مفتی ندیم احمد انصاری
سماج میں ساس اور بہو کا رشتہ نہایت پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ قیامت آسکتی ہے لیکن ساس بہو کے رشتے میں سُدھار نہیں آسکتا۔ وہ اپنی بات میں کسی حد تک حق بہ جانب بھی ہیں، کیوں کہ لوگ خود سدھرنا نہیں چاہتے، دوسروں کو سدھارنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہیے کہ انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اس کے سامنے آکر رہتا ہے، اچھا ہو یا برا، کبھی اِسی دنیا میں تو کبھی اُس دنیا میں۔ جن کے دلوں میں خدا کا خوف اور اس کے سامنے حاضری کا احساس ہو، وہ خدا کی مخلوق کو تنگ نہیں کیا کرتے۔ لیکن بعض ساسیں اور بعض بہوئیں ایسی بےباک دیکھی جاتی ہیں جیسے انھیں نہ مرنا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔جب کہ ہر ایک کو اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا بھی ہونا ہے اور حساب بھی دینا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور صور پھونکا جائے گا تو یکایک یہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے پروردگار کی طرف تیزی سے روانہ ہوجائیں گے۔ کہیں گے : ہائے ہماری کم بختی! ہمیں کس نے ہمارے مرقد سے اٹھا کھڑا کیا ہے ؟ (جواب ملے گا) یہ وہی چیز ہے جس کا خدائے رحمن نے وعدہ کیا تھا، اور پیغمبروں نے سچی بات کہی تھی۔ (یٰسین) ایک جگہ فرمایا: یقین جانو ان سب کو ہمارے پاس ہی لوٹ کر آنا ہے،پھر یقیناً ان کا حساب لینا ہمارے ذمے ہے۔(الغاشیۃ) ایک جگہ فرمایا: پھر جب وہ سب سے بڑا ہنگامہ برپا ہوگا، جس دن انسان اپنی کوششوں کو یاد کرےگا اور دوزخ ہر دیکھنے والے کے سامنے ظاہر کردی جائے گی، تو وہ جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، تو دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔ لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا،تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔ (النازعات)
اللہ و رسول اللہ ﷺ نے آخرت کی فکر پیدا کر کے دنیوی مسائل کو آسان کر دیا ہے۔ اخلاقی و معاشرتی زندگی کے زریں اصول تعلیم دے کر یہ بتا دیا گیا کہ کس طرح انسان دنیاوآخرت میں سکون کی زندگی گزار سکتا ہے؟ پھر بھی نہ جانے کیوں ساسیں اور بہوئیں ان تمام کو بالکل طاق میں رکھ دیتی ہیں۔ مذکر کے صیغوں سے جو تعلیمات عطا ہوئیں، شاید ان کا خیال ہے کہ ان کا تعلق صرف مَرد سماج سے ہے۔ اس لیے وہ ایک دوسرے کی غیبت، حسد، تحقیر، کینہ، ناراضی، ایک دوسرے کو معاف نہ کرنا، تکلیف پہنچانا، رنجیدہ کرنا اور حقوق پامال کرنا جیسے کاموں کو گناہ ہی نہیں سمجھتیں۔ یا دوسروں انسانوں کے معاملے میں تو گناہ سمجھتی ہیں، لیکن خاص ساس اور بہو کے رشتے میں ان باتوں کی پروا نہیں کرتیں اور کہیں ساس تو کہیں بہو ایسے ایسے مظالم کرتی دیکھی سنی جاتی ہے کہ انسانیت شرم سار ہو کر رہ جاتی ہے!کسی کی بیٹی (اپنی بہو) کو یا کسی کی ماں (اپنی ساس) کو ایسی تکلیف دینا جو اپنی بیٹی یا اپنی ماں کے لیے پسند نہ کی جائے،ایمان کے منافی ہے۔ حضرت انسؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔(بخاری)ساس کو چاہیے کہ بہو کے ساتھ شفقت کا معاملہ کرے اور بہو کو چاہیے کہ ساس کا احترام کرے، تاکہ دونوں کی زندگیوں میں سکون اور گھر کا ماحول خوش گوار رہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کے حقوق کو نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں۔(ابوداود)
یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر کیے گئے مظالم کو اللہ تعالیٰ بھی اس وقت تک معاف نہیں فرماتے جب تک خود بندہ معاف نہ کر دے۔ توبہ و استغفار اور نیکیوں سے ذنوب معاف ہوتے ہیں حقوق معاف نہیں ہوتے۔ ظالم چاہے جو ہو، اسے ظلم کا بدلہ چکانا پڑتا ہے۔اس لیے ساس اور بہو دونوں کو اللہ کے سامنے جواب دہی سے ڈرنا چاہیے۔ جب صور پھونکا جائےگا، محشر بپا ہوگا اور ہر ایک کا کچّا چٹھا کھل کر سامنے آجائےگا تو کسی کو زبان کھولنے کی اجازت نہ ہوگی، بدن کے اعضا تمام باتوں کو کھول کر بیان کر دیںگے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: آج کے دن ہم ان کے منھ پر مہر لگادیںگے اور ان کے ہاتھ ہم سے بات کریں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کمائی کیا کرتے تھے۔ (یٰسین)
