لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ: جنّت میں داخل کرانے اور جہنم سے نجات دلانے والاکلمہ

مفتی ندیم احمد انصاری

اخلاص کے ساتھ کلمہ پڑھنے والا

محمود کا بیان ہے کہ عتبان بن مالک انصاریؓسے، پھر بنی سالم کے ایک صاحب سے میں نے سنا کہ میرے پاس رسول اللہ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: جس بندے نےلَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کہا، قیامت کے دن اس پر جہنم کی آگ حرام ہوگی۔[بخاری] ایک روایت میں اس طرح ہےکہ محمود بن ربیع روایت کرتے ہیں، میں نے عتبان بن مالکؓکو کہتے ہوئے سنا: میرے پاس صبح کو رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو ایک شخص نے کہا: مالک بن دُخشُن کہاں ہے؟ ہم میں سے ایک شخص نے کہا: وہ منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول سے محبت نہیں کرتا۔ حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ وہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے کہتا ہے؟ اس نے کہا: ہاں! آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص بھی اس کلمے کو دل کے خلوص کے ساتھ کہے گا اللہ قیامت کے دن اس پر آگ کو حرام کر دےگا۔ [بخاری]

کلمے والا جہنم میں نہیں رہےگا

حضرت انسؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کہے اور اس کے دل میں ایک جَو کے برابر نیکی (ایمان) ہو، وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کہے اور اس کے دل میں گیہوں کے ایک دانے کے برابر نیکی (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا، اور جو شخص لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُکہے اور اس کے دل میں ایک ذرّہ برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا۔[بخاری]

جہنم کو حرام کرنے والا کلمہ

حضرت عثمان غنیؓروایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ایک مرتبہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا : میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ جو بندہ بھی اسے دل سے حق سمجھ کر کہے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہوجائےگی۔ حضرت عمر بن خطابؓنے فرمایا: میں آپ کو بتاؤں وہ کلمہ کون سا ہے ؟ وہ کلمۂ اخلاص ہے جو اللہ نے اپنے پیغمبر اور ان کے صحابہؓپر لازم کیا تھا، یہ وہی کلمۂ تقویٰ ہے جو حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنے چچا ابو طالب کے سامنے ان کی موت کے وقت بار بار پیش کیا تھا یعنی لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ ۔[مسند احمد]

کلمۂ طیبہ والوں کے لیے جنت

اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ اِنَّ اللّٰهَ يُدْخِلُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ يُحَلَّوْنَ فِيْهَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَهَبٍ وَّلُؤْلُؤًا ۭ وَلِبَاسُهُمْ فِيْهَا حَرِيْرٌ؀وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ښ وَهُدُوْٓا اِلٰى صِرَاطِ الْحَمِيْدِ؀﴾ [الحج] جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنھوں نے نیک کام کیے ہیں، اللہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرےگا جن کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں انھیں سونے کے کنگنوں اور موتیوں سے سجایا جائےگا اور جہاں ان کا لباس ریشم ہوگا، اور (وجہ یہ ہے کہ) ان لوگوں کی رسائی پاکیزہ بات (کلمۂ طیبہ) تک ہوگئی تھی اور وہ اس خدا کے راستے تک پہنچ گئے تھے جو ہر تعریف کا مستحق ہے۔ حضرت ابن عباسؓنے فرمایا: ﴿وَهُدُوْٓا اِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ ښ ﴾ سے مراد کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے، بعض نے فرمایا: قرآن مراد ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یہ سب چیزیں اس میں داخل ہیں۔ [معارف القرآن شفیعی]

کیا محمدٌ رسول اللہ کلمۂ طیبہ میں داخل ہے؟

اس آیت میں کلمۂ طیبہ سے کلمہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ مراد ہے، جیسا کہ حدیث میں اس کی تصریح ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ اس کے تابع ہے، وہ بھی مراد ہے، کیوں کہ ملزوم کے ساتھ لوازم کا ہونا ضروری ہے، مگر چوں کہ اہلِ ایمان اس امت سے پہلے بھی گزرے ہیں جو ایمان اور فضائلِ ایمان میں ان کے ساتھ شریک ہیں سب لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہتے تھے، مگر لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا قرین ہر امت میں بدلتا رہا ہے، کوئی لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کے ساتھ نوحٌ نبی اللہ کہتا تھا، کوئی ابراہیم خلیلُ اللہ کہتا تھا، کوئی موسیٰ کلیم اللہ کہتا تھا، کوئی عیسیٰ روح اللہ کہتا تھا، اور ہم محمد رسول اللہ کہتے ہیں۔غرض یہ کہ کلمۂ رسالت جملۂ متبدلہ ہے، ہر امت میں بدلتا رہا ہے اور کلمہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ غیر متبدل ہے جس میں تمام اہلِ ایمان واہلِ ملل وادیان مشترک ہیں، اