شبِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر، ندیم احمد انصاری
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے :
{لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ اَلْفِ شَہْرٍ}۔(القدر:٣)
یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
یہاں کئی باتیں سمجھنے کی ہیں؛
(۱)اس رات کو ایک ہزار مہینوں سے بہتر کیوں کہا ؟
ٍ جواب اس کا یہ ہے کہ عرب کے سالوں کی بنیاد محض قمری مہینوں پر ہے اور قمرکا تو رات سے تعلق ہے برخلاف شمسی مہینوں کے کہ ان کا مداردنوں پر ہے او ر قمر کواس تجلی سے نہایت مناسبت ہے ،یعنی جس طرح قمر اندھیری رات کو روشن کرتا ہے اسی طرح یہ تجلی دنیا ئے ظلمت کدہ کوجو کہ رات کے مشابہ ہے روشن کرتی ہے۔(مستفاد من الفتح المنان )
(۲)دوسری بات یہ کہ ’ہزار مہینوں سے بہتر‘ اس سے کیا مراد ہے ؟
جواب اس کا یہ کہ یہاں حصر مراد نہیںکہ ہزار ہی مہینوں سے بہتر ہے ،زائدہ ہی نہیں بلکہ لفظ ’ألف‘ یعنی ہزار سے کثرت مراد ہے، اس لیے کہ عرب میں اس سے اوپر کوئی عدد نہیں،اس سے زیادہ جو گنتی کرنی ہوتی ہے تو اسی عدد کے ساتھ اضافہ کرنے سے کرتے ہیں۔ (الفتح المنان)
(۳) تیسری بات یہ کہ اس رات کے ہزار مہینوں سے بہتر ہونے سے کیا بتانا مقصود ہے ؟
جواب اس کا یہ ہے کہ جو اس رات میں کوئی بھی عمل کرے وہ ایسی ایک ہزار رات سے بھی زیادہ بڑھ کرہے ،جس میں لیلۃ القدر نہ ہوخواہ نیکی ہو یا بدی۔اس تقریر سے دو باتیں معلوم ہوئیں اول یہ کہ اس رات میں نماز ، تلاوت اور صدقہ وغیرہ تمام نیکیاں ایک ہزار گنا سے بھی زیادہ ملتی ہیںاور اس زیادتی کی بھی کوئی حد مقرر نہیں،اللہ تعالیٰ کسی کے اخلاص کی بدولت جتنا چاہیں اسے بڑھا دیں،دوم یہ کہ اس مبارک رات میں گناہ سے بہت زیادہ اجتناب کی کوشش کرنی چاہیے ،ورنہ ایسا ہوگا جیسے ایک ہزار سال سے زیادہ کے عرصے تک اس گناہ میں ملوث رہا ہو۔(الدر المنثور)
کسی کے دل میں یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ یہاں ارشاد فرمایا گیا’ شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے ‘ اور ظاہر ہے کہ ان ایک ہزار مہینوں کے درمیان میں بھی ہر سال شب ِ قدر آئے گی ۔ تو پھر حساب کس طرح بنے گا ؟ تو ملاحظہ ہو حضرت مجاہد ؒ فرماتے ہیں : اس رات کا ہر نیک عمل ؛ اس (دن) کاروزہ ، اس رات کی نماز ؛ ایسے ایک ہزار مہینوں کے روزے و نماز سے افضل ہے، جن میں شب ِ قدر نہ ہو۔ مفسرین کا بھی یہی قول ہے، امام ابن جریرؒ نے بھی اسی کو پسند کیا ہے کہ اس سے مراد وہ ایک ہزار مہینے ہیں ، جن میں لیلۃ القدر نہ ہو ۔ یہی صحیح ہے ، اس کے علاوہ کوئی قول درست نہیں، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک رات کے جہاد کی تیاری ، اس کے علاوہ کی ایک ہزار راتوں سے افضل ہے ۔(تفسیر ابن کثیر)
اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا،بجز جناب سید ابو الاعلی مودودی صاحب کے؛وہ اپنی عجیب رائے دیتے ہوئے رقم طراز ہیں:
مفسرین نے بالعموم اس کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ اس رات کا عمل ِ خیر ہزار مہینوں کے عمل ِخیر سے افضل ہے،جس میں شبِ قدر نہ ہو۔اِ س میں شک نہیں کہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے اور رسول اللہ ﷺ نے اس رات کے عمل کی بڑی فضیلت بیان کی ہے،لیکن آیت کے الفاظ یہ نہیں ہیں کہ العمل فی لیلۃ القدر خیر من العمل فی ألف شہر(یعنی) شبِ قدر میں عمل کرنا ہزار مہینوں میں عمل کرنے سے بہتر ہےبلکہ فرمایا گیاہے کہ شبِ قدرہزار مہینوں سے بہترہے۔اور ہزار مہینوں سے مراد بھی گِنے ہوئے 83؍سال4؍مہینے نہیں،بلکہ اہلِ عرب کا قاعدہ تھا کہ بڑی کثیر تعداد کا تصور دلانے کے لیے وہ ہزار کا لفظ بولتے تھے۔اس لیے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اِس ایک رات میں خیر و بھلائی کا اتنا بڑا کام ہوا کہ کبھی انسانی تاریخ کے کسی طویل زمانے میں بھی ایسا کام نہ ہوا تھا۔(تفہیم القرآن)
اولاً تو معتبر مفسرین اور پھرمودودی صاحب کی یہ ذاتی رائے پڑھ کر قارئین خود ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ مودودی صاحب کا یہ نظریہ کس درجے وقیع ہے ؟ دوسرے یہ بات اس سورت کے سببِ شانِ نزول کے بھی خلاف معلوم ہوتی ہے۔نیز علامہ ابن کثیرعلیہ الرحمہ فرماتے ہیں:اس رات کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبات سے افضل ہے،جیسا کہ صحیحین کی روایات سے ثابت ہے۔(تفسیر ابن کثیر)