قطع رحمی یعنی رشتے داری نبھانے میں غفلت برتنا
مولانا ندیم احمد انصاری
اس دنیا میں ہر انسان کو بہت سے انسانوں کی ضرورت پڑتی ہے۔اللہ تعالیٰ انسان کے پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کے ساتھ بعض ایسے رشتے جوڑ دیتا ہے جو اسے اپنا سمجھتے اور اس کے لیے بہت کچھ کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ماں، باپ، دادا، دادی، نانا، نانی، بھائی، بہن، خالہ، پھوپھی، چچا، ماموں وغیرہ وغیرہ۔ اگر انسان کا تعلق اپنے رشتے داروں کے ساتھ اچھا رہے تو اس کی بہت سی مشکلات آسان ہو جاتی ہیں، ورنہ اس کا ذہن اور دل کشمکش اور الجھن کاشکار ہتا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو تاکید کی ہے کہ وہ صلہ رحمی کا معاملہ کریں اور قطع رحمی سے پرہیز کریں۔حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بغاوت اور قطع رحمی ایسے گناہ ہیں کہ کوئی گناہ دنیا و آخرت دونوں میں ان سے زیادہ عذاب کے لایق نہیں۔(ترمذی)
صلہ رحمی اور قطع رحمی
’رحم‘ بچّہ دانی کو کہتے ہیں، جس میں ولادت سے پہلے بچہ رہتا ہے۔ چوں کہ قرابت کا ذریعہ یہی رحم ہے، اس لیے اس سلسلے کے تعلقات جوڑے رکھنے کو ’صلہ رحمی‘ اور اس میں غفلت برتنے کو ’قطع رحمی‘کہا جاتا ہے۔شریعتِ اسلامیہ میں صلہ رحمی کی بہت تاکید کی گئی ہے اور قطع رحمی سے روکا گیا ہے۔ حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ، رسول اللہ ﷺ سے حدیثِ قدسی نقل کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میں اللہ ہوں، میں رحمن ہوں، میں نے ہی رحم کو پیدا کیا اور پھر اسے اپنے نام سے مشتق کیا۔ جو شخص اسے ملائے گا یعنی صلہ رحمی کرے گا، میں اسے ملاؤں گا، اور جو اسے کاٹے گا یعنی قطع رحمی کرے گا میں اسے کاٹوں گا۔ (ترمذی)
رشتے داری سے خدا کا مکالمہ
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا،یہاں تک کہ جب پیدا کرنے سے فارغ ہوچکا تو رشتے داری نے عرض کیا: یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحمی سے تیری پناہ مانگے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس سے ملوں جو تجھ سے ملے اور اس سے تعلق قطع کروں جو تجھ سے تعلق قطع کرے۔ رشتے داری نے عرض کیا: ہاں اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ نے فرمایا: بس تیرے لیے ایسا ہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو: فَهَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ تَوَلَّيْتُمْ اَنْ تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ وَتُقَطِّعُوْا اَرْحَامَكُمْ ۔(ترجمہ) سواگر تم نے جہاد سے منہ موڑا تو آیا تم کو یہ احتمال بھی ہے کہ دنیا میں فساد مچا دو اور آپس میں قطع رحمی کردو۔ ( محمد : 22) (بخاری)
قطع رحمی کا انجام
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالَّذِيْنَ يَنْقُضُوْنَ عَهْدَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مِيْثَاقِهٖ وَيَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰهُ بِهٖٓ اَنْ يُّوْصَلَ وَيُفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ لَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْۗءُ الدَّارِ اور جو لوگ اللہ سے کیے ہوئے عہد کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد توڑدیتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں کاٹ ڈالتے ہیں، اور زمین میں فساد مچاتے ہیں، تو ایسے لوگوں کے حصے میں لعنت آتی ہے، اور آخرت میں برا انجام اُنھیں کا ہے۔ (الرعد:25)حدیث شریف میں آیا ہے کہ دو شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روزان کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھیں گے: ایک قطع رحمی کرنے والا اور دوسرا برا پڑوسی۔(کنزالعمال)حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ قطع رحمی کرنے والا ( توبہ یا سزا پائے بغیر) جنت میں داخل نہ ہوگا۔(بخاری)
صلہ رحمی کا حکم
صلہ رحمی واجب ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ رشتے داروں سے موقع بہ موقع ملاقات کی جائے کہ اس سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ انھیں سلام و تحیہ پیش کیا جائے، ان کے ساتھ تعاون و احسان کا معاملہ کیا جائے۔جس رشتے دار سے جتنا قریبی تعلق ہوگا، وہ اتنا زیادہ صلہ رحمی کا مستحق ہوگا۔(درمختار مع رد محتار)
صلہ رحمی کا لحاظ
