ندیم احمد انصاری
(الفلاح اسلامک فاؤنڈٰیشن، انڈیا)
قریش کے سردار’عبد المطلب‘ کے 10 ؍ بیٹے تھے، ان میں سے ایک کا نام ’ عبداللہ ‘ تھا ، جو ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کے والد ہیں ۔ عبدالمطلب نے حضرت عبد اللہ کا نکا ح حضرت آمنہ سے کیا تھا، رسول اللہ ﷺ ابھی شِکمِ مادر ہی میں تھے کہ آپ کے والد عبد اللہ کا انتقال ہوگیا۔(ابن ہشام)
ولادت کا دن اور تاریخ
آپ ﷺ کی ولادت12ربیع الاوّل، عام الفیل (مطابق 570ء )کو پیرکے دن ہوئی، یہ انسانیت کا سب سے روشن اور مبارک دن تھا۔ولادتِ نبوی کے تعیین میں بہت ہی اضطراب پایا جاتا ہے،12ربیع الاول سب سے زیادہ مشہور ہے، جب کہ اب تک کی تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ صحیح تاریخ9 ربیع الاول ہے۔ (رحمۃ للعالمین، سیرۃ المصطفیٰ)
ایا مِ رضاعت
رسول اللہ ﷺ کو سب سے پہلے آپ کی والدہ نے دودھ پلایا، اس کے بعد چند دن آ پ کے چچا ابولہب کی باندی ثُوَیْبَہ نے اور اس کے بعد حلیمہ سعدیہ نے۔حضرت حلیمہً ؓ فرماتی ہیں کہ جب انھوں نے آپ ﷺ کا دودھ چھڑایا ہے تو آپ ﷺ نے سب سے اول یہ فرمایا تھا : اللّٰہُ اَکْبَرُ کَبِیْر اً، وَّالْحَمدُ لِلّٰہِ کَثِیْرًا، وسُبْحَانَ اللَّہِ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً۔ جب آپ ﷺ کچھ بڑے ہوئے تو باہر تشریف لے جاتے اور لڑکوں کو کھیلتا دیکھتے مگر ان سے الگ رہتے اور کھیل میں شریک نہ ہوتے ۔رسول اللہ ﷺ اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ جنگل میں بکریا ں بھی چرایا کرتے تھے۔ حلیمہ سعدیہ آپ ﷺ کو جب آپ کی والدہ ماجدہ کے پا س واپس لائیں ، اس وقت آپ کی عمر پانچ سال ایک مہینہ تھی۔ ( سیرۃ المصطفیٰ )
والدہ و دادا کی وفات
جب آپ ﷺکی عمر 6 سال کی ہوئی تو آپﷺ کی والدہ آپ کو آپ کے دادا کا ننھیال دکھانے کے لیےمدینے لے گئیں ، وہاں سے واپسی کے دوران ایک مقام ’ابوا‘ پہنچ کر حضرت آمنہ کا انتقال ہوگیا ۔ ایک باندی ’اُمِّ ایمن بَرکَہ حبشیہ‘ جو اس سفر میں ساتھ تھیں ، وہ آپ کو لے کر مکہ آئیں اور آپ کو آپ کے دادا عبد المطلب کے سپر د کیا۔والدین کے بعد آپ اپنے دادا عبد المطلب کے پاس رہے ، وہ آپ کو دل وجان سے زیادہ چاہتے تھے۔ جب آپ ﷺ کی مبارک عمر8 سال ہوئی تو دادا عبد المطلب کا بھی انتقال ہوگیا ۔(سیرتِ ابن ہشام)
چچا ابوطالب کے ساتھ
دادا کے انتقال کے بعد آپ اپنے چچا ابوطالب کے ساتھ رہنے لگے، وہ آپ کے والد کے حقیقی بھائی تھے۔ جب آپ بارہ سال ، دو مہینے ، دس روز کے ہوئے تو اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ ملک شام کے سفر کے لیے نکلے ۔ جب بُصریٰ پہنچے تو بُحَیْرا راہب نے آپ کو دیکھا اور آپ کی صفات سے آپ کو پہچان لیا اور پاس آکر آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ کر کہا : ’ یہ اللہ کے پاک رسول ہیں ، تمام عالم کی طرف ان کو اللہ تعالی نے رحمت بناکر مبعوث فرمائیں گے‘۔ اُس سے پوچھا گیا کہ یہ بات تجھے کیسے معلوم ہوئی ؟ تواس نے کہا :’جب تم لوگ عَقَبۃ کی طر ف سے آئے تو ہر شجر وحجر سجدے میں گر گیا اور یہ شجر وحجر نبی کے علاوہ کسی اور کے سامنے سجدہ نہیں کرتے ، ہماری کتابوں میں ان کا ذکر موجودہے‘۔ بُحَیرا نے ابو طالب سے آپ کے رشتے کے متعلق سوال کیا ؟ انھوں نے کہا : یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے۔ راہب نے کہا : آپ کو ان پر شفقت ہے؟ انھوں نے جواب دیا : ہاں ۔ اس نے کہا: اگر آپ ان کو ملک شام لے گئے تو بخدا ! یہودی ان کو قتل کر ڈالیں گے ۔ پس آپ کے چچا یہود کے خطرے کی وجہ سے آپ کو واپس لے آئے۔(سیرتِ ابن ہشام )
حضرت خدیجہؓ سے نکا ح
جب آپ ﷺ25 سال کے ہوئے تو حضرت خَدِیْجَہ بنتِ خُوَیْلِد کے ساتھ نکا ح کیا ، وہ بیوہ تھیں،اور ان کے شوہراَبُوْہَالَہ کا انتقال ہوچکا تھا۔ اس نکاح کے وقت آپ ﷺ کی عمر 25سال اور حضرت خدیجہؓ کی عمر 40 سال تھی ، آپ کے چچا سیدناحضرت حمزہؓ نے یہ پیغامِ نکا ح آپ ﷺ تک پہنچایا اور ابوطالب نے نکاح کا خطبہ پڑھا ۔ حضرت ابراہیمؓ کو چھوڑکر ، جن کا انتقال بچپن ہی میں ہوگیا تھا، آپ ﷺ کی ساری اولاد ان ہی سے ہوئی۔ (سیرتِ ابن ہشام )
وحی کا آغاز
مکہ مکرمہ کے ایک پہاڑ میں ایک غار ہے ، جس کا نام ’حِرَاء ‘ ہے ، آپ اس غارِ حِراَء میں تشریف لے جاتے اور مسلسل اپنے پرودگار کی عبادت میں مشغول رہتے۔ جب آپ کی عمر چالیس سال ایک دن ہوئی تو اللہ تعالی کی جانب سے حضرت جبرئیل ؑ آپ کے پاس غارِ حراء میں تشریف لائے اور کہا : پڑھو، آپ نے فرمایا : میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ، کیسے پڑھوں ؟ اسی طرح 3مرتبہ ہوا ،پھر جبرئیل ؑ نے آپ کو سینے سے لگا کر زور سے دبایا ، جس کو برداشت کرنا آپ کے لیے مشکل ہوگیا ، پھر چھوڑکر کہا :(اِقْرَاْبِاسْمِ رَبِّکَ الّذِ یْ خَلَق۔خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَق۔ٍ اِقْرَاْ وَرَبُّکَ اَلْاَکْرَمُ۔ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَم۔ عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَم)۔رسول اللہ ﷺ اس واقعے سے خوف زدہ ہوگئے ، اس لیے کہ ایسا نہ کبھی پہلے آپ کے ساتھ پیش آیا تھا اور نہ آ پ نے اس طر ح کی بات کبھی سنی تھی۔ آپ گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا : مجھے کپڑا اڑھا دو! آپ کو کپڑا اُڑھا دیا گیا۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ سے اس حالت کا سبب پوچھا تو آپ نے پورا قصہ بیان کیا ، اور فرمایا: ’مجھے اپنی جان کا خوف ہے‘ ۔ حضرت خدیجہؓ نے عرض کیا : آپ کو کیا خوف ہے ؟ آپ کے لیے تو بشارت ہے ، خداکی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی بے یارو مددگار نہیں چھوڑیں گے ، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، سچ بولتے ہیں، عیال دار کی مدد کرتے ہیں ، فقیر کی حاجت پور ی کرتے ہیں ، مہمان کا اکر ام کرتے ہیں ، حق کی مدد کرتے ہیں، یہ سب آپ کی دائمی عادات ہیں ۔(سیر سیدالبشر)
