صحت و فراغت ایسی نعمتیں ہیں جن کی اکثر لوگ قدر نہیں کرتے

مفتی ندیم احمد انصاری

آج ہر انسان کو وقت کی تنگ دامانی کی شکایت ہے، ایسا لگتا ہے کہ پہلے دن رات میں چوبیس گھنٹے ہوتے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے اس میں کٹوتی کر دی ہے۔ اگر ایسا نہیں اور یقیناً ایسا نہیں ہے تو پھر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم ایسے کون سے کام کرتے ہیں کہ ہمیں وقت کا دامن اس قدر تنگ نظر آنے لگا ہے۔ اللہ کی عبادت کے لیے وقت ہمارے پاس نہیں، رشتےداروں سے ملاقات کے لیے وقت ہمارے پاس نہیں، والدین اور بیوی بچّوں کو وقت ہم نہیں دیتے، دوست و احباب کے ساتھ بیٹھنے کی فرصت ہمارے پاس نہیں،دیگر مخلوقات کے لیے تو ہمارے پاس کوئی وقت ہے ہی نہیں، کُل ملا کر یہ کہ صبح اٹھنے سے لے کر رات کو سونے تک ہم انتہائی مصروف رہتے ہیں اس کے باوجود ہم اپنے فرائضِ منصبی بھی پورے کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمیں اپنے کام کاج، ٹریفک اور بِزی لائف کی شکایت تو ہے، لیکن اپنا محاسبہ کرنے کی فرصت نہیں۔ آج کے زمانے میں تقریباً ہر آدمی اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ موبائل، انٹرنیٹ اور سوشل سائٹوں کی سرفنگ کی نذر کر رہا ہے۔ رِیَل (real) لائف سے بےخبر ہو کررِیْل (reel) بنانے اور دیکھنے میں وقت گزاری اس دور کا عظیم فتنہ ہے۔

اکثر لوگ دھوکے میں ہیں

مشہور حدیث ہے،حضرت ابن عباسؓنے بیان کیا: حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ ان میں دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں: (۱) صحت اور (۲)فراغت۔عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ:‏‏‏‏ “نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ:‏‏‏‏ الصِّحَّةُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْفَرَاغُ”.[بخاری، ترمذی، ابن ماجہ] کبھی انسان صحت مندہوتا ہے مگر مصروف ہوتا ہے اور کبھی فارغ ہوتا ہے مگر صحت مند نہیں ہوتا، ان دونوں نعمتوں کا ایک ساتھ ملنا بہت ہی عظیم نعمت ہے۔اس حدیث میں ان لوگوں پر افسوس کیا گیا ہے جو ان نعمتوں سے کماحقہ فایدہ نہیں اٹھاتے،پھر جب مصروفیت بڑھ جاتی ہے یا جب ان کی صحت خراب ہوجاتی ہے تو تفکرات کو سر پر سوار کر لیتے ہیں۔

مغبونٌ کا مطلب

مذکورہ بالا حدیث میں ’مغبون‘ کا لفظ استعمال کیا گیا، جو غبن سے مشتق ہے۔ ’غبن‘کا مطلب ہے: ’اپنی چیز مناسب قیمت سے بہت کم قیمت پر بیچ دینا یا کوئی چیز مناسب قیمت سے بہت زیادہ قیمت پر خرید لینا‘۔ایسا دھوکا وہی کھاتا ہے جسے اپنی چیز کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں ہوتا یا دوسرے کی چیز کی ظاہری چمک دمک سے متاثر ہوجاتا ہے۔وقت اور صحت کو کام میں لا کر انسان بہت سے وہ کام کرسکتا ہے جو مشغولی اور بیماری میں ہرگز نہیں کرسکتا، لیکن غفلت کاشکار ہو کر ہم یہ موقع ضایع کردیتے ہیں۔ہم عام طور پر کہہ کر اپنا دامن بچا لیتے ہیں کہ فلاں کام یا فلاں نیکی میں اس لیے نہیں کرسکتا کہ میرے پاس وقت نہیں ہے، جب کہ ہم اپنا بہت سا وقت کھیل کود، لہو ولعب، ہنسی مذاق، بلکہ غیبت و خرافات میں گزار رہے ہوتے ہیں۔

قیامت کے دن جواب دینا ہوگا

حضرت ابن مسعود ؓ کہتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن کسی شخص کے قدم اللہ رب العزت کے پاس سے اس وقت تک ہٹ نہیں سکیں گے جب تک اس سے پانچ چیزوں کے متعلق نہ پوچھ لیا جائے: (۱)عمر کس چیز میں صَرف کی (۲)جوانی کہاں خرچ کی (۳) مال کہاں سے کمایا (۴) مال کہاں خرچ کیا (۵) جو کچھ سیکھا اس پر کتنا عمل کیا؟عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ:‏‏‏‏ “لَا تَزُولُ قَدَمَا ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ:‏‏‏‏ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ “. [ترمذی] اس حدیث کے مطابق عمر کے بارےمیں سوال کیے جانے کے بعد جوانی کے متعلق مستقل سوال ہوگا، جب کہ وہ عمر ہی کا حصہ ہے۔ بات یہ ہے کہ جوانی زندگی کا سب سے اہم حصہ ہے، اس لیے اسے بہت سوچ سمجھ کر خرچ کرنا چاہیے۔

