قرض لینے سے بچنے کی انفرادی و اجتماعی کوشش ہونی چاہیے

مفتی ندیم احمد انصاری

قرض ایک مصیبت ہے، ایک بیماری ہے۔ جسے یہ بیماری لگ جاتی ہے، اسے اندر ہی اندر کھا جاتی ہے۔ ہمارے زمانے میں بعض موٹی چمڑی والے بے حِس لوگ خود اسے گلے سے لگاتے ہیں اور پھر نقصان اٹھاتے ہیں۔حضرت نبی کریم ﷺ نے بلاضرورت قرض لینے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ ارشاد فرمایا گیا کہ قرض شہید کا بھی معاف نہیں۔ التبہ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض موقعوں پر خود آپ ﷺ نے بھی قرض لیا ہے اور واقعی ضرورت ہو تو دوسروں کو بھی قرض لینے کی اجازت دی ہے، بعض ضرورت مندوں کو تو یہ بشارت بھی دی کہ اگر وہ باوجود کوشش کے قرض ادا کیے بغیر مر جائیں تو قیامت میں اللہ تعالیٰ ان کا قرض ادا فرما دیںگے۔ لیکن آج کل لوگ بےجا خواہشوں بلکہ ہوس کو ضرورت کا نام دے کر بےدھڑک قرض لیتے چلے جاتے ہیں، یہ نہایت نقصان دہ اور برا ہے۔ وہ خود اپنی زندگی کا سکون غارت کرتے اور عزت داؤں پر لگاتے ہیں۔ آپس میں ناچاکی اور لڑائی تک نوبت پہنچ جا تی ہے۔ قرض کے سہارے چلنے والا اِنفرادی و اجتماعی اقتصادی نظام کبھی بارآور نہیں ہوتا۔یہی سبب ہے کہ قومی و اجتماعی نقطۂ نگاہ سے ہماری صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔سخت شرائط کے ساتھ عالمی اداروں سے قرض لے کر قوم کو غلام بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا قرض دینا ان کی حکمتِ عملی ہے، اس کے ذریعے وہ قوموں کی معیشت، سیاست اور پالیسیوں کو گروی رکھ لیتے ہیں ۔اس لیے انفرادی و اجتماعی ہر اعتبار سے کوشش کرنی چاہیے کہ شدید ضرورت کے بغیر قرض لینے سے بچتے رہیں۔

مومن کی جان معلَّق رہتی ہے

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:مومن کی جان اس کے قرضے کے ساتھ معلق رہتی ہے یہاں تک کہ اس کی طرف سے قرض ادا کردیا جائے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ :‏‏‏‏ “نَفْسُ الْمُؤْمِنِ مُعَلَّقَةٌ بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ”. [ترمذی]

رات میں غم اور دن میں ذلت کا سبب

حضرت انسؓسے روایت ہے،رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم قرض لینے سے بچو، کیوں کہ وہ رات کے وقت غم اور دن کے وقت ذلت کا باعث ہے۔عن انس بن مالك، أن رسول اللہ ﷺ قال: إياكم والدين، فإنه هم بالليل ومذلة بالنهار.[مسند الشھاب، شعب الایمان]

قرض کا آغاز اور اس کا انجام

عبدالرحمن بن دُلاف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ،جہینہ قبیلے کا ایک آدمی سواریاں خریدتا تھا اور مہنگے داموں پر بیچتا تھا۔ چناں چہ وہ حاجیوں سے پہلے وہاں پہنچ جاتا تھا۔ پھر وہ مفلس ہوگیا۔ اس کا معاملہ حضرت عمرؓکے سامنے رکھا گیا تو آپؓنے فرمایا : ۔۔۔قرض سے بچو! اس کا آغازغم سے ہے اور اختتام لڑائی پر ہے۔ عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ دُلاَفٍ عَنْ أَبِیہِ : أَنَّ رَجُلاً مِنْ جُھَیْنَۃَ کَانَ یَشْتَرِی الرَّوَاحِلَ فَیُغَالِی بِھَا، ثُمَّ یُسْرِعُ السَّیْرَ فَیَسْبِقُ الْحَاجَّ فَأَفْلَسَ، فَرُفِعَ أَمْرُہُ إِلَی عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَقَالَ : أَمَّا بَعْدُ: أَیُّھَا النَّاسُ فَإِنَّ الأُسَیْفِعَ أُسَیْفِعَ جُھَیْنَۃَ، رَضِیَ مِنْ دِینِہِ وَأَمَانَتِہِ أَنْ یُقَالَ سَبَقَ الْحَاجُّ إِلاَّ أَنَّہُ قَدِ ادَّانَ مُعْرِضًا فَأَصْبَحَ وَقَدْ رِینَ بِہِ فَمَنْ کَانَ لَہُ عَلَیْہِ دَیْنٌ فَلْیَأْتِنَا بِالْغَدَاۃِ نَقْسِمُ مَالَہُ بَیْنَ غُرَمَائِہِ وَإِیَّاکُمْ وَالدَّیْنَ فَإِنَّ أَوَّلَہُ ھَمٌّ وَآخِرَہُ حَرْبٌ.[سنن کبری بیہقی]

قرض شہید کا بھی معاف نہیں

حضرت محمد بن جحشؓسے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے پاس بیٹھےہوئے تھے، آپ ﷺ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، پھر اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھا اور فرمایا: کس قدر شدت نازل ہوئی ہے! چناں چہ ہم لوگ خاموش رہے اور گھبرا گئے۔ دوسرے دن میں نے دریافت کیا:اے اللہ کے رسولﷺ ! کیسی شدّت نازل ہوئی ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! اگر ایک آدمی اللہ کے راستے میں قتل کردیا جائے، پھر اس کو زندہ کیا جائے، پھر قتل کردیا جائے، پھر زندہ کیا جائے، پھر قتل کردیا جائے، اور اس کے ذمّے قرض ہو، تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جب تک کہ اپنا قرض ادا نہ کر دے۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَحْشٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،‏‏‏‏ فَرَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ وَضَعَ رَاحَتَهُ عَلَى جَبْهَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ “سُبْحَانَ اللَّهِ مَاذَا نُزِّلَ مِنَ التَّشْدِيدِ”،‏‏‏‏ فَسَكَتْنَا وَفَزِعْنَا فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ سَأَلْتُهُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا هَذَا التَّشْدِيدُ الَّذِي نُزِّلَ ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ “وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ،‏‏‏‏ لَوْ أَنَّ رَجُلًا قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُحْيِيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُتِلَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُحْيِيَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قُتِلَ وَعَلَيْهِ دَيْنٌ مَا دَخَلَ الْجَنَّةَ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ دَيْنُهُ”. [نسائی]

قرض نیکیوں سے پورا کیا جائےگا

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر قرض مقروض کی نیکیوں سے پورا کیا جائےگا مگر جس نے تین باتوں کے لیے قرض لیا ہو: (۱)وہ شخص جس کی قوت اللہ کے راستے میں کم زور پڑجائےتو وہ قرض لے کر دشمن کے قتال پر قوت حاصل کرے اور اسے ادا کیے بغیر مرجائے (۲)وہ شخص جس کے پاس کوئی مسلمان وفات پا جائے اور وہ قرض لیے بغیر اس کے کفن دفن کا انتظام نہ کرسکے تو وہ قرض لے کر کر لے اور پھر بغیر ادا کیے مرجائے(۳) وہ شخص جو بےنکاح رہ کر برائی میں پڑ جانے سے ڈرے اور قرض لے کر کسی عورت سے نکاح کر لے اور پاک دامنی حاصل کرے، پھر اسے ادا کرنے سے پہلے مر جائے تو اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن ان سب کی طرف سے قرض ادا کردیں گے۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ : ” كُلُّ دَيْنٍ مَأْخُوذٌ مِنْ حَسَنَاتِ صَاحِبِهِ ، إِلا ، مَنِ ادَّانَ فِي ثَلاثٍ : رَجُلٌ ضَعُفَتْ قُوَّتُهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ، فَتَقَوَّى عَلَى قِتَالِ عَدُوِّهِ بِدَيْنٍ وَمَاتَ وَلَمْ يَقْضِهِ ، وَرَجُلٌ مَاتَ عِنْدَهُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ ، فَلَمْ يَجِدْ مَا يُكَفِّنُهُ إِلا بِدَيْنٍ ، فَمَاتَ وَلَمْ يَقْضِهِ ، وَرَجُلٌ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ الْعُزُوبَةَ فَاسْتَعَفَّ فِي نِكَاحِ امْرَأَةٍ بِدَيْنٍ ، فَمَاتَ وَلَمْ يَقْضِهِ ، فَإِنَّ اللَّهَ يَقْضِي عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ” .[کنزالعمال]