وَرَقہ بن نوفل
حضرت خدیجہؓآپ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، وہ ان کے چچا زادبھائی تھے ، جو کہ زمانۂ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے، عمربھی زیادہ تھی اور عالم فاضل بھی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا، سب بیان فرمادیا۔ وَرَقَہ نے سنتے ہی کہا : قسم ہے اس ذات کی ، جس کے قبضے میں میری جان ہے ! آپ اس امت کے نبی ہیں اور یہ وہی فرشتہ ہے ، جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تھا ۔ کا ش ! میں اس دورِ نبوت میں جوان ہوتا اور اس وقت تک زندہ رہتا ، جب آپ کی قوم آپ کو جھٹلائے گی اور آپ کو نکالے گی۔ آپ ﷺ نے حیرت سے پوچھا : کیا میری قوم مجھ کو نکالے گی ؟ ورقہ نے کہا : ہا ں ! جو شخص بھی اس قسم کی چیز لایا ہے، جیسی تم لائے ہو‘اس سے عداوت ومخالفت کی گئی ہے ، اگر وہ دن مجھے ملے تو میں پوری قوت کے ساتھ آپ کی مدد کروں گا۔ پھر تھوڑی ہی مدت کے بعد ورقہ کا انتقال ہوگیا اور وحی کے آنے میں بھی توقف ہو گیا ، جس سے رسول اللہ ﷺ کو انتہائی رنج وغم ہوا ۔ (سیرت سید البشر، سیرتِ ابن ہشام)
تبلیغِ اسلام
شروع میں جب رسول اللہ ﷺپر وحی نازل ہوئی ، تب تک اس میں صرف آپ کی ذات کے لیے احکام تھے ، پھر کچھ دنوں وحی کا سلسلہ بند رہنے کے بعد جب دوبارہ وحی جاری ہوئی تو اس میں تبلیغِ اسلام کا حکم ہوا ، چناں چہ رسول اللہ ﷺ نے شروع میں دعوتِ اسلام اپنی جان پہچان کے لوگوں اور ان شخصوں میں شروع کی جن پر آپ کو اعتماد تھا۔ اس طر یق سے سب سے پہلے آپ کی بیوی حضرت خدیجہ، اس کے بعد حضرت علی‘ جن کی عمر اس وقت صرف دس سال تھی،اس کے بعد زید بن حارثہ‘جو آپ کے غلام تھے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہم ایمان لائے ۔ رسول اللہﷺ دعوت وتبلیغ کے اس کا م کو 3سال تک اسی طر ح چھپا کر کرتے رہے ، پھر جب اللہ تعالی کی طر ف سے علی الاعلان اس کا م کو کرنے کا حکم ہو ا تو آپ کوہِ صفا پر چڑھے اور قوم کو جما کر کے اسلا م کی دعوت دی ۔(سیرت خاتم الانبیاء)
حبشہ کی ہجرت
نزولِ وحی کے چوتھے سال کے درمیان یا آخر میں مسلمانوں پرظلم و ستم کا سلسلہ شروع ہوگیا جو دن بدن بڑھتا ہی گیا۔جب رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ آپ کے اصحاب کو سخت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور آپ ان کی حفاظت وغیرہ پر قادر نہیں تو آپ نے ان سے فرمایا : اگر تم لوگ حبشہ کی طرف نکل جاؤ تو اچھا ہے ، وہا ں کا بادشاہ ایسا ہے کہ جس کی وجہ سے کوئی کسی پر ظلم نہیں کرتا ، وہ ایک اچھا ملک ہے ، یہا ں تک کہ اللہ تعالی تمھارے لیے نجات وکشادگی کا کوئی اور سامان پیدا کر دے ۔ اس موقع پر مسلمانوں کی جماعت نے حبشہ کی طر ف ہجرت کی۔ یہ اسلام کی پہلی ہجرت تھی، جس میں 10آدمی تھےاور انھوں نے اپنا امیر عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بنایا ۔اس کے بعد جعفرؓبن ابی طالب نے حبشہ کی طر ف ہجرت کی ، پھر بہت سے مسلمان وہاں پہنچتے رہے ، ا ن میں سے کچھ لوگ تنہا تھے اور کچھ اہل وعیال کے ساتھ۔ جن لوگوں نے حبشہ کی ہجرت کی ، ا ن کی کُل تعداد83 بتائی گئی ہے ۔ حبشہ کی یہ ہجرت 5نبوی میں ہوئی تھی، جہاں جعفرؓ بن ابی طالب اپنے ساتھیوں کے ساتھ7ہجری تک رہے اور غزوۂ خَیْبَر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، اس طرح وہ تقریباً 15سال حَبْشَہ میں رہے ۔(سیرتِ ابن ہشام )
صدمات
جب سے رسول ﷺنے علی الاعلان دعوت شروع کی تھی تو کفار عداوت ودشمنی پر اترآئے ، لیکن ابو طالب آپ ﷺ کی حمایت کرتے رہے۔ ایک بار کفار نے ابو طالب سے آپ کو حوالے کرنے کے لیے کہا، لیکن ابو طالب نے آپ کوان کے حوالہ کرنا قبول نہ کیا ، کفار نے آپ کے قتل کا پکا ارادہ کر لیا اور ابوطالب آپ کو لے کر بنو ہاشم وبنو مطلب کے ساتھ ایک گھاٹی میں آپ ﷺ کی حفاظت کے لیے جاکر رہے اور کفار نے ان سب کا محاصرہ کر لیا۔ یہ لوگ ایک عرصے تک اسی طر ح رہے یہاں تک کہ ببول کے پتّے کھا کر گزارا کرنے کی نوبت آئی اور ا ن کے بچّے بھوک سے روتے اور بلبلاتے تھے اور ان کے رونے کی آواز دور تک جاتی تھی۔ قریش نے تاجروں کو بھی ان کے خلاف بھڑکا دیا تھا ، جس کی وجہ سے تاجروں نے چیزوں کی قیمت اتنی زیادہ کردی کہ وہ یہ سامان خرید ہی نہ سکیں، تین سال اسی سخت حال میں گزرے۔ ۔۔آپ ﷺ کی عمر49 سال تھی جب آپ کا محاصرہ ختم ہوا ، اس سے آٹھ مہینے اکیس روز بعد آپ کے چچا ابو طالب کا انتقال ہوا اور ان کے انتقال سے تین روز بعد حضرت خدیجہؓکی وفات ہوئی۔رسول اللہ ﷺ کی عمر50 سال ،3 مہینے ہوئی ، تو نَصِیَبَین کے جِنَّات آپ کی خد مت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا ۔ (سیرت سید البشر)
طائف کا سفر
ابو طالب کے انتقال کے بعد رسول اللہ ﷺ کو ایسی بہت سی تکلیفیں پہنچیں، جن کی ہمت قریش‘ ابو طالب کی زندگی میں نہ کرسکے تھے۔ جب آپ ﷺکو اہلِ مکہ کے قبول اسلام سے مایوسی کی صورت پیدا ہونے لگی تو آپ نے اسی سال یعنی 10نبوی میں ، ماہِ شوال کے آخر میں زید بن حارثہ کو ساتھ لے کر طائف کا سفر کیا اور وہاں کے لوگوں کو حق کی دعوت دی اور ایک مہینے تک لگا تار ان کی تبلیغ وہدایت میں مصروف رہے، مگر ایک شخص نے بھی آپ کی دعوت قبو ل نہ کی ۔ جب رسو ل اللہﷺ طائف آئے تو سب سے پہلے ثقیف کے سرداروں اور ذمّے دار لوگوں سے ملنے تشریف لے گئے اور ان کے پاس بیٹھ کر انھیں دینِ حق کی دعوت دی ، لیکن آپ کو اس کا بہت برا اور سخت جواب ملا ، انھوں نے آپ کا مذاق اڑایا اور شہر کے اَوْباش لوگوں اور لڑکوں کو آپ کے پیچھے لگا دیا ، یہ لوگ آپ کو گالیا ں دیتے، شور مچاتے اور آپ پر پتھر برساتے تھے۔ انھوں نے راستے کے دونوں طرف اپنے آدمی کھڑے کر دیے ، آپ ایک قدم بھی اٹھاتے تو کسی نہ کسی طر ف سے آپ پر پتھر پھینکا جاتا ، یہاں تک کہ آپ لہو لہان ہوگئے ۔(سیرتِ ابن ہشام )
معراج
آپ ﷺ کی عمر51 سال،9مہینے ہوئی تو آپ ایک رات زمزم اور مقامِ ابراہیم کے درمیان لیٹے ہوئے تھے کہ جبرئیل اور میکائیل ایک بُرَّاق لائے ، آپ ﷺ کو اس پر سوار کیا اورپہلے بیت المقدس پھر آسمانوں پر لے گئے۔ آپ ﷺنے پہلے آسمان پر حضرت آدم سے ، دوسرے پر حضرت عِیسٰی اور ان کے خالہ زاد بھائی حضرت یَحْییٰ سے ، تیسرے پر حضرت یوسف سے ، چوتھے پر حضرت اِدْرِیس سے ، پانچویں پر حضرت ہَارُوْن سے ، چھٹے پر حضرت مُوسیٰ سے اور ساتویں پر حضرت اِبْراَہیم سے ملاقات کی، علیہم السلام۔پھر آپ کی ملاقات اللہ جل شانہ سے ہوئی اور اسی موقع پر آپ اور آپ کی امت پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہوئیں۔(سیرت سید البشر، سیرتِ ابن ہشام)
انصار کا قبول اسلام
رسول اللہ ﷺ دس سال تک عرب کے قبائل کو اعلانیہ اسلام کی دعوت دیتے رہے ۔ آپ ہر مجلس ومجمع مین جاکر ان کو حق کی دعوت دیتے، حج کے موسم میں بھی گھر گھر جاکر لوگوں کو حق کی طرف بلاتے ۔ جب اللہ تعالی کو منظور ہوا تو عقبہ کے پاس انصار کے قبیلہ خِزْرَج کے کچھ لوگ آپ سے ملے ، آپ نے ان کو اللہ کی طر ف دعوت دی اور اسلام ان کے سامنے پیش کیا ، انھوں نے اسی وقت آپ کی تصدیق کی اور ایمان لے آئے ۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو اپنے دوسرے بھائیوں سے آپ ﷺ کا ذکر کیا اور ان کو بھی اسلام کی دعوت دی ، یہاں تک کہ ان کی قوم اور برادری میں اسلام خوب پھیل گیا اور کوئی گھر ایسا نہ بچا جہاں آپ ﷺ کا چرچا نہ ہو ۔جب انھوں نے واپسی کا ارادہ کیا تو رسو ل اللہ ﷺنے ا ن کے ساتھ دین کی تعلیم کے لیے مُصْعَبْؓ بن عُمَیْر کو کر دیا ، وہ اَسْعَدْ بن زُرَارَہ کے یہاں رہے اور وہاں امامت وغیرہ کے فرائض انجام دیتے رہے،یہ بَیْعَتِ عَقَبَہ اُوْ لیٰ کہلا ئی۔ دوسرے سال میں مُصْعَبْ بن عُمَیْرؓمکّے واپس آئے اور انصار کے کچھ مسلمان ، مشرکین کی ایک جماعت کے ساتھ جو حج کی غرض سے جارہی تھی‘مکہ پہنچے اور رسول سے عقبہ میں بیعت کا وعدہ کیا۔ جب وہ حج سے فارغ ہوئے اور ایک تہائی رات گزرگئی تو عقبہ کے نزدیک جمع ہوئے ، ان سب کی تعداد 73 تھی، جن میں دو عورتیں بھی شامل تھیں ۔آپ ﷺ تشریف لائے ، ان سے گفتگو کی ، قرآن مجید پڑھ کر سنایا اور اللہ کی طر ف دعوت دی، پھر آپ ﷺنے فرمایا کہ میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم میرے ساتھ حفاظت وغیرہ کا وہی معاملہ کرو گے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ کرتے ہو، انھوں نے آپ سے بیعت کر لی ۔ پھر آپ نے ان میں سے12لوگوں کو سردار منتخب کیا ،9خِزْرَج کے اور3 اَوس کے۔ (سیرتِ ابن ہشام )
مدینے کی طرف ہجرت
قریش کو جب اس بیعت کی خبر ہوئی تو ان کے غصّے کی انتہا نہ رہی اور انھوں نے مسلمانوں کو اور زیادہ تکلیف دینا شروع کردیا ، اس وقت رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کو مدینہ کی طر ف ہجر ت کرنے کا مشورہ دیا اور آہستہ آہستہ خفیہ طور پر صحابہ ایک ایک، دو دو کر کے مدینہ کی طرف ہجر ت کر گئے ، یہاں تک کہ مکّے میں صرف آپ ﷺ ، حضرت ابوبکر ، حضرت علی اور تھوڑے سے وہ لوگ جو ہجر ت کی استطاعت نہیں رکھتے تھے ، رہ گئے،رضی اللہ عنہم ۔جب آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی تو آپ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیقؓاور ان کے غلام عامر بنُ فہَیْرہؓ تھے اور راستہ بتانے والا عبد اللہ بن اُرَیقِط لَیْثِی تھا،جو کافر تھا۔ آپ ﷺ کی تلاش میں جب قریش آئے‘ان سے بچنے کے لیے آپ اور حضرت ابوبکرؓغارِ ثور میں چھپے۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں:میں نے مشرکین کو دیکھا کہ وہ بالکل ہمارے سروں پر آپہنچے ہیں، تو میں نے حضورﷺ سے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ ! اگر ان میں سے کوئی اپنے پیروں کی طرف نظر کر ے تو اپنے قدموں کے نیچے ہی ہمیں دیکھ لے گا۔ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :اے ابوبکر! تمھارا کیا خیال ہے ان دو کے متعلق ، جن کا تیسرا اللہ ہے؟ (سیرتِ سید البشر، سیرتِ ابن ہشام )
رسول اللہ ﷺ کا استقبال
انصار کو یہ اطلاع ہوگئی تھی کہ رسول اللہ ﷺ مکّے سے مدینے کے لیے روانہ ہوچکے ہیں ، وہ روزانہ فجر کی نماز کے بعد شہر کے آخری کنارے پر پہنچ جاتے اور آپ کا انتظار کرتے اور اس وقت تک وہاں سے نہ ہٹتے جب تک دھوپ بہت زیادہ تیز نہ ہوجاتی ۔ آپ ﷺ جس وقت مدینہ تشریف لائے اس وقت انصار اپنے گھروں میں جاچکے تھے ، سب سے پہلے ایک یہودی کی نظر آپ ﷺ پر پڑی ، اس نے زور سے آواز لگا کر انصار کو اِطّلاع دی ، وہ یہ خبر سنتے ہی نکل پڑے ۔ تقریباً پانچ سو انصاریوں نے اس مبارک قافلے کا استقبال کیا ، ہر شخص چاہتا تھا کہ آپ اس کے ہاں قیام فرمائیں ، آپ نے ارشاد فرمایا : میری اونٹنی کو چھوڑ دو ، یہ خدا کی طر ف سے مامور ہے۔ جب آپ بَنِی مَالِک بن النَّجَّارکے گھر تک پہنچے تو ا و نٹنی خود بخود بیٹھ گئی اور ابو ایو ب انصار یؓ فوراً آپ ک سامان اٹھاکر لے لے گئے، آپﷺ نے انھیں کے یہاں قیام فرمایا ۔
چند اہم ترین واقعات
رسو ل اللہ ﷺ کی حیاتِ مبارکہ کو بیان کرنا کوئی ہنسی کھیل نہیں،ہر لمحہ ذمّے داری کا بوجھ کاندھوں کو جھکائے رکھتا ہے،پھر یہ موقع بھی نہایت اختصار سے کام لینے کا ہے، اس لیے فقط چند اہم ترین واقعات کوسنین کے اعتبار سے ترتیب وار بیان کرنے پر اکتفاکیا جاتا ہے:
1ھ : (۱) رسول نے حضرت ابو ایوب انصاریؓکے مکان کے سامنے کی زمین خرید کر مسجد تعمیر فرمائی، یہ زمین دو یتیم بچوں کی تھی۔ انھوں نے مسجد کا نام سن کر ہدیہ کرنا چاہا ، لیکن آپ نے بغیر قیمت کے لینا پسند نہیں کیا اور اس کی پور ی قیمت ادا کی اور مسجد کی تعمیر کے کا م میں برابر شریک بھی رہے یہ مسجد ’مسجدِ نبوی ‘کہلاتی ہے، جو مدینے کی سب سے بڑی اور اصل مسجد ہے۔ (۲) جو مسلمان مکّے سے آئے تھے یعنی مہاجرین اور جو مسلمان مدینے میں آباد تھے یعنی انصار‘آپ ﷺنے ان میں مواخات یعنی بھائی چارہ قائم کر دیا ، یہ دین کے بھائی آپس میں سگے بھائیوں سے زیادہ محبت کرنے لگے۔ (۳) مدینے کے یہودیوں اور آس پاس کے رہنے والے قبیلوں سے امن ودوستی کے عہد نامے کیے گئے ۔
2ھ : (۱) عبادت کے سلسلے میں نماز پہلے ہی سے فرض تھی جو مکّے میں علاحدہ علاحدہ اور ایک حد تک چھپ کر پڑھی جاتی تھی، مدینے میں یہ دشواری ختم ہوگئی،اب مسجد میں جماعت سے نماز پڑھنے کے لیے اطلاع کی ضرورت تھی ، اس لیے ہجرت کے پہلے ہی سال اذان شروع ہوئی ۔ (۲) آپ ﷺ کی خواہش، کعبے کی طر ف رخ کر کے نماز پڑھنے کی تھی، مگر جب تک اللہ کی طر ف سے حکم نہ ملے آپ اپنی خواہش پر عمل نہیں کرسکتے تھے ، چناں چہ آپ کی اس خواہش کی تکمیل کے لیے کعبے کو قبلہ بنانے کا حکم نصف شعبان 2 ھ میں نازل ہوا۔ (۳) اسلام کی بنیاد جن ارکا ن پر ہے ، ان میں سے تیسرا اور چو تھا رکن روزہ اور زکوۃ ہے ، ان کا حکم مدینہ پہنچنے پر غزوۂ بدر کے بعد2ھ میں آیا ۔
4ھ : ہجرت کی برکات میں سے ایک بہت بڑی برکت یہ ہے کہ4ھ میں شراب کی حرمت کا اعلان کیا گیا اور اسلام نے شراب کا نام ’ام الخباَئث ‘ (برائیوں کی جڑ ) رکھا۔
5ھ : ہجر ت کے پانچویں سال میں مسلمان عورتوں کے لیے پردے کا حکم ناز ل ہوا۔
6ھ : شروع ذی قعدہ 6ھ میں آپ ﷺنے مکہ مکرمہ کا ارادہ کیا اور عمرے کا احرام باندھا۔صحابہ کی ایک بڑی جماعت،جس کی تعداد چودہ سو پندرہ سو بتائی جاتی ہے‘آپ کے ساتھ تھی۔ حُدَیِبَیہ، مکّے سے ایک منزل پر ایک مقام ہے ، وہاں پہنچ کر آپﷺ نے قیام فرمایا اور حضرت عثمانؓکو مکّے روانہ فرمایا کہ قریش کو مُطّلع کردیں کہ اس وقت ہمارا ارادہ صرف عمر ےکا ہے، اور کوئی سیاسی غرض نہیں۔ مگر یہ واقعہ طول پکڑ گیا اور آپ ایک معاہدہ کر کے یہیں سے واپس تشریف لے گئے ، جس کا نام ’صلح حدیبیہ‘ ہے۔ صلح ہونے کے بعد قدرتی طور پر آپس میں رابطےاور تعلقات کی وجہ سے دعوت کے کام میں آسانی پیدا ہوئی اور دنیا کو اسلام سمجھنے کا موقع ملا،چناں چہ آپ ﷺنے 6ھ کے آخر یا7ھ کے شروع میں حق کی آواز تمام دنیا کے بادشاہوں تک پہنچادی۔
8ھ : مکہ ، جہاں سے کافروں نے آپ ﷺ اور آپ کے اصحاب کو نکالا تھا، جہاں کمزورمسلمانوں کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا تھا،8ھ میں فتح ہوگیا اور کعبہ‘360 بتوں سے پا ک ہوگیا۔
9ھ : میں حج فرض ہوا اور آپ ﷺنے حضرت ابوبکر صدیقؓکو حاجیوں کے قافلے کا امیر بناکر حج کے لیے بھیجا اور ان کے ساتھ بہت سے مسلمانوں نے حج کیا۔
10ھ : میں اعلان کیا گیا کہ رسول اللہﷺ اس سا ل حج کے لیے تشریف لے جائیں گے، اس خبر سے بہت سے لوگ مدینہ طیبہ آئے ، سب کی تمنا تھی کہ آپ ﷺکے ساتھ حج کا موقع ملے ۔ آپ نے اس موقع پر اسلام کے اصول سمجھائے اور جاہلیت کی رسموں ، شرک کی باتوں کا خاتمہ کیا اور امت کو الوداع کہا۔
11ھ :اللہ تعالی کی مخلوق کو اللہ کا سیدھا راستہ دکھاکر63 سال ،5 دن کی عمر میں ،12 ربیع الاول ، پیر کے دن ، چاشت کے وقت آپ نے اس دارِ فانی سے کوچ کیا ۔ اللہم صل وسلم دائماً أبداً، علیٰ حبیبک خیر الخلق کلہمٖ
https://afif.in/