قرآن اسی میں نازل کیا گیا اور تمھیں کیا معلوم شبِ قدر کیا ہے؟ ندیم احمد انصاری
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
{انا انزلناہ فی لیلۃ القدر}۔(القدر:١)
ہم نے ’اسے‘ شبِ قدر میں نازل کیا۔
علامہ آلوسی ؒ نے یہاں اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ اس سے مراد’قرآن کریم‘ ہے۔
قولہ تعالیٰ:{انا انزلناہ فی لیلۃ القدر} الضمیر فی أنزلناہ للقرآن قطعاً۔ وحکی الآلوسیؒ علیہ الاجماع۔(روح المعانی)
ایک نکتہ یہاں یہ سمجھنے کا ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے عام معمول کے موافق صیغۂ واحد متکلم کا استعمال نہیں کیا، جب خلقتِ آدم کا موقع آیا تو ارشاد فرمایا{انی جاعل فی الأرض خلیفۃ} کیوں کہ اشیاء وامثال کا پیدا کرنا اس کی قدرت ِ کاملہ کے نزدیک کوئی غیر معمولی اہمیت نہیں رکھتا تھا ،لیکن بطونِ وارواح کی نشاۃِ جدیدہ دنیا کے لیے مایۂ صد رحمت وبرکت تھی ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے جب کسی پیغمبر کو اس نشاۃِ حقیقیۃ کا ذریعہ بنایا ہے، تو اس موقع پر اپنے لیے ضمیرِ متکلم کا صیغہ استعمال کیا ہے ،جو واحد کی نسبت تعظیم و شرف کا پہلو رکھتا ہے ۔{انا ارسلنا نوحاً} اور {انا أعطینا کالکوثر} وغیرہ ۔یہ تعظیم درحقیقت اس جدید روح ِ سعادت و ہدایت کی عظمت کو نمایاں کرتی ہے،جو دنیا میں ظہور پذیر ہوناچاہتی ہے۔(مستفادازترجمان القرآن)اسی طرح یہاں اس مبارک رات کی شرف و منزلت ظاہر کرتے ہوئے بھی خالقِ کائنات نے جمع متکلم کا صیغہ {انا} استعمال فرمایا ہے۔
حضرت ابن عباس کی روایت ہے :اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اولاً پورے قرآنِ کریم کو لوحِ محفوظ سے یک بارگی شبِ قدر میں آسمانِ دنیا میں بیت العزت پر نازل فرمایا،پھر وہاں سے حسبِ ضرورت حضرت جبریل کے توسط سے رسول اللہ ﷺ پر موقع بہ موقع تیئیس سال میں نازل ہوتا رہا۔ (الدرالمنثور،روح المعانی)
سوال پیدا ہوتا ہے کہ لوحِ محفوظ اور ’بیت العزۃ‘ کیا ہے ؟کیا قرآنِ کریم دنیا کی طرح ،سیاہی سے کاغزوں پر لکھا ہوا،مجلدبیت العزۃ میں آیا تھا؟ جواب اس کا یہ ہے کہ لوحِ محفوظ کوئی لوح یا چاندی یا لکڑی کی تختی نہیںبلکہ وہ علم ِ الٰہی کا تعین اور مرتبۂ اثبات ہے،جس میں ہر ایک چیز کا علم دوسری چیزسے خاص امتیاز کے علم سے متعین وممیز ہے۔اس مرتبے کو ’لوح‘سے تشبیہ دی گئی کہ جہاں ایک مطلب کو دوسرے مطلب سے امتیازِ خاص ہوتا ہے اور یہ امتیاز اس سے جدا ہے،جو لکھنے والے کے ذہن میں پہلے تھا،یہ اس لیے کہ وہ مرتبہ مکفی ومکنون تھا۔یہ لوح کے دیکھنے والوں پر ظاہر ہی،وہ خود پڑھ سکتے ہیںاور ممکن ہے کہ عالم ِ شہود میں یہ مرتبہ اپنے اپنے مناسب ،کسی شکل ِنورانی میں متمثل بھی ہو،جس کو عالم ِ جسمانی میں لوح سے کمال ِ مشابہت ہو اوراس کے بعد بیت العزۃاور دوسرا طبقہ علم وامتیاز کا ہے کہ جو اعلیٰ طبقے کے ملائکہ کے اوپر ظاہر ومنکشف ہے اور ممکن ہے کہ اس مرتبے میں قرآن کی حقیقت اپنے مناسب صورت میں متمثل ہو،جس کو نوشتہ ٔ کتاب سے مشابہت ہو۔(تفسیرِ فتح المنان بتصرف)
اور تمھیں کیا معلوم، شبِ قدر کیا چیزہے ؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
{وَمَآ اَدْرَاکَ مَآ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ ہ}۔(القدر:٢)
اور تمھیں کیا معلوم، شبِ قدر کیا چیزہے ؟
اس ارشاد سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جو کہ علام الغیوب ہے ، اس کے سوا کوئی کسی غیب کی بات کو نہ جان سکتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے، سوائے ان باتوں اور اس مقدار کہ جنھیں خود اللہ تعالیٰ بتانا اور سمجھاناچاہے،خواہ نبی ہو یا ولی،یہ تمام چیزیں مخلوق کے دائرۂ اختیار سے باہر ہیں۔پھر اس سے اس رات کی فضیلت کی طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ کوئی عام رات نہیں ، بلکہ نہایت اہم اور خاص رات ہے ،آگے انسانوں کو سمجھانے کے لیے ارشادفرماتے ہیں کہ یہ رات ہزار مہینوں سے بھی زیادہ بہتر ہے ۔(روح المعانی)نیز عارف وسیع المعرفت ہی کیوں نہ ہو ، لیکن حقیقت اس تجلی کی کہ جو گوناں گوں عالم کو ساتھ لاتی ہے اور قابلیت واستعداد کے موافق ہر ایک میں رنگارنگ تأثرات پیدا کرتی ہے،بغیر اس کے معلوم نہیں کر سکتا کہ تمام عالم اور جمیع قابلیت واستعداد عالم سفلی پر احاطہ ہو اور یہ مقدور بشر سے باہر ہے۔اس لیے خود ہی کسی قدر اس کے مراتب بیان فرما دیے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(الفتح المنان)