مفتی ندیم احمد انصاری
گالی گلوچ اور لڑائی سے بچیں
حضرت عبداللہ ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کا ایک دوسرے کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے جنگ کرنا کفر ہے۔ (بخاری)حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب دو لوگ آپس میں گالی گلوچ کریں تو گناہ ابتدا کرنے والے پر ہی ہوگا، جب تک کہ مظلوم حد سے نہ بڑھے۔(مسلم) ساس اور بہو کو بھی اس کا خوب لحاظ رکھنا چاہیے۔
بدزبانی اور طعنہ زنی وغیرہ سے بچیں
بعض ساس بہو کی عادت ہوتی ہے کہ ذرا ذرا سی بات پر ایک دوسرے کے ساتھ بدزبانی کرتی ہیں، طعنے دیتی ہیں، لعنت کرتی ہیں، جب کہ یہ تمام اوصاف مومن کو زیب نہیں دیتے، ان سے اجتناب کرنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن طعنہ دینے والا، لعنت کرنے والا، بےحیا اور بدزبان نہیں ہوتا۔(ترمذی) حضرت عبداللہ بن عمروؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین پر لعنت کرے! کسی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آدمی اپنے ماں باپ پر کس طرح لعنت کرسکتا ہے؟ آپ ﷺنے فرمایا: ایک آدمی دوسرے کے باپ کو گالی دے تو وہ اس کے ماں اور باپ کو گالی دےگا۔(بخاری)
ایک دوسرے کی بھرپور مدد کریں
اکثر ساسیں بہوؤں کو ان کی ماں کے نام پر غیرت دلاتی ہیں، پھر پلٹ کر وہ جواب دے دے تو مزید فساد پھیلاتی ہیں۔ حضرت نبی کریم ﷺ نے زرخیز غلام کے ساتھ بھی ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔ ’بخاری شریف‘ میں ہے: معرور کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوذرؓ سے ربذہ کے مقام میں ملاقات کی اور دیکھا کہ ان کے جسم پر جس قسم کا تہبند اور چادر تھا اسی قسم کی چادر اور تہبند ان کے غلام کے جسم پر تھا۔ میں نے ابوذر ؓسے اس کا سبب پوچھا تو انھوں نے فرمایا: میں نے ایک شخص کو (جو میرا غلام تھا) گالی دی یعنی اس کو ماں سے غیرت دلائی تھی، یہ خبر حضرت نبی کریم ﷺ کو پہنچی تو آپ نے مجھ سے فرمایا: اے ابوذر! کیا تم نے اسے اس کی ماں کی غیرت دلائی ہے؟ تم ایسے آدمی ہو کہ (ابھی) تم میں جاہلیت (کا اثر باقی) ہے۔ تمھارے غلام تمھارے بھائی ہیں، ان کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے ماتحت کر دیا ہے، جس کا بھائی اس کی ماتحتی میں ہو اسے چاہیے کہ جو خود کھائے اسے بھی وہی کھلائے اور جو خود پہنے اسے بھی وہی پہنائے اور اپنے غلاموں سے ایسے کام کے لیے نہ کہو جو ان پر دشوار ہو اور اگر ایسے کام کی ان کو تکلیف دو تو خود بھی ان کی مدد کرو۔(بخاری)’ترمذی شریف‘ میں ہے، حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : تمھارے خادم تمھارے بھائی ہیں، اللہ تعالیٰ نے انھیں تمھارے ماتحت کردیا ہے، لہٰذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم) ہو، وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے، اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بناتا ہے جو اسے عاجز کر دے، تو خود اس کی مدد کرے۔(ترمذی)
آپس میں دل صاف رکھیں
رشتہ نبھانے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ جانبین ایک دوسرے کی طرف سے اپنے دل صاف رکھیں۔ تمام لوگوں کی طرف سے عموماً اور جن لوگوںسے ہمیں واسطہ پڑتا ہے ان کی طرف سے خصوصاً ہمیشہ ہی دل صاف رکھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓبیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے بیٹے! اگر تجھ سے ہو سکے تو اپنی صبح و شام اس حالت میں کر کہ تیرے دل میں کسی کے لیے کوئی برائی نہ ہو، پس تو ایسا کر! پھر فرمایا: اے بیٹے! یہ میری سنت ہے اور جس نے میری سنت کو زندہ کیا گویا اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔(ترمذی)
ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظر رکھیں