جسم کو کہاں کھپایا؟

ترمذی شریف میں مذکورہ بالا مشہور حدیث کے بعد جو حدیث ہے اس میں جسم کے متعلق بھی سوال مذکور ہے؛ حضرت ابوبرزہ اسلمیؓکہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : قیامت کے دن کسی بندے کے پاؤں نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے یہ نہ پوچھ لیا جائے : (۱)عمر کے بارے میں کہ اسے کن کاموں میں ختم کیا (۲)علم کے بارے میں کہ اس پر کیا عمل کیا (۳،۴)مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا (۵)جسم کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا ؟ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ ” لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ عِلْمِهِ فِيمَ فَعَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ “. [ترمذی]

پہلے ان نعمتوں کا سوال ہوگا

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے جن نعمتوں کے متعلق پوچھا جائےگا وہ یہ ہیں: (۱)کیا ہم نے تیرے جسم کو صحت عطا نہیں کی تھی(۲) کیا ہم نے تجھے ٹھنڈے پانی سے سیر نہیں کیا تھا۔عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَرْزَمٍ الْأَشْعَرِيِّ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:‏‏‏‏ ” إِنَّ أَوَّلَ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَعْنِي الْعَبْدَ مِنَ النَّعِيمِ أَنْ يُقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ أَلَمْ نُصِحَّ لَكَ جِسْمَكَ وَنُرْوِيَكَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ “.[ترمذی]

پانچ چیزوں کو غنیمت سمجھو

اس لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے، بالخصوص صحت و فراغت، نیز ہمیں نیکیوں میں سبقت کرنی چاہیے اور وقت اور صحت کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔حضرت عمرو بن میمونؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک شخص سے فرمایا : پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو : (۱)زندگی کو موت سے پہلے (۲)فراغت کو مشغولیت سے پہلے(۳)مال داری کو فقر سے پہلے (۴)جوانی کو بڑھاپے سے پہلے (۵)صحت کوبیماری سے پہلے۔ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَیْمُونٍ ، أَنَّ النَّبِیَّ ﷺ، قَالَ لِرَجُلٍ : اغْتَنِمْ خَمْسًا قَبْلَ خَمْسٍ: حَیَاتَکَ قَبْلَ مَوْتِکَ، وَفَرَاغَک قَبْلَ شَغْلِکَ، وَغِنَاک قَبْلَ فَقْرِکَ، وَشَبَابَک قَبْلَ ھَرَمِکَ، وَصِحَّتَکَ قَبْلَ سَقَمِک.[مصنف ابن ابی شیبہ]

مومن دنیا میں کیسے رہے؟

حضرت عبداللہ بن عمر ؓنے بیان کیا: رسول اللہ ﷺ نے میرا شانہ پکڑ کر ارشاد فرمایا :دنیا میں اس طرح رہو گویا مسافر ہو یا رستہ چلنے والے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرمایا کرتے تھے : شام ہوجائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح ہوجائے تو شام کا انتظار نہ کرو۔ تن درستی کی حالت میں وہ عمل کرو جو بیماری کے دنوں میں کام آئیں اور زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِمَنْكِبِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ “كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ”، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الصَّبَاحَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تَنْتَظِرِ الْمَسَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ لِمَرَضِكَ وَمِنْ حَيَاتِكَ لِمَوْتِكَ. [بخاری]

تمھیں نہیں معلوم کل کیا ہوگا؟

ترمذی شریف میں اس طرح ہے؛ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓسے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے میرے بدن کا ایک حصہ پکڑ کر ارشاد فرمایا: دنیا میں کسی مسافر یا راہ گیر کی طرح رہو اور خود کو قبر والوں میں شمار کرو۔ مجاہدؒکہتے ہیں: ابن عمرؓنے مجھ سے فرمایا: اگر صبح ہوجائے تو شام کا انتظار نہ کرو اور شام ہوجائے تو صبح کا انتظار نہ کرو، بیماری آنے سے پہلے صحت سے اور موت آنے سے پہلے زندگی سے فایدہ حاصل کرو، کیوں کہ تمھیں نہیں معلوم کل تمھارا نام کیا ہوگا۔عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِبَعْضِ جَسَدِي بِمِنْكَبِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ ” كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ أَوْ عَابِرُ سَبِيلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُدَّ نَفْسَكَ فِي أَهْلِ الْقُبُورِ “، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي ابْنُ عُمَرَ:‏‏‏‏ إِذَا أَصْبَحْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالْمَسَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أَمْسَيْتَ فَلَا تُحَدِّثْ نَفْسَكَ بِالصَّبَاحِ، ‏‏‏‏‏‏وَخُذْ مِنْ صِحَّتِكَ قَبْلَ سَقَمِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَمِنْ حَيَاتِكَ قَبْلَ مَوْتِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي يَا عَبْدَ اللَّهِ مَا اسْمُكَ غَدًا. [ترمذی]

خود کو قبر والوں میں شمار کرو

ابنِ ماجہ میں ہے؛ حضرت عبداللہ بن عمر ؓکہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے میرے جسم کا بعض حصہ پکڑا اور فرمایا :عبداللہ! دنیا میں ایسے رہو گویا مسافر ہو یا رستہ چلنے والے اور اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو۔ ‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِبَعْضِ جَسَدِي،‏‏‏‏ فَقَالَ:‏‏‏‏ “يَا عَبْدَ اللَّهِ،‏‏‏‏ كُنْ فِي الدُّنْيَا كَأَنَّكَ غَرِيبٌ،‏‏‏‏ أَوْ كَأَنَّكَ عَابِرُ سَبِيلٍ،‏‏‏‏ وَعُدَّ نَفْسَكَ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ”.[ابن ماجہ]

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here