ساس بہو کا رشتہ خوش گوار بنانے کے اسلامی اصول (۳)

مفتی ندیم احمد انصاری

ساس سسر کی خدمت کریں

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بہو پر ساس سسر کی خدمت کسی طور بھی ضروری نہیں، لیکن یہ بات اس قدر عمو م کے ساتھ اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اقدار سے میل نہیں کھاتی۔ گھر میں بزرگ موجود ہوں، خدمت کے محتاج بھی ہوں، اور بہو اپنے شوہر کے واپس آنے کا انتظار کرے کہ وہ آئےگا تو خود اپنے ماں باپ کی خدمت کرےگا۔زندگیاں قانون سے نہیں، اخلاق سے سنورتی ہیں۔ حضرت ابو قتادہؓکے بیٹے کی منکوحہ کبشہ بنتِ کعب بن مالکؓسے روایت ہے؛ وہ کہتی ہیں کہ حضرت ابوقتادہؓمیرے پاس آئے، میں نے ان کے لیے وضو کا پانی بھرا، ایک بلّی آئی اور پانی پینے لگی۔ حضرت ابوقتادہؓنے یہ دیکھ کر برتن جھکا دیا، یہاں تک کہ اس نے خوب سیر ہو کر پانی پی لیا۔ کبشہ کہتی ہیں: حضرت ابوقتادہؓنے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: بھتیجی! کیا تمھیں اس پر تعجب ہوا؟ میں نے کہا: ہاں! انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: یہ (بلیاں) ناپاک نہیں۔(ترمذی) اس حدیث سے دیگر امور کے علاوہ یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت کبشہ اپنے سسر کی خدمت کرتی تھیں۔

بہو پر بلاضرورت بوجھ نہ ڈالیں

یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بلاضرورت و بلاوجہ اپنی خدمت کا بوجھ بہو پرڈال دینا مناسب نہیں، جتنا ہو سکے ہر ایک کو اپنے کام خود انجام دینے چاہئیں۔حضرت عائشہؓ سے کسی نے پوچھا: حضرت نبی کریم ﷺ اپنے گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: آپ ﷺ اپنے گھر والوں کی محنت یعنی خدمت میں مصروف رہتے تھے، جب نماز کا وقت آجاتا تو آپ نماز کے لیے چلے جاتے۔ (بخاری) ’مسنداحمد‘ میں ہے؛ حضرت عائشہؓسے کسی نے پوچھا: رسول اللہ ﷺ گھر میں ہوتے تو کیا کرتے تھے ؟ انھوں نے فرمایا: آپ ﷺ بھی ایک بشر تھے، آپ اپنے کپڑوں کو خود صاف کرلیتے تھے، اپنی بکری کا دودھ دوہ لیتے تھے اور اپنے کام اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے۔ (مسنداحمد)اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: حقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے رسول اللہ کی ذات میں ایک بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ سے اور یومِ آخرت سے امید رکھتا ہو۔ (الاحزاب)

بہو کو اپنے ساتھ کھلائیں

بعض جگہ یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بہو سسرال والوں کی کتنی ہی خدمتیں کر لے، وہ اس کی قدر نہیں کرتے، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو اس کی ذمّےداری ہے، اگر اس نے یہ سب کر لیا تو کون سا احسان کیا؟ بعض علاقوں میں آج بھی رواج ہے کہ گھر کی عورتیں عموماً اور بہوئیں خصوصاً سب سے آخر میں کھانا کھاتی ہیں، چاہے انھیں کتنی ہی شدّت سے بھوک لگی ہو یا ڈاکٹر نے جلد کھانا تجویز کیا ہو۔ ایسی پابندیاں غیرمناسب ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کسی شخص کے پاس خادم کھانا لے کر آئے اور وہ اس کو اپنے ساتھ نہ بٹھا سکے تو اسے ایک یا دو لقمے ہی دے دے، اس لیے کہ اس نے گرمی اور اس (کھانے) کی تیاری کی مشقت برداشت کی ہے۔(بخاری) اس حدیث میں خادم کو اپنے ساتھ کھلانے کی تاکید کی گئی ہے اور ہم بہو کو بھی ساتھ بٹھا کر نہیں کھلا تے۔

