شوال میں چھے نفلی روزے
فضیلت، مسائل اور احکام
ندیم احمد انصاری
حج کا پہلا مہینہ
شوال المکرم ہی سے حج کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں، گویا حج کے مہینوں میں شوال المکرم، پہلا مبارک مہینہ ہے، جسے ’ماہِ فطر‘ بھی کہتے ہیں، اور یکم شوال المکرم کو عید کا دن، گناہوں کی مغفرت کا دن ہے، جیسا کہ حدیثِ انسؓ میں تصریح ہے کہ رمضان کے روزے وغیرہ سے فراغت پر عیدگاہ آنے والوں کو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کو گواہ بناکر مژدہ سناتے ہیں کہ ’بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جائو‘ الحدیث۔ شہر شریف من أوائل اشہر الحج ویسمی شہر الفطر وفیہ یوم العید یوم مغفرۃ الذنوب وقد ورد فی الحدیث عن انسؓ انہ إذا کان یوم العید الخ۔ (ما ثبت بالسنۃ)
ماہِ شوال میں عید الفطر اور صدقۃ الفطر کے علاوہ ستۂ شوال (شوال کے چھے روزے) صحیح احادیث سے ثابت ہیں، اور جمہور فقہاء کے نزدیک یہ روزے سنت ومستحب ہیں۔
شوال کے روزوں کی فضیلت وثواب
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے، تو یہ عمل ہمیشہ روزے رکھنے کی طرح ہے۔عن ابی أیوب الأنصاریؓ، انہ حدثہ أن رسول اللّٰہﷺ قال: من صام رمضان، ثم اتبعہ ستاً من شوال، کان کصیام الدہر۔ (مسلم)
یہ اس وجہ سے ہے کہ امت محمدیہ علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کو ہر ایک نیکی کا ثواب دس گنا بڑھا کر دیا جاتا ہے، اور ان روزوں کے متعلق تو صراحت ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص عید الفطر کے بعد چھ دن روزے رکھے، اس کو پورے سال روزے رکھنے کا ثواب ملے گا، (کیونکہ) جو ایک نیکی لائے، اس کو دس گنا اجر ملے گا۔ عن ثوبان مولی رسول اللّٰہ ﷺ عن رسول اللّٰہ ﷺ، انہ قال: من صام ستۃ أیام بعد الفطر کان تمام السنہ {مَنْ جَائَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ أمْثَالِہَا} (انعام: ۱۶۰) (ابن ماجۃ، الترغیب والترہیب للمنذری)
ایک ضعیف روایت میں تو یہاں تک ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے، وہ گناہوں سے اس طرح پاک وصاف ہوجاتا ہے، جیسا کہ اس دن تھا، جب کہ اس کی ماں نے اس کو جنا۔ عن ابن عمرؓ قال، قال رسول اللّٰہ ﷺ: من صام رمضان واتبعہ ستاً من شوال خرج من ذنوبہ کیوم ولدتہ امہ۔ (رواہ الطبرانی فی الأوسط، وفیہ مسلمۃ بن علی الخشنی، وہو الضیعف، مجمع الزوائد، الترغیب والترہیب)
شوال کے چھے روزوں کا حکم
فرض، واجب اور مسنون روزوں کے بعد تمام نفل روزے، جبکہ ان کے لیے کوئی کراہت ثابت نہ ہو، مستحب ہیں، لیکن بعض روزے ایسے ہیں کہ ان میں ثواب زیادہ ہے، منجملہ ان کے ستۂ شوال کے روزے بھی ہیں۔ (عمدۃ الفقہ)شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: اس مہینہ میں جو امر بصحت ثابت ہوا ہے، منجملہ ان کے چھ دن کے روزے بھی ہیں۔ ومما صح فی ہذا الشہر، صیام ستۃ أیام۔ (ما ثبت بالسنۃ)
یہ روزے کس طرح رکھے جائیں
علامہ جزیری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’ماہِ شوال کے چھ روزے، جس کے لیے کوئی شرط نہیں ہے، تین اماموں کے نزدیک مستحب ہیں، مالکیہ کو اس سے اختلاف ہے۔ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک بہتر یہ ہے کہ ان روزوں کو متواتر چھ دن رکھا جائے۔مالکیہ کہتے ہیں کہ درج ذیل صورتوں میں ستۂ شوال کے روزے مکروہ ہیں: (۱) اگر روزہ دار کوئی ایسا شخص ہو، جس کی لوگ پیروی کرتے ہوں اور یہ اندیشہ ہو کہ مبادا یہ روزے واجب سمجھے جانے لگیں گے۔ (۲) یا ان روزوں کو عید الفطر کے اگلے دن ہی سے رکھنا شروع کردے۔ (۳) یا لگاتار چھ روزے رکھے۔ (۴) یا ان روزوں کا اظہار کرے۔ ان باتوں میں سے کوئی بھی بات نہ پائی جائے تو یہ روزے مکروہ نہیں ہوں گے، البتہ اگر یہ عقیدہ رکھا جائے کہ ان روزوں کا عید سے متصل رکھنا سنت ہے، تو یہ روزے مکروہ ہوں گے، اگرچہ روزے ظاہر نہ کیے گئے ہوں، اور متفرق طور پر ہی رکھے گئے ہوں۔حنفیہ کہتے ہیں: مستحب یہ ہے کہ یہ روزے متفرق دنوں میں ہوں، مثلاً: ہر ہفتہ میں دو دن۔یندب صوم ستۃ من شوال مطلقاً بدون شروط عند الأئمۃ الثلاثۃ، وخالف المالکیۃ، والأفضل أن یصومہا متتابعۃ بدون فاصل عند الشافعیۃ والحنابلۃ۔ المالکیۃ قالوا: یکرہ ستۃ أیام من شوال بشروط: (۱) أن یکون الصائم فمن یقتدی بہ، أو یخالف علیہ أن یعتقد وجوبہا۔ (۲) أن یصومہا متصلۃ یوم الفطر۔ (۳) أن یصومہا متتابعۃ۔ (۴) أن یظہر صومہا، فإن النفی شرط من ہذہ الشروط، فلا یکرہ صومہا، إلا إذا اعتقد أن وصلتہا بیوم العید سنۃ، فیکرہ صومہا، ولو لم یظہرہا، أو صامہا متفرقۃ۔ الحنفیۃ قالوا: تستحب أن تکون متفرقۃ فی کل أسبوع یومان۔ (الفقہ علی مذاہب الأربعۃ)
عالمگیری میں بھی احناف کا یہی قول لکھا ہے کہ یہ چھ روزے جدا جدا ہر ہفتہ میں دو دن مستحب ہیں۔ وتستحب الستۃ متفرقۃ کل أسبوع یومان کذا فی الظہیریۃ۔ (ہندیہ)علامہ شامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ’’صاحب ہدایہ نے اپنی کتاب ’تجنیس‘ میں لکھا ہے کہ عید الفطر کے بعد شوال کے چھ روزے لگاتار رکھنے کو بعض فقہاء نے مکروہ قرار دیا ہے، لیکن مختار قول یہ ہے کہ یہ چھ روزے لگاتار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حسن بن زیادؒ سے بھی منقول ہے کہ شوال کے چھ روزے لگاتار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، اس کے اور رمضان کے درمیان عید الفطر کے دن کا فصل کرنا کافی ہے۔ ’حقائق‘میں ہے کہ امام مالکؒ کے نزدیک عید الفطر کے دن کے بعد متصلاً شوال کے روزے رکھنا مکروہ ہے، ہمارے (احناف کے) نزدیک مکروہ نہیں ہے۔ فی الشامیۃ: قال صاحب الہدایۃ فی کتابہ التجنیس: إن الصوم الستۃ بعد الفطر متتابعۃ، منہم من کرہہ، والمختار أنہ لا بأس الخ، وفی الغایۃ، عن الحسن بن زیاد أنہ کان لا یری بصومہا بأساً، ویقول: کفی بیوم الفطر مفرقاً بینہن وبین رمضان، اہ۔ وفی الحقائق: صومہا متصلاً بیوم الفطر یکرہ عند مالک وعندنا لا یکرہ الخ۔ (شامی)تفصیل کے ملاحظہ فرمائیں: فتح الملہم، بذل المجہود، طیبی، مرقاۃ المفاتیح، نیل الأوطار، سبل السلام)
اختلاف کی وجہ
پہلی بات تو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ ستۂ شوال کے روزوں میں یہ جو اختلاف ہوا ہے، وہ صرف افضل وغیر افضل کی حد تک ہے۔ بعض کے نزدیک مسلسل رکھنا افضل ہے اور بعض کے نزدیک متفرق۔ کذا فی التاتارخانیۃ: صوم ست من شوال مکروہ عند أبی حنیفۃ متفرقاً کان أو متابعاً، وقال أبویوسف: کانوا یکرہون أن یتبعوا رمضان صیام ماخوما من أن یلحق بالفریضۃ– وذکر شمس الأئمۃ الحلوانی: أن الکراہۃ فی المتصل برمضان، أما إذا أکل بعد العید أیاماً، ثم صام لا یکرہ بلا یستحب، قال الحاکم الشہید فی المنتقی: وجدت عن الحسن أنہ کان لا یری بصوم ستۃ أیام متتابعاً بعد الفطر بأساً وکان یقول: کفی بیوم الفطر مفرقاً بینہن وبین شہر رمضان، وعامۃ المتأخرین رحمہم اللّٰہ لم یروا بہ بأساً، واختلفوا فیما بینہم أن الأفضل ہو التفرق أو التتابع، وفی الذخیرۃ: قال بعضہم: الأفضل فیہ التتابع، وقال بعضہم: الأفضل فیہ التفرق۔ (التاتارخانیۃ)
یہ بھی خیال رہے کہ یہ کراہت بقول مولانا ظفر احمد عثمانی علیہ الرحمہ سوئِ عقیدہ کے احتمال پر محمول ہے کہ تسلسل کی صورت میں اسے فرائض میں گمان کیا جائے گا۔ فی کتابہ: قلت: الکراہۃمحمولۃ علی احتمال سواء العقیدۃ، لئلا یظن أنہا من الفرائض لاتصالہا برمضان۔
بریلوی حضرات کا فرمان