آخرت کا معاملہ یقینی ہے، اسے مانے بغیر ایمان کا تصور نہیں کیا جا سکتا، دنیا میں بھی انسان کو اپنے اعمال کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ حضرت ابوبکرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص برے اعمال کرےگا اسے دنیا میں ہی اس کا بدلہ دیا جائےگا۔ (مسند احمد) افسوس ہے ان پر جو یہ سبب جاننے اور ماننے کے باوجود بہو بن کر ساس کو اور ساس بن کر بہو کو ستاتی اور اپنی جہنم دہکاتی ہیں۔ جو ساس اپنی بہو سے اپنی ساس کے کیے ہوئے کا بدلہ لیتی ہے وہ ظالم ہےاور جو بہو اپنی ساس کے ساتھ برائی کرتی اور اپنے انجام سے غافل رہتی ہے، وہ بےوقوف ہے۔ دنیا میں کسی وجہ سے اگر اپنا کیا دھرا سامنے نہ بھی آیا، انجام کار آخرت میں تو آکر ہی رہےگا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف صاف فرما دیا : اور (اعمال کی) کتاب سامنے رکھ دی جائےگی، چناں چہ تم مجرموں کو دیکھوگے کہ وہ اس کے مندرجات سے خوف زدہ ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہائے ہماری بربادی ! یہ کیسی کتاب ہے جس نے ہمارا کوئی چھوٹا بڑا عمل ایسا نہیں چھوڑا جس کا پورا احاطہ نہ کرلیا ہو، اور وہ اپنا سارا کیا دھرا اپنے سامنے موجود پائیں گے، اور تمھارا پروردگار کسی پر کوئی ظلم نہیں کرےگا۔ (الکہف)
اعتدال اور میانہ روی سے کام لیں
لوگوں میں مشہور ہے کہ عورت ہی عورت کی دشمن ہوتی ہے۔ جو ساس خود اپنے بیٹے کے لیے بہو لے کر آتی ہے پھر وہی اس سے غیرمحفوظ محسوس کرنے لگتی ہے۔ جو بہو ساس کے دم پر گھر میں داخل ہوتی ہے، وہی اس کی جڑ کاٹنے لگتی ہے۔ بعض ساسیں بیٹے کی محبت (بہو) کو برداشت نہیں کرتیں تو بعض بہوئیں اپنے شوہر کو ساس کی خدمت کرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتیں۔ اس میں وہ مَرد بھی قصوروار ہوتا ہے جو اعتدال اور میانہ روی سے کام نہ لے کر مماز بوئے (ماں کا لاڈلا) یا زَن مرید(چِڑی کا غلام) بن کر رہ جاتا ہے۔ جب وہ کسی ایک کی حق تلفی کرتا ہے تو دوسری کے دل میں نفرت جنم لیتی ہے۔ اس لیے ہر ایک کے ساتھ انصاف کرنا اور اعتدال سے کام لینا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: عمدہ چال چلن، عمدہ اخلاق اور میانہ روی، نبوت کے پچیس اجزا میں سے ایک جُز ہے۔(ابوداود) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میانہ روی اختیار کرو اور سیدھے راستے پر رہو، کیوں کہ تم میں سے کسی کو بھی اس کا عمل نجات دلانے والا نہیں ہے! صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت وفضل سے ڈھانپ لے۔(ابن ماجہ)
ہر ایک کو اس کا حق دلوایا جائےگا
دنیا میں جب کوئی کسی کا حق مار لے، قیامت میں ضروربالضرور حق دار کو اس کا حق دلوایا جائےگا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اور ہم قیامت کے دن ایسی ترازوئیں لا رکھیںگے جو سراپا انصاف ہوںگی، چناں چہ کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا،اور اگر کوئی عمل رائی کے دانے کے برابر بھی ہوگا تو ہم اسے سامنے لے آئیںگے، اور حساب لینے کے لیے ہم کافی ہیں۔ (انبیا) اسی لیے حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: بیٹا ! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر بھی ہو اور وہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں یا زمین میں، تب بھی اللہ اسے حاضر کردےگا، یقین جانو اللہ بڑا باریک بیں، بہت باخبر ہے۔ (لقمان)’ترمذی‘ میں حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا: اہلِ حقوق کو ان کے حقوق پورے پورے ادا کرنے ہوںگے، یہاں تک کہ بغیر سینگ کی بکری کا بھی سینگ والی بکری سے بدلہ لیا جائےگا۔(ترمذی)’مسند احمد‘ میں حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: قیامت کے دن مخلوقات کو ایک دوسرے سے قصاص دلایا جائےگا، حتیٰ کہ بےسینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے اور چیونٹی کو چیونٹی سے بھی قصاص دلوایا جائےگا۔(مسند احمد)