تعلقات نبھانے کے لیے ہمیشہ ایک دوسرے کی خوبیوں پر نظررکھنی چاہیے، کمیوں پر نظر رکھنے سے دل مکدر ہو جاتا ہے۔ کوئی بھی انسان ایسا نہیں کہ اس میں کوئی بھلائی ہی نہ ہو، اگر ہم اس کی برائیوں اور کمیوں کے بجائے اس کی اچھائیوں پر نظر رکھیں تو زندگی گزارنے میں آسانی ہوگی، یہ بات ہر ساس اور بہو کو ذہن نشین کر لینی چاہیے۔ میاں بیوی کے تعلق کو نبھانے کے لیے حضرت نبی کریم ﷺ نے یہ گُر سکھایا ہے۔ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کوئی مومن مرد کسی مومن عورت کو دشمن نہ رکھے ، اگر اس میں ایک عادت ناپسند ہوگی تو دوسری پسند بھی ہو گی۔یا اس کے سوا اور کچھ فرمایا۔(مسلم)
صبر اور در گزر سے کام لیں
رشے ناطے نبھانے میں جو مشقتیں پیش آئیں، حتی المقدور ان پر صبر کرنا اوردرگزر سے کام لینا چاہیے اور تکلیف پہنچانے والے کو معاف کر دینا چاہیے، ایسا کرنے سے رشتے استوار رہتے ہیں۔حضرت ابوالدرداءؓفرماتے ہیں کہ میں نےرسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس مرد کو بھی کوئی بدنی تکلیف پہنچے پھر وہ تکلیف پہنچانے والے کو معاف کر دے تو اللہ اس کی وجہ سے اس کا درجہ بلند فرما دیتے ہیں یا اس کا گناہ معاف فرما دیتے ہیں، یہ بات میرے دونوں کانوں نے سنی اور میرے دل و دماغ نے اسے محفوظ رکھا۔(ابن ماجہ)حضرت ابوامامہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! تو اگر صدمے کے شروع میں صبر اور ثواب کی امید رکھے تو میں (تیرے لیے) جنت کے علاوہ اور کسی بدلے پر راضی نہیں ہوںگا۔ (ابن ماجہ)
ایک دوسرے سے زیادہ امید نہ رکھیں
انسان جب اپنے جیسے انسانوں سے امیدیں باندھ لیتا ہے، پھر اس کے پورا نہ ہونے پر تکلیف ہوا کرتی ہے، اس لیےہر ایک کو چاہیے کہ امیدیں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات سے وابستہ رکھیں۔ حضرت علیؓسے پوچھا گیا : حسنِ ظن کیا چیز ہے؟ آپؓنے فرمایا : اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی سے امید نہ رکھو اور اپنے گناہ کے علاوہ تمھیں کسی چیز کا اندیشہ نہ ہو۔(کنزالعمال) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب ہم نے کوئی گناہ نہ کیا ہو تو ہمیں اس سلسلے میں پریشان نہ ہونا چاہیے۔
سلام میں پہل کریں
ساسیں ہمیشہ یہ چاہتی ہیں کہ ان کی بہو ہی آگے بڑھ کر سلام کرے، جب کہ اگر بڑے چھوٹوں کو سلام کر لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، بلکہ سلام میں پہل کرنا اللہ کے قرب کی علامت بتائی گئی ہے۔ حضرت ابوامامہؓسے روایت ہے، عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسولﷺ! جب دو آدمیوں کی ملاقات ہو تو ان میں پہلے کون سلام کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو اللہ کے زیادہ قریب ہوگا وہ سلام میں پہل کرےگا۔ (ترمذی)’بخاری شریف‘ میں ہے: حضرت انس بن مالکؓبچوں کے پاس سے گزرے تو ان کو سلام کیا اور فرمایا: حضرت نبی کریم ﷺ ایسا ہی کرتے تھے۔(بخاری) ’ابوداود شریف‘ میں ہے: حضرت انسؓنے فرمایا: رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے، میں ابھی بچّہ تھا، آپ نے ہمیں سلام کیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی کسی ضرورت سے مجھے بھیجا اور میرے لوٹ کر آنے تک ایک دیوار کے سائے میں بیٹھے رہے۔ یا فرمایا: ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھے رہے۔(ابوداود)
تین دن سے زیادہ سلام کلام نہ چھوڑیں
