور اس کی رگوں اور پٹھوں میں ضعف وناتوانی کا احساس نہ ہو، وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا کما حقہ شکر گزار نہیں بن سکتا، کیوں کہ جب کسی کی کوئی محبوب ومرغوب وپسندیدہ چیز کچھ زمانہ گم ہوجائے تو اس کے فراق سے اس کے دل کو اس چیز کی قدر معلوم ہوتی ہے۔ (اس سے پہلے ایسا کم ہی ہوتا)۔ (المصالح العقلیۃ)
اس لیے حکما کا خیال ہے کہ مذکوراہ بالا امور کے ادراک کی غرض سے روزہ مشروع ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پورے اخلاص کے ساتھ قصرِ اسلام کے اس اہم رکن کی حفاظت کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین��