شبِ براء ت کی فضیلت مسلَّم ہے
مولانا ندیم احمد انصاری
ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن ، انڈیا
شب براء ت اسلام میں ایک نہایت مبارک رات ہے،جس کی فضیلت بہت سی احادیث سے ثابت ہے۔جدید دور میں اس کے متعلق مسلمانوں کے مختلف طبقات پائے جاتے ہیں۔بعض لوگ سرے سے اس مبارک رات کی فضیلت ہی کے قائل نہیں اور بعض اسے شب قدر کے ہم پلہ شب سمجھتے ہیں۔لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں ہی موقف افراط وتفریط پر مبنی ہیں۔ شعبان کا مبارک مہینہ آتے ہی اوّل الذکر طبقہ لوگوں کو اس مبارک رات سے محروم کرنے کے حربے تلاش کرنے لگتا ہے ، اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس موضوع پر مختصراً روشنی ڈال دی جائے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں ہماری مدلل و مفصل کتاب ’’شب ِ محمود‘‘۔
شب ِ برا ء ت دولفظوں سے مرکب ہے:(۱)شب اور (۲)برا ء ت۔’’شب‘‘ فارسی زبان کا لفظ ہے ، جس کا مطلب ہے ’’رات‘‘ اور براء ت عربی زبان کا لفظ ہے، جس کا مطلب ہے ’’چھٹکارا‘‘۔ ( اللغات الکشوری، والقاموس الوحید)حدیث کے مطابق چونکہ اس رات میں بے شمار گنہگار وں کی مغفرت اور مجرموں کی بخشش ہوتی ہے اور عذاب ِجہنم سے چھٹکارا اور نجات ملتی ہے، اس لئے عرف میں اس رات کا نام ’’ شبِ براء ت‘‘ مشہور ہوگیا۔ البتہ! حدیث شریف میں اس رات کا کوئی مخصوص نام نہیںآیا، بلکہ لیلۃ النصف من شعبان یعنی شعبان کی درمیانی شب کہہ کر اس کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔ (الفضائل والاحکام للشھور والایام)
اللہ سبحانہ وتقدس کا ارشاد ہے: حٰمٓ، وَالْکِتَاب الْمُبِیْنِ، إنَّا أنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ إنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَ، فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ أمْرٍحَکِیْمٍ أمْراًمِنْ عِنْدِنَا إنَّاکُنَّا مُرْسِلِیْنَ۔ (سورۃ الدخان)ترجمہ: قسم ہے اس کتابِ واضح کی ۔ہم نے اس کو اتارا،ایک برکت والی رات میں ، ہم ہیں کہہ سنانے والے۔ اسی میںجداہوتاہے ، ہرکام جانچاہوا، حَکَم ہو کر ہمارے پاس سے ۔ ہم ہیں بھیجنے والے۔ (ترجمہ حضرت مولانا محمود الحسن ؒ)
حٰمٓ (اس کے معنی اللہ ہی کومعلوم ہیں) قسم ہے اس کتابِ واضح (یعنی قرآن )کی کہ ہم نے اس کو (لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا پر) ایک برکت والی رات (یعنی شبِ قدر) میں اتارا ہے، (کیوں کہ) ہم (بوجہ شفقت کے اپنے ارادہ میں بندوں کو) آگاہ کرنے والے تھے۔ (یعنی ہم کو یہ منظور ہوا کہ ان کو مضرتوں سے بچانے کے لئے خیروشر پر مطلع کردیں۔ یہ قرآن کو نازل کرنے کا مقصد تھا، آگے اس شب کے برکات ومنا فع کابیان ہے کہ) اس رات میں ہر حکمت والا معاملہ ہماری پیشی سے حکَم (صادر) ہو کر طے کیا جاتا ہے۔ (یعنی سال بھر کے معاملات جو سارے کے سارے حکمت پر مبنی ہوتے ہیں، جس طرح انجام دینے اللہ کو منظور ہوتے ہیں، اس طریقے کو متعین کرکے ان کی اطلاع متعلقہ فرشتوں کو کرکے ان کے سپر د کردئے جاتے ہیں۔ چونکہ وہ رات ایسی ہے، اور نزول قرآن سب سے زیادہ حکمت والاکام تھا، اس کے لئے بھی یہی رات منتخب کی گئی۔ (معارف القرآن)
’’لیلۃ مبارکہ‘‘ سے مراد جمہور مفسرین کے نزدیک شب قدر ہے، جو رمضان المبارک میں ہے، اور سورۂ قدر میں اس کی تصریح ہے: انا انزلناہ فی لیلۃ القدر (گلدستہ تفاسیر،درس ترمذی)روح المعانی میں ہے : (انا انزلناہ )أی الکتاب المبین الذی ھو القرآن علی القول المعلول علیہ (فی لیلۃ مبارکۃ) ھی لیلۃ القدر علی ماروی عن ابن عباس، وقتادہ ، وابن جبیر ، ومجاہد ، وابن زید، والحسن، وعلیہ اکثرا لمفسرین، والظواہرمعھم،وقال عکرمۃ، و جماعۃ! ھی لیلۃ النصف من شعبان،وتسمی لیلۃ الرحمہ،واللیلۃ المبارکۃ والیلۃ الصک ولیلۃ البراءۃ۔ اور تفسیر المنیر میں ہے: ھی لیلۃ القدر، ابتدیٔ فیھا انزال القرآن ، أوأنزل فیھا جملۃ الی سماء الدنیا من اللوح المحفوظ۔
معلوم ہوا کہ جمہور مفسرین کے نزدیک اس رات (جس کا مذکورہ آیتوں میں بیان ہوا)شب قدر ہی ہے، البتہ عکرمہ ؒ اور مفسرین کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ لیلۃ مبارکۃ سے مراد’شب براء ت ‘ ہے ، جیسا کہ فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ سے معلوم ہوتاہے۔ چنانچہ اس تفسیر پر اس آیت سے ماہِ شعبان کی پندرہویں رات کی خصوصیت سے بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ان اقوال کی تطبیق اس طرح ممکن ہے کہ یہاں نزول قرآنی سے مراد حقیقۃً نزولِ قرآنی نہیں بلکہ نزول کا فیصلہ مرادہے کہ ا س مبارک رات میںہم نے قرآن کو نازل کرنے کا فیصلہ کردیا تھا، پھر نزولِ حقیقی شبِ قدر میں ہوا۔شبِ براء ت میں امورِ محکمہ کے فیصلہ ہوا کرتے ہیں ، اس لئے ظاہرہے کہ شبِ براء ت میں اس کا بھی فیصلہ کیاگیا ہوگا، کیوں کہ قرآن شریف کے نازل کرنے سے بڑا امر محکم اور کون سا ہو سکتاہے ؟ یعنی شبِ براء ت میں حکم ہواکہ اس دفعہ رمضان میں جو شبِ قدر آئے گی اس میں قرآن نازل کیا جائے گا، پھر شبِ قدر میں اس کا وقوع ہوگیا، کیوں کہ عادۃً ہر فیصلہ کے دو مرتبے ہوتے ہیں ، ایک تجویز دوسرا نفاذ۔یہاں بھی دومرتبے ہو سکتے ہیں کہ تجویز تو شبِ براء ت میں ہوئی اور نفاذ لیلۃ القدر میں ہوا۔ (مستفاد من بیان القرآن،اشرف التفاسیر) واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔المختصر! مذکورہ آیت میں لیلۃ مبارکہ سے مراد جو بھی ہو، لیکن احادیث سے تواس رات کا مبارک ومحمود ہونا ثابت ہوتاہی ہے، جیسا کہ آگے آرہاہے۔
شام کے تابعی مثلاًخالدبن سعدان ؒ ،مکحولؒ اورلقمان بن عامرؒ وغیرہ اس رات کی بہت تعظیم کرتے تھے اور اس رات میں عبادت کی بہت کوششیں کرتے تھے۔ (مجالس الابرار)امام ابن تیمیہ علیہ الرحمہ بھی اس رات کی فضیلت کے قائل ہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)مشہور اہلِ حدیث عالم مولانا عبد الرحمن مبارکپوریؒفرماتے ہیں کہ’’شبِ براء ت کے سلسلے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں،ان سب کے مجموعے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس رات کی فضیلت احادیث سے ثابت ہے…یہ احادیث مجموعی طور پران لوگوں کے خلاف حجت و دلیل ہیں،جن کا یہ خیال ہے کہ اس رات کی فضیلت شریعت میں ثابت نہیں۔‘‘(تحفۃ الأحوذی)اورشیخ ناصر الدین البانیؒفرماتے ہیں:’’شبِ براء ت سے متعلق احادیث ، صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت سے مختلف طرق سے مروی ہیں،جن کی سند میں گو کہ اختلاف ہے،لیکن ان روایات کا مجموعہ بلا شبہ صحیح ہے۔صحت تو اس سے کم میں بھی ثابت ہو جاتی ہے۔جب روایات مختلف طرق سے وارد ہوں، توان کا شدتِ ضعف بھی کم ہو جاتا ہے ،جیسا کہ اس سلسلہ میں وارد روایات کا حال ہے۔ جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ شبِ براء ت سے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں،ان پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے۔اگر کوئی یہ بات کہتا ہے تویہ اس کی جلدبازی کا نتیجہ ہے،اس نے احادیث کے طرق کی جستجو نہیں کی ہے۔‘‘(سلسلۃ الأحادیث الصحیحہ)
(۱)حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ اللہ سبحانہ وتقدس، شعبان کی پندرہویں رات (یعنی چودہ اور پندرہ شعبان کی درمیانی رات )میں اپنی تمام مخلوق پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں ، پس سب کی مغفرت فر مادیتے ہیں، سوائے مشرک اورکینہ رکھنے والے کے ۔‘‘(أخرجہ ابن حبان فی صحیحہ، والمنذری فی الترغیب والترھیب)
(۲)حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات میںا پنی مخلوق کی طرف خصوصی توجہ فرماتے ہیں اور اپنے بندوں کی مغفرت فرما دیتے ہیں ، سوائے دو کے، اور وہ دویہ ہیں؛ (۱)کینہ رکھنے والا اور(۲)ناحق کسی کا قتل کرنے والا۔‘‘ (رواہ احمد فی مسند ہ،وأخرجہ المنذری فی الترغیب والترہیب، والھیثمی فی المجمع، وقال : وفیہ ابن لھیعۃ وھو لین الحدیث، وبقیۃ رجالہ وثقوا)
(۳)بیہقی نے صدیقہ بنت صدیق حضرت عائشہ رضی للہ عنہا سے نقل کیاہے کہ رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا : ’’میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے، پس انہوں نے فرمایا: یہ شعبان کی پندرہویںتاریخ ہے، اس میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ قبیلۂ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر لوگوں کو جہنم کی آگ سے آزاد فرماتے ہیں، لیکن مشرک، کینہ رکھنے والے، رشتہ توڑنے والے، ازار(تہبند پاجامہ یا پینٹ وغیرہ )کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے ، والدین کی نافرمانی کرنے والے اور شراب کی عادت رکھنے والے کی طرف نظر (کرم)نہیں فرماتے۔‘‘ (شعب الا یمان للبیھیقی، الترغیب والترہیب للمنذری)
(۴) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ، وہ فرماتی ہیں :’’ رسول اللہ ﷺرات میں نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور آپ نے اس نماز میں اتناطویل سجدہ کیا کہ مجھے اندیشہ لاحق ہواکہ شاید آپ کا وصال ہوگیا، یہ خیال آیا تو میں نے اٹھ کر آپ کے پائوں کے انگوٹھے کو ہلایا تو اس میں حرکت ہوئی ، تب مجھے اطمینا ن ہوا اور میں اپنی جگہ لوٹ آئی ۔میں نے آپ کو سجدہ میں یہ دعا کرتے ہوئے سنا:أعُوْذُبِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ ، وَأعُوْذُ بِکَ مِنْکَ إلَیْکَ ، لآ أُحْصِیْ ثَنَائً عَلَیْکَ کَمَاأَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ(ترجمہ) اے اللہ!میں آپ کی پکڑ سے آپ کی درگزر کی پناہ مانگتاہوں ، اور آپ کی ناراضگی سے آپ کی رضا کی پناہ مانگتاہوں ، اور آپ سے آپ ہی کی پناہ مانگتاہوں، میں آپ کی مکمل حمد وثناء نہیں کرسکتا ، آپ کی شان تو وہی ہے جو خود آپ نے بیان فرمائی ہے۔پھر آپﷺ نے جب سجدے سے سر اٹھایااور نمازسے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا : اے عائشہ !یا فرمایا: اے حمیرا !کیا تم نے خیال کیا تھا کہ نبی نے تمہارے ساتھ بے وفائی کی؟ میں نے عرض کیا: نہیں اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول ، مجھے تو آپ کے طویل سجدے کو دیکھ کر اندیشہ ہواتھا کہ شاید آپ کا وصال ہوگیا۔ آپ نے فرمایا : تمہیں معلوم ہے ، یہ کو ن سی رات ہے ؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا : یہ شعبان کی پندرھویںرات ہے، اس رات میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر خصوصی توجہ فرماتے ہیں، مغفرت چاہنے والوں کی مغفرت فرمادیتے ہیں،رحم وکرم مانگنے والوں پر رحم فرماتے ہیں اور کینہ پروروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ (أخرجہ البیھقی فی شعب الایمان، وقال:ہذا مرسل جید، یعنی:أن العلاء لم یسمع من عائشۃ ، واللہ سبحانہ أعلم،وأوردہ المنذری ایضاً فی الترغیب والترہیب)
(۵)حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا :’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہوتواس میں قیام کرو،اور اس کے دن میں روزہ رکھو ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میں غروبِ آفتاب ہی سے آسمان ِدنیا پر( اپنی شان کے موافق )نزول فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں : ’’ہے کوئی مغفرت طلب کرنے والا کہ میں اس کی مغفرت کردوں ؟ ہے کوئی رزق طلب کرنے والا کہ میں اس کو روزی دوں؟ ہے کوئی مصیبت میں مبتلاکہ میں اس کو عافیت دوں ؟ اسی طرح اور بھی ندائیں جاری رہتی ہیں ، یہاں تک کہ صبح صادق ہو۔‘‘ (رواہ ابن ماجہ، والترغیب والترہیب)
مذکورہ بالا پانچوں روایتیں علامہ زکی الدین عبدالعظیم بن عبد القوی المنذری علیہ الرحمہ نے اپنی مشہور کتاب ’’الترغیب و الترہیب من الحدیث الشریف‘‘ میں ذکر کی ہیں۔ علامہ موصوف نے حدیث کے نقل کرنے میں اور اس کی حیثیت متعین کرنے میں کچھ خاص اصطلاحیں مقرر فرمائی ہیں ، جن سے اندازہ ہوتاہے کہ کون سی روایت کس درجہ کی ہے، پھر بعد میںکہیں کہیں وہ اجمالاً کلام بھی فرماتے ہیں،انہوں نے اپنی اصطلاحوں کو مقدمہ میں ذکر کیاہے: ’’فرماتے ہیں کہ اگر حدیث کی سند صحیح یا حسن ہوگی ،یا ان دونوں کے قریب ہوگی توا س حدیث کا آغاز لفظ ’عن ‘سے کرو ں گا اور یہی طریقہ اس وقت بھی ہوگا جب کہ حدیث مرسل ہوگی ، یا منقطع ہوگی، یامعضل ہوگی یااس کی سند میںکوئی راوی مبہم ہوگا، یاایسا ضعیف ہوگا ، جس کی کسی نے توثیق کی ہو ، یا ثقہ ہوگا، جس کی کسی نے تضعیف کی ہو اور سند کے باقی راوی ثقہ ہوں، یا اگر ان میں کوئی کلام ہو تو مضرنہ ہو،یا کوئی حدیث مرفوعاً روایت کی گئی ہو، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ موقوف ہے،یا متصلاً روایت کی گئی ہو، لیکن اس کاارسال صحیح ہو، یا اس کی سند میں کوئی ضعیف راوی ہو لیکن جن لوگوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہو، ان میں سے کسی نے اس کی تصحیح یا تحسین کی ہو تو ایسی سب روایتوں کوبھی لفظِ ’عن‘ سے شروع کروں گا، پھر اس کے ارسال، انقطاع یا اس مختلف فیہ راوی کی جانب اشارہ کروںگا۔ ‘‘
معلوم ہوا کہ جوروایت الترغیب والترھیب میںلفظ ’عن‘ سے شروع ہورہی ہیں ، وہ بالکل ساقط الاعتبار نہیں، گوکہ ضعیف سند رکھتی ہو،مگر کسی نہ کسی درجہ میں قابل اعتبار ہے۔ پھر آگے فرماتے ہیں کہ اگر روایت موضوع ہوگی، یا بہت ضعیف ہوگی ، یا ایسی روایت ہوگی جس میں حسن ہونے کا سرے سے احتمال ہی نہ ہو، اسے لفظِ ’روی‘ سے شروع کروں گا اوراس کے ناقابلِ توثیق راوی پرکوئی کلام نہ کروں گا۔ گویا سند ضیعف کی یہی دو علامتیں ہیں ، ایک تو رُوِ ی َ سے شروع کرنا، دوسری سند پر کوئی کلام نہ کرنا۔جہاںدونوں باتیں پائی جائیں تو وہ روایت مطلقا ً ضعیف سمجھی جائے گی ۔