ساس بہو میں جب نااتفاقی ہو جاتی ہے تو وہ ایسی دشمن بن جاتی ہیں کہ ایک دوسرے کا منھ دیکھنا تک گوارا نہیں کرتیں، یہ نہایت برا عمل ہے۔ حضرت ابوایوب انصاریؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کسی شخص کے لیے جائز نہیں کہ اپنے بھائی سے تین راتیں اس طرح تعلق ترک کر دے کہ دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئیں تو یہ اُس سے اور وہ اِس سے منھ پھیر لے، اور ان دونوں میں اچھا وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔(بخاری)حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مسلمان کے لیے اپنے مسلمان بھائی کو تین دن سے زائد چھوڑناجائز نہیں، جس نے اپنے بھائی کو تین دن سے زائد چھوڑ دیا اور اسی حالت میں مرگیا، وہ جہنم میں جائےگا۔ (ابوداود)حضرت ابو خراش سلمیؓسے روایت ہے، انھوںنے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے اپنے بھائی سے ایک سال تک تعلق توڑے رکھا، یہ اس کا خون بہانے کی طرح ہے۔(ابوداود) جب کسی عام مسلمان کے ساتھ ترکِ تعلق کا یہ گناہ ہے، تو ساس بہو کے لیے کیا حکم ہوگا؟
کچھ دے کر اسے واپس نہ لیں
ساس بہو آپس میں جو کچھ ہدیہ اور ہبہ وغیرہ لیتی دیتی ہیں، بعض دفعہ ناراض ہونے پر اس کی واپسی کا مطالبہ کر بیٹھتی ہیں، یہ عمل بھی بہت برا ہے۔ ’ابوداود‘ میں حضرت عبداللہ بن عباسؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ہبہ کی ہوئی چیز واپس لے لینے والا قے کر کے اسے پیٹ میں واپس لوٹا لینے والے کے مانند ہے۔ ہمام کہتے ہیں ، قتادہ نے کہا : ہم قے کو حرام سمجھتے ہیں (تو گویا ہدیہ دے کر واپس لے لینا بھی حرام ہے)۔(ابوداود)’بخاری‘ میں روایت ہے، حضرت ابن عباسؓنے بیان کیا: حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: ہبہ کرکے واپس لینے والا اس کتّے کی طرح ہے جو قے کر ے، پھر اس کو کھائے۔(بخاری)
مومن کا دل خوش کریں
مومن کا دل خوش کرنے کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے، ساس بہو کو بھی چاہیے کہ اس فضیلت کو حاصل کریں۔ ’کنزالعمال‘ میں ہے: کوئی مومن ایسا نہیں جو کسی مومن کو خوشی دے مگر اللہ پاک اس خوشی سے ایک فرشتہ پیدا فرمادیں گے جو اللہ کی عبادت کرتا رہے گا، اس کی بزرگی بیان کرتا رہے گا اور اس کی توحید بیان کرتا رہے گا، جب مومن بندہ اپنی قبرمیں جائے گاتو وہ خوشی کا فرشتہ قبر میں اس کے پاس آئے گا اور کہے گا : کیا تو مجھے نہیں جانتا؟ وہ پوچھے گا : تو کون ہے؟ فرشتہ کہےگا : میں وہ خوشی ہوں جو تو نے فلاں بندے کو پہنچائی تھی، آج میں تیری تنہائی میں تیرا ساتھی ہوں، میں تجھے تیری حجّت تلقین کروں گا اور تجھے سچی بات پر ثابت قدم رکھوں گا، قیامت کے دن تیرے لیے گواہی دوں گا، تیرے پروردگار کے سامنے تیری شفاعت کروںگا اور جنت میں تجھے تیرا گھر دکھاؤں گا۔(کنزالعمال)
روک ٹوک کم کیا کریں
بعض ساسیں بہو پر اس قدر بےجا روک ٹوک کرتی ہیں کہ یا تو بہو بےباک ہو جاتی ہے یا بدظن، جب کہ کسی خادم یا غلام کو بھی ہر چھوٹی بڑی بات پر روکنا ٹوکنا مناسب نہیں۔ ’بخاری شریف‘ میں ہے: حضرت انسؓفرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺجب مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ کے پاس کوئی خادم نہ تھا،حضرت ابوطلحہؓ -جو میری والدہ کے دوسرے شوہر تھے-نےمیرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آپ ﷺ کے پاس لے جا کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! انس ایک سمجھ دار لڑکا ہے، یہ آپ کی خدمت کرےگا! چناں چہ میں نے سفر و حضر میں آپ ﷺ کی خدمت کی، اگر میں نے کوئی کام کردیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے اسے اس طرح کیوں کیا؟ اور اگر میں نے کوئی کام نہیں کیا تو آپ ﷺ نے مجھ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟(بخاری)’ترمذی شریف‘ میں ہے: حضرت انسؓنے حضرت نبی کریمﷺ کی دس سال خدمت کی ہے اور آپﷺ نے حضرت انسؓکے لیے دعا فرمائی تھی؛ ان کا ایک باغ تھا جو سال میں دو مرتبہ پھل دیا کرتا تھا اور اس میں ایک درخت تھا جس سے مشک کی خوشبو آتی تھی۔(ترمذی) اس لیے ساس بہو کو بھی وسیع ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپس میں یگانگت کے ساتھ رہنا چاہیے تاکہ آپس میں محبت پیدا ہو۔