حج وغیرہ کے لیے قرض مانگنا

حج کی استطاعت میں یہ بھی داخل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اتنا مال عطا فرمایا ہو جس سے آدمی اپنے وطن سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے اور وہاں کے اخراجات پر قادر ہو اور واپس آنے تک اپنے اہل و عیال اور بیوی بچوں وغیرہ کے مصارف برداشت کرسکتا ہو۔ جب تک اتنی استطاعت نہ ہوگی حج فرض ہی نہیں ہوگا، اس لیے قرض لے کر حج کرنے کی ضرورت نہیں۔ دل کے ارمان نکالنے کا نام دین نہیں، اطاعتِ خدواندی اور اطاعتِ رسول کا نام دین ہے۔ حضرت طارقؒکہتے ہیں؛ میں نے حضرت ابن ابی اوفیؓسے سنا، ان سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جا رہا تھا جو حج کے لیے قرض لیتا ہے تو انھوں نے فرمایا: وہ قرض نہ مانگے بلکہ اللہ سے رزق طلب کرے ۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم کہا کرتے تھے: ’اگر ادا نہ کرسکتا ہو تو قرض نہ لے‘۔ عَنْ طَارِقٍ قَالَ : سَمِعْتُ ابْنَ أَبِی أَوْفَی یُسْأَلُ عَنِ الرَّجُلِ یَسْتَقْرِضُ وَیَحُجُّ قَالَ : یَسْتَرْزِقُ اللہَ وَلاَ یَسْتَقْرِضُ قَالَ وَکُنَّا نَقُولُ : لاَ یَسْتَقْرِضُ إِلاَّ أَنْ یَکُونَ لَہُ وَفَاءٌ.[سنن کبری بیہقی]

نبیﷺ نے قرض دار کا جنازہ نہیں پڑھا

حضرت سلمہ بن اکوعؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ کے پاس ایک جنازہ لایا گیا تاکہ آپ ﷺ اس پر نمازِ جنازہ پڑھیں۔ آپﷺ نے پوچھا: کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں۔ تو آپ ﷺ نے اس پر نمازِ جنازہ پڑھی۔ پھر ایک دوسرا جنازہ لایا گیا: آپ ﷺ نے پوچھا: اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں! تو آپ ﷺ نے فرمایا: تم لوگ اپنے ساتھی پر نمازِ جنازہ پڑھ لو۔ حضرت ابوقتادہؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ میں اس کے قرض کا ذمّے دار ہوں۔ تب آپ ﷺ نے اس پر نمازِ جنازہ پڑھی۔ ‏‏عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:‏‏‏‏ “أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ هَلْ عَلَيْهِ مِنْ دَيْنٍ ؟ قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ”، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو قَتَادَةَ:‏‏‏‏ عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏فَصَلَّى عَلَيْهِ. [بخاری] حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ کے پاس جب جنازہ لایا جاتا تو آپ ﷺ پہلے معلوم کرتے: کیا اس نے اپنے اوپر موجود قرض ادا کرنے کے لیے کچھ مال چھوڑا ہے؟ اگر لوگ بیان کرتے کہ اس نے اپنے قرض کی ادایگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے تو آپ ﷺ اس پر نمازِ جنازہ پڑھتے، ورنہ کہہ دیتے: تم اپنے ساتھی پر نمازِ جنازہ پڑھ لو۔ جب اللہ تعالیٰ نے فتح کا دروازہ کھول دیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: میں مسلمانوں کا خود ان کی ذات سے بھی زیادہ خیر خواہ ہوں، جو مسلمان مرجائے اور قرض چھوڑ جائے تو اس کا ادا کرنا میرے ذمّے ہے اور جس نے مال چھوڑا وہ مال اس کے وارثوں کا ہے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏”أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ يُؤْتَى بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفَّى عَلَيْهِ الدَّيْنُ فَيَسْأَلُ، ‏‏‏‏‏‏هَلْ تَرَكَ لِدَيْنِهِ فَضْلًا ؟ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّهُ تَرَكَ لِدَيْنِهِ وَفَاءً صَلَّى، ‏‏‏‏‏‏وَإِلَّا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ لِلْمُسْلِمِينَ:‏‏‏‏ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْفُتُوحَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنَا أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَتَرَكَ دَيْنًا فَعَلَيَّ قَضَاؤُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ”. [بخاری ]

قرض دار کاجنازہ پڑھا جائےگا یا نہیں؟

ابتدائی زمانے میں اگرچہ رسول اللہ ﷺ نمازِ جنازہ ادا نہیں فرماتے تھے لیکن صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو نمازِ جنازہ ادا کرنے کا حکم دیتے تھے اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نمازِ جنازہ پڑھتے تھے، لہٰذا مقروض کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، نیز میت کے مقروض ہونے نہ ہونے سے متعلق تحقیق کرنا یا مقروض کی نمازِ جنازہ ادا کرنے سے انکار کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔ [امدادالفتاوی]

کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here