ان اصولو ںکو سامنے رکھ کر مذکورہ احادیث کا مطالعہ کرنے سے ثابت ہوتاہے: پہلی روایت کے سب رجال ثقہ اور معتبر ہیں۔ دوسری روایت میں ابن لہیعہ ایک راوی ہیں،جن میں قدرے کمزوری ہے۔ تیسری روایت سنداً ضعیف ہے۔ چوتھی روایت مرسل ہے، لیکن بقول امام بیہقی جید مرسل ہے ۔ پانچوی روایت بھی ضعیف ہے لیکن موضوع نہیں ۔ اس روایت کو ابن ماجہ کے علاوہ بیہقی کی شعب الایمان، تبریزی کی مشکاۃ المصابیح، منذری کی الترغیب والترہیب، آلوسی کی روح المعانی اور شر نبلا لی کی مراقی الفلاح وغیرہ میں بھی ذکر کیاگیاہے ۔
ھذاحدیث ضعیف،اخرجہ ابن ماجہ فی اقامۃ الصلاۃ، باب ماجاء لیلۃ النصف من شعبان : ۱۳۸۸، والبیھقی فی شعب الایمان بطریقین یقوی باحدہما الاخر:۳۸۲۲،۳۸۲۳،غیران فی طریق قال بدل ، المبتلی ، الامن سائل فاعطیہ ، الاکذا، حتی یطلع الفجر، وفی طریق آخرقال: عن محمدبن عبد اللہ بن جعفر عن ابیہ ولم یذکر علیاً، واوردہ الخطیب ایضافی مشکوۃ المصابیح: ۱؍۱۱۵، والمنذری فی الترغیب والترہیب، رقم:۱۵۲۱۔
حاصل کلام یہ کہ شبِ براء ت والی مذکورہ تمام احادیث مجموعی لحاظ سے بلا شک صحیح ہیں، ان کی صحت میں کوئی شبہ نہیں ۔ صحت تو اس سے کم تعداد میں ثابت ہوجاتی ہے ، جبکہ وہ ضعفِ شدیدسے خالی ہوں، جیساکہ زیر بحث حدیث ضعف (شدید) سے خالی ہے اور یہ بھی ذہن نشین رہناچاہئے کہ امت کاکسی کام پر تعامل، جسے ہرزمانے میں علماء نے بغیر کسی انکارکے اختیار کیاہو، اس پر ان کا عمل رہاہو، تویہ خو دایک دلیل اس کے صحیح اور قوی ہونے کی ہے، اگر اس عمل کے لئے کوئی صحیح حدیث نہ ہواور ضعیف حدیث ہو بشرطیکہ موضوع نہ ہو، تو وہ حدیث اس تعامل کی وجہ سے قوی ہوجاتی ہے ۔ دوسرے یہ کہ اگرکوئی ضعیف حدیث جب متعدد طرق سے مروی ہو، یااس کا مضمون متعدد حدیثوں میں ثابت ہو تو کبھی وہ حسن کے درجے میں آجاتی ہے اور کبھی وہ روایت تو نہیں مگر اس کا مضمون درست قرار دیا جاتاہے اور اتنی بات تو ضرور ثا بت ہو جاتی ہے کہ یہ مضمون بے اصل نہیںہے۔ تیسرے یہ کہ احکام میں ضعیف حدیث کو نظر انداز کیاجاتاہے، فضائل اور ترغیب وترہیب میںضعیف حدیث بشرطیکہ شدید الضعف نہ ہو، قبول کی جاتی ہے۔پھر بعض علماء کے نزدیک حدیث ضعیف سے نہ صرف یہ کہ عمل جائز ہوتاہے بلکہ استحباب بھی ثابت ہوجاتاہے، انہیں علماء میں امام نووی علیہ الرحمہ اور محقق ابن الہمام علیہ الرحمہ بھی ہیں اور امت کاعمل بھی اسی پر ہے۔امام نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’حضراتِ محدثین وفقہاء وغیرہ علماء نے فرمایاہے : فضائل اور ترغیب وترہیب میں ضعیف حدیث پر عمل کرناجائز بلکہ مستحب ہے ، بشرطیکہ وہ حدیث موضوع نہ ہو۔‘‘(کتاب الاذکارللنووی)اورمحقق ابن ھمام فرماتے ہیں:’’حدیث ضعیف سے استحبا ب ثابت ہوتاہے، نہ کہ موضوع سے‘‘ (فتح القدیر) اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہم سب کو دین کی سمجھ نصیب فرمائے اور اس مبارک رات کی قدردانی کی توفیق مرحمت فرمائے ، نیز اس رات کو ہمارے لیے جہنم سے چھٹکارے کا سبب بنائے۔
اللّٰہم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ ، وارنا الباطل باطلاً و ارزقنااجتنابہ