بہو کے حقوق کا خیال رکھیں

جب کوئی لڑکی بہو بن کر کسی کے گھر میں آتی ہے تو اس کے ساس سسر کو چاہیے کہ اسے مانوس کریں اور اس کے حقوق کا خیال رکھیں۔ وہ بزرگ اور تجربےکار ہوتے ہیں، اگر وہ چاہیں تو اپنے بیٹے کی ازدواجی زندگی کو سنوار بھی سکتے ہیں اور بگاڑ بھی سکتے ہیں۔ بعض مسائل میں ان کی عدم توجہی بڑی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصؓروایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے ایک اچھے خاندان کی عورت سے میرا نکاح کردیا تھا اور میرے والد اپنی بہو سے میرا حال پوچھتے رہتے تھے، وہ جواب دیتیں کہ وہ ایک اچھے اور نیک آدمی ہیں مگر جب سے میں آئی ہوں انھوں نے میرے بستر پر قدم بھی نہیں رکھا اور نہ میرے قریب آئے۔ جب ایک عرصہ گزر گیا تو میرے والد نے رسول اللہ ﷺ سے یہ قصہ بیان کیا۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے میرے پاس لاؤ! چناں چہ میں آپ ﷺ کے پاس بھیجا گیا۔ آپﷺ نے دریافت فرمایا: تم روزے کس طرح رکھتے ہو؟ میں نے کہا: مسلسل! پھر فرمایا: قرآن کس طرح ختم کرتے ہو؟ میں نے کہا: ہر رات! آپ ﷺنے فرمایا: ہر مہینے میں تین دن روزے رکھا کرو اور ایک ماہ میں قرآن مجید ختم کیا کرو! میں نے عرض کیا: مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: ایک ہفتے میں تین روزے رکھ لیا کرو! میں نے عرض کیا: مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: ہمیشہ دو دن افطار کیا کرو اور ایک دن روزہ رکھ لیا کرو۔ میں نے عرض کیا: مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے! آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا! داود علیہ السلام کی طرح روزے رکھا کرو جو سب سے افضل ہے یعنی ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو، اور قرآن سات دنوں میں ختم کیا کرو۔ (حضرت عبداللہؓ بعد میں کہتے ہیں) کاش میں حضور ﷺ کی رخصت منظور کرلیتا، کیوں کہ اب میں بوڑھا اور ضعیف ہوگیا ہوں اور مجھ میں ویسی طاقت نہیں رہی! وہ بڑھاپے میں اپنے کسی گھر والے کو دن میں ساتواں حصہ قرآن سنادیا کرتے تھے تاکہ رات میں اس کا پڑھناآسان ہوجائے، اور جب بہت کم زور ہوجاتے اور طاقت حاصل کرنا چاہتے تو کئی روز تک روزہ نہ رکھتے، پھر شمار کرکے اتنے روزے رکھ لیتے کہ کہیں کوئی روزہ باقی نہ رہ جائے جس کا رسول اللہ ﷺ کے سامنے میں نے عہد کیا تھا۔(بخاری) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ساس سسر کو بہو کی ضرورت و راحت کا خیال رکھنا چاہیے اور اگر اسے کوئی شکایت ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بہوؤں میں برابری کا سلوک کریں

بہو کا رشتہ بیٹے کے سبب ہوتا ہے، جس طرح والدین کو اولاد کے درمیان عدل و انصاف اور برابری کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح بہوؤں میں بھی براری کرنی چاہیے۔ لیکن کہیں بڑی تو کہیں چھوٹی یا کوئی ایک بہو ساس کی لاڈلی بن کر ایسی غالب آتی ہے کہ پھر باقی بہوؤں کا جینا مشکل کر دیتی ہے۔ اس سے بہوؤں کے درمیان حسد اور جلن پیدا ہو جاتی ہے، اس لیے ساس کو چاہیے کہ سب بہوؤ ں کے ساتھ برابری کا سلوک کرے، کسی کے ساتھ کم اور کسی کے ساتھ زیادہ محبت کا اظہار نہ کرے۔ حضرت نعمان بن بشیرؓسے روایت ہے، ان کے والد انھیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لے کر آئے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام دیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اپنی تمام اولاد کو اتنا ہی دیا ہے ؟ انھوں نے کہا: نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: تو اس کو واپس لے لو۔(بخاری) ’بخاری شریف‘ میں اس کے بعد والی حدیث میں اس طرح ہے:حضرت نعمان بن بشیرؓروایت کرتے ہیں کہ مجھےمیرے والد نے کچھ عطیہ دیا۔ عمرہ بنت رواحہؓ(ان کی والدہ) نے کہا: میں راضی نہیں ہوںگی جب تک کہ رسول اللہ ﷺ کو گواہ نہ بنادو! انھوں نے حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: میں نے اپنے بیٹے کو -جو عمرہ بنت رواحہؓکے بطن سے ہے-ایک عطیہ دیا تو عمرہ نے مجھ سے کہا کہ میں آپ ﷺ کو گواہ بنا دوں! آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے ایسا ہی تمام اولاد کودیا ہے؟ میں نے کہا: نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو! پھر انھوں نے وہ ہبہ واپس کرا لیا اور ان کے بیٹے نے واپس کردیا۔(بخاری) حضرت نعمان بن بشیرؓکی حدیث کئی سندوں سے منقول ہے۔ بعض علما اولاد کے درمیان برابری کو مستحب کہتے ہیں۔ بعض تو یہاں تک کہتے ہیں کہ چومنے میں بھی برابری کرنی چاہیے۔ بعض علما کہتے ہیں کہ ہبہ اور عطیے میں بیٹوں اور بیٹیوں سب کو برابر برابر دینا چاہے، لیکن بعض اہلِ علم کے نزدیک لڑکوں کو دوگنا اور لڑکیوں کو ایک گنا دینا برابر ہے، جیسے کہ میراث کی تقسیم میں، امام احمدؒاور امام اسحاقؒکا یہی قول ہے۔ (ترمذی) حضرت ابوہریرہؓبیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کتنے ہی مرد اور عورتیں ساٹھ برس تک اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں عمل کرتے رہتے ہیں پھر ان کو موت آتی ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچا دیتے ہیں، جس کی وجہ سے ان پر جہنم واجب ہوجاتی ہے۔(ترمذی)