بریلوی حضرات کے نزدیک بھی یہی راجح ہے کہ بہتر یہ ہے کہ یہ روزے متفرق رکھے جائیں اور (اگر) عید کے بعد لگاتار چھے دن میں ایک ساتھ رکھ لیے جائیں، تب بھی (کوئی) جرح نہیں۔ (بہارِ شریعت، قانونِ شریعت)
شیخ صالح بن عثیمنؒ کا قول
شیخ صالح بن عثیمنؒ فرماتے ہیں کہ افضل یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے عید کے فوراً بعد شروع کردیے جائیں اور مسلسل رکھے جائیں، جیسا کہ اہل علم نے فرمایا ہے، کیونکہ اتباع پر عمل کی بہترین صورت یہی ہے، جس حدیث میں اس طرح ذکر کیا گیا ہے ’’ثم اتبعہ ستاً‘‘ پھر اس کے بعد اس نے چھ روزے رکھے۔اور پھر نیکی کی طرف سبقت کی صورت بھی یہی ہے، جس کی نصوصِ شریعت میں ترغیب دی گئی ہے اور جس کے سر انجام دینے والے کی ستائش کی گئی ہے۔ حزم واحتیاط کا بھی یہی تقاضا ہے، جو کمالِ عبدیت ہے۔ انسان کو فرصت کے لمحات میسر آئیں تو انہیں ضائع نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ معلوم نہیں کہ اس انسان کو کس طرح کے حالات پیش آئیں، لہٰذا فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے فوراً نیکی کے کام کرنے چاہئیں اور تمام امور ومعاملات میں انسان کو یہی طرزِ عمل اختیار کرنا چاہیے، بشرط یہ کہ وہ نیک اور صالح امور ہوں۔ (فتاویٰ ارکانِ اسلام)
شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ کا فرمان
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: ’’جس طرح مسلم کی روایت میں ’’واتبعہ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کی روایت وارد ہوئی ہے، اسی طرح اس مضمون میں ثوباتؓ کی روایت بھی آئی ہے، جسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ (یہ دونوں روایت ستۂ شوال کی فضیلت کے زیر عنوان ذکر کردی گئی ہیں) اور ابن ماجہ کی روایت میں ’’ثم اتبعہ‘‘ کی جگہ ’’فاتبعہ‘‘ فاء سے ہے اور اس سے تعقیبِ حقیق مراد نہیں ہے، کیونکہ اس میں عید کے دن کا روزہ لازم آتا ہے، پس اول ماہ میں یا اس کے بعد (پورے مہینے میں کبھی) بھی (یہ روزے رکھنا) درست ہے۔ وقد ورد فی ہذا المعنی ایضاً حدیث ثوبان، رواہ ابن ماجۃ، وفی روایتہ: فاتبعہ بالفاء، ولیس المراد التعقیب الحقیقی لاستلزامہ صوم یوم العید، فیصح من أول الشہر وبعدہ۔ (ما ثبت بالسنۃ)
دو ٹوک فیصلہ
اسی لیے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ماہِ شوال میں چھ دن نفل روزہ رکھنے کی فضیلت دوسرے نفل روزوں سے بہت زیادہ ہے، ان کو شش عید کے روزے بھی کہتے ہیں۔ لیکن اس میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ان کو عید کے اگلے دن سے شروع کردے، تب تو وہ ثواب ملتا ہے ورنہ نہیں— تو یہ خیال غلط ہے۔ بلکہ اگر مہینہ بھر میں ان کو پورا کرلیا تو ثواب ملے گا، خواہ عید کے اگلے ہی دن شروع کرے یا بعد کو شروع کرے اور خواہ لگاتار رکھے یا متفرق طور پر۔ (زوال السنۃ)
ستۂ شوال میں قضا کی نیت کا مسئلہ
بعض لوگ ان چھ روزوں میں اپنے قضاء کے روزوں کو محسوب کرلیتے ہیں کہ شش عید کے روزے بھی ہوجائیں گے، اور قضاء بھی ادا ہوجائے گی۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ ان روزوں میں قضاء کی نیت کرنے سے شش عید کی فضیلت حاصل نہ ہوگی، البتہ قضاء کے روزے ادا ہوجائیں گے— اس لیے کہ یہ قواعد کے خلاف ہے۔ (زوال السنۃ)لیکن سیدی و مرشدی حضرت مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم کے فتاویٰ میں مرقوم ہے کہ بعض فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے۔ فی فتح القدیر: صام فی یوم عرفۃ مثل قضاء، أو نذر أو کفارۃ و نویٰ معہ الصوم عن یوم عرفۃ، أفتی بعضھم بالصحۃ و الحصول عنھا۔ اھ (حموی شرح الاشباہ والنظائر)احتیاط اسی میں ہے کہ قضاء کی مستقل نیت کریں۔(محمودالفتاویٰ)