عدل و انصاف تو دوست و دشمن سب کے لیے برابر اور یکساں ہے اور احسان و مروت میں بسا اوقات خصوصیت اور رعایت بھی ملحوظ رہوتی ہے۔ یہ صلہ رحمی اگرچہ عدل میں یا احسان میں داخل ہے، لیکن صلہ رحمی اور حقِ قرابت کا لحاظ اور پاس داری ایک مستقل نیکی اور بھلائی ہے اور عظیم احسان ہے۔۔۔بعض صورتوں میں قریبی حاجت مند رشتے دار کا نان نفقہ واجب ہوجاتاہے اور بعض صلہ رحمی مستحب ہے، جیسے رشتےدار کو ہدیہ اور تحفہ دینا، تاکہ باہمی محبت اور الفت قایم رہے ۔ بہ ہر حال !صلہ رحمی احسان کا فردِ اکمل ہے ، اس لیے خاص طو پر اس کو علیحدہ ذکر فرمایا ، کیوں کہ قرابت داروں کو روپیے پیسے سے مدد کرنا اور ان کے ساتھ احسان کرنا عظیم عبادت ہے۔ جس میں یہ تین صفتیں- عدل،احسان اور صلہ رحمی- جمع ہوگئیں اس کی قوتِ عقلیہ اور ملکیہ مکمل اور مہذب ہوگئی۔ (معارف القرآن،ادریسی)
صلہ رحمی کن لوگوں سے؟
صلہ رحمی سے مراد ذوی الارحام، ذوی القربیٰ اور سسرالی رشتے دارہیں۔اس میں وہ تمام رشتے شامل ہیں جو والد یا والدہ کی طرف سے اوپر یا نیچے کی طرف ہوں۔ والد کی جانب سے دادا، دادی،بھائی، بہن، چاچا، پھوپھی،بھتیجا، بھتیجی اوران کے اصول و فروع۔والدہ کی جانب سے نانا، نانی، خالہ،ماموں اور ان کے اصول و فروع۔اسی طرح بیوی کے رشتے دار یعنی اُس کے ماں باپ، بھائی بہن اور ان کی اولاد وغیرہ وغیرہ۔(روح المعانی)
قطع رحمی کرنے والے سے صلہ رحمی
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو کسی قرابت کی نیکی کے بدلے نیکی کرے بلکہ صلہ رحم وہ ہے جو قطع رحمی کے باوجود اسے ملائے اور صلہ رحمی کرے۔ (ترمذی)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے کچھ رشتے دار ایسے ہیں جن سے میں تعلق جوڑتا ہوں اور وہ مجھ سے تعلق توڑتے ہیں، میں ان سے نیکی کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برائی کرتے ہیں، میں ان سے بردباری کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بداخلاقی سے پیش آتے ہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا: اگر تو واقعی ایسا ہی ہے جیسا کہ تو نے کہا، تو گویا تو ان کو جلتی ہوئی راکھ کھلا رہا ہے، اور جب تک تو ایسا کرتا رہے گا اللہ کی طرف سے ایک مددگار اُن کے مقابلے میں تیرے ساتھ رہے گا۔(مسلم)
قطعِ رحمی کی نحوست
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،میں نے حضرت نبی کریم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : بنی آدم کے اعمال ہر جمعرات کو پیش کیے جاتے ہیں اور کسی قطع رحمی کرنے والے کے اعمال قبول نہیں کیے جاتے۔(الجامع لشعب الایمان)ایک حدیث میں آیا ہے کہ آدمی صلہ رحمی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی عمر کے تین دن رہ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بڑھا کر تیس سال بنا دیتے ہیں۔ آدمی قطع رحمی کرتا رہتا ہے اور اس کی عمر کے تیس سال باقی رہ جاتے ہیں جنھیں اللہ تعالیٰ تین دن بنا دیتا ہے۔(کنزالعمال) ایک حدیث میں ہے کہ رحمت کے فرشتے اس قوم میں نہیں اترتے، جس میں قطع رحمی کرنے والا ہو۔ (کنزالعمال)
آج ہی اپنا معاملہ صاف کر لو
اس لیے ہمیں قطع رحمی سے بچنا چاہیے اور صلہ رحمی کرنی چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺنے فرمایا : آج میرے پاس قطع رحمی کرنے والا نہیں بیٹھ سکتا۔ اتنے میں حلقے سے ایک نوجوان اٹھا اور اپنی خالہ کے پاس گیا۔ ان دونوں میں کوئی رنجش تھی۔ بھانجے نے خالہ سے معافی طلب کی،پھر وہ نوجوان مجلس میں آکر بیٹھ گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اس قوم پر (اللہ تعالیٰ کی) رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں قطع رحمی کرنے والا ہو۔(کنزالعمال)
رسول اللہ ﷺ کی پیشین گوئی
آج قطع تعلقی عام ہوتی جا رہی ہے، جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہم قیامت کے قریب آپہنچے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: اللہ تعالیٰ بکواس کرنے والے اور بدزبان کو پسند نہیں فرماتے۔ اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد کی جان ہے! قیامت اس وقت تک قایم نہیں ہوگی، جب تک فحش گوئی، بدزبانی ، پڑوسی کی برائی اور قطع رحمی ظاہر نہ ہوجائے، یہاں تک کہ امانت دار کو خیانت کرنے والا سمجھا جائے گااور خائن کو امانت سونپی جائے گی۔ (کنزالعمال)
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیریکٹر ہیں)