عیب چھپائیں اور کام آئیں

کسی بھی مسلمان کے عیب چھپانا بہت بڑی نیکی ہے، جب ہم کسی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں تو ایسی بہت سی باتیں نظر آہی جاتی ہیں جنھیں وہ کسی کے سامنے ظاہر کرنا اچھا نہیں سمجھتا، ہمیں بھی ایسے معاملات کو پوشیدہ رکھنا چاہیے۔ اس میں ثواب بھی ہے اور یہی اخلاق کا تقاضا بھی ہے۔ ہم میں سے کون ہے جو بےعیب ہو؟ ہر انسان اپنے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہے! بعض مرتبہ خوش گوار حالات میں تو ساس بہوئیں ایک دوسرے کے عیب چھپا لیتی ہیں، لیکن جہاں آپس کا معاملہ بگڑا وہاں نمک مرچ لگا کر اور بڑھا چڑھا کر لوگوں کے سامنے بیان کرتی پھرتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو بندہ دنیا میں کسی بندے کے عیب چھپائےگا، قیامت کے دن اللہ اس کے عیب چھپائے گا۔(مسلم)سالم، حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے،وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ ہی مشکل کے وقت اسے بےیارو مددگار چھوڑتا ہے، جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے، اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں، اور جو کسی مسلمان کی کوئی تکلیف دور کرتا ہے، اللہ اس کی وجہ سے قیامت کی تکالیف میں سے اس کی ایک تکلیف دور فرمائیںگے، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ قیامت کے روز اس کی پردہ پوشی فرمائیںگے۔(ابوداود) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر مسلمان کی جان مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے (اس لیے ان کے ساتھ کھلواڑ نہ کرے) ۔(ابن ماجہ)

بدگمانی، بغض، حسد، غیبت، ٹوہ سے بچیں

بعض ساس بہوئیں ایک دوسرے کی طرف سے بدگمانی کا شکار ہو جاتی ہیں اور ایک دوسرے کی ٹوہ میں لگی رہتی ہیں کہ انھیں کوئی بات ملے اور وہ بات کا بتنگڑ بنا دیں، اس سے تعلقات اور لوگ دونوں بگڑ جاتے ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے زیادہ جھوٹی بات ہے، اور کسی کے عیب کی جستجو نہ کرو اور نہ اس کی ٹوہ میں لگو اور ایک دوسرے کو دھوکا نہ دو اور نہ حسد کرو اور نہ بغض رکھو اور نہ کسی کی غیبت کرو اور اللہ کے بندو بھائی بھائی ہوجاؤ!(بخاری) حضرت معاویہؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: بےشک اگر تم لوگوں کے عیوب کی ٹوہ میں لگا رہوگے تو انھیں خراب کردوگے یا فرمایا کہ قریب ہے کہ تم انھیں بگاڑ دوگے۔ حضرت ابوالدرداءؓفرماتے ہیں کہ یہ وہ کلمہ ہے کہ حضرت معاویہؓنے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے اور اس کے ذریعے اللہ نے انھیں بہت نفع دیا۔ (ابوداود) ہمیں بھی اس پر عمل کر کے نفع اٹھانا چاہیے۔

سنی سنائی باتوں پر کان نہ دھریں

محض سنی سنائی باتوں کو بلاتحقیق آگے نقل کر دینابڑا گناہ ہے، اس کے بڑے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس سے ہمیشہ بچنا چاہیے۔ ساس اور بہو کو بھی اس کا ہر وقت لحاظ رکھنا چاہیے۔ اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کرلیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پچھتاؤ۔ (الحجرات) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: آدمی کے گناہ گار ہونے کے لیے کافی ہے کہ ہر سنی سنائی بات کو بیان کردے۔ (ابوداود) حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنی سنائی بات دیکھی ہوئی بات کی طرح نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خبر دی کہ ان کی قوم نے بچھڑے کی پوجا شروع کردی ہے تو انھوں نے اس وقت تختیاں نہیں پھینکیں، جب انھوں نے اپنی قوم کو اپنی آنکھوں سے اس طرح کرتے ہوئے دیکھ لیا تو انھوں نے تختیاں پھینک دیں اور وہ ٹوٹ گئیں۔(مسنداحمد)

(کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن، ممبئی کے صدر و مفتی ہیں)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here