ہر مستحق کو اس کا حق دیں
ایک موقع پر حضرت سلمانؓنے حضرت ابوالدرداءؓ سے فرمایا تھا: ہر مستحق کو اس کا حق دو! حضرت ابوالدرداء ؓ نے حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کرواقعہ بیان کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: سلمانؓنے سچ کہا!(بخاری)
ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں
حضرت ابوذر ؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے آپ پر اور اپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دے رکھا ہے، اس لیے ایک دوسرے پر ظلم مت کرو، تمام بنی آدم دن رات گناہ کرتے رہتے ہیں، پھر مجھ سے معافی مانگتے ہیںتو میں انھیں معاف کردیتا ہوں، اور مجھے کوئی پروا نہیں! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے بنی آدم تم سب کے سب گم راہ ہو، سوائے اس کے جسے میں ہدایت دے دوں، اور تم میں سے ہر ایک برہنہ ہے سوائے اس کے جسے میں لباس پہنادوں، اور تم میں سے ہر ایک بھوکا ہے سوائے اس کے جسے میں کھلا دوں، اور تم میں سے ہر ایک پیاسا ہے سوائے اس کے جسے میں سیراب کر دوں، لہٰذا مجھ سے ہدایت مانگو میں تمھیں ہدایت دوںگا، مجھ سے طلب کرو میں تمھیں لباس دوںگا، مجھ سے کھانا مانگو میں تمھیں کھانا دوںگا، مجھ سے پانی مانگو میں تمھیں سیراب کروںگا۔ اے میرے بندو ! اگر تمھارے اگلے پچھلے، جن و انس، چھوٹے بڑے اور مرد و عورت تم میں سب سے متقی آدمی کے دل پر ایک انسان کی طرح جمع ہوجائیں تو میری حکومت میں کچھ اضافہ نہ کرسکیںگے، اور اگر تمھارے اگلے پچھلے، جن و انس، چھوٹے بڑے اور مرد و عورت سب ایک کافر آدمی کے دل پر جمع ہوجائیں تو میری حکومت میں اتنی کمی بھی نہیں کرسکیں گے جتنی کمی سوئی کا سرا سمندر میں ڈال کر نکالنے سے ہوتی ہے۔(مسند احمد:)
مظلوم کی بددعا سے بچیں
کسی عام انسان بلکہ کسی بھی جان دارپر ظلم و زیادتی جائزنہیں، تو جو ہمارے گھر کا فرد ہو، ہمارا رشتےدار ہو، اس پر زیادتی کرنا کیسے جائز ہوگا؟اس لیے اس کا بہت خیال رکھنا چاہیے کہ جانے ان جانے میں بھی ہم سے کسی پر کوئی زیادتی نہ ہونے پائے۔ حضرت ابن عباسؓنے بیان کیا، حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت معاذؓکو یمن کی طرف بھیجا تو ارشاد فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے ڈرو، اس کی بد دعا اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔(بخاری) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺنے فرمایا: تین لوگوں کی دعائیں رد نہیں ہوتیں: (۱)روزےدار کی افطار کے وقت (۲) عادل بادشاہ کی (۳)مظلوم کی۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی بد دعا کو بادلوں سے بھی اوپر اٹھاتے ہیں اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیتے ہیں، پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: میری عزت کی قسم! میں ضرور تمھاری مدد کروںگا، اگرچہ کچھ وقت کے بعد ہو۔(ترمذی)
ایک دوسرے کو تکلیف اور دھوکا نہ دیں
حضرت ابوبکر صدیقؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص کسی مومن کو تکلیف یا دھوکا دیتا ہے، وہ ملعون (لعنت کیا ہوا) ہے۔(ترمذی)حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان سلامت رہیں۔(بخاری) حضرت ابوامامہؓ سے روایت ہے: تم تواضع اختیار کرو، اس واسطے کہ تواضع دل میں ہوتی ہے، ہرگز کوئی مسلمان کسی مسلمان کو تکلیف نہ پہنچائے، بہت سے کم زور بوسیدہ کپڑوں میں ایسے ہوتے ہیں اگر وہ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی قسم کھا بیٹھیں تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کر دیں۔(کنزالعمال)حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ہم (مسلمانوں) پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں اور جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ بھی ہم میں سے نہیں ہے۔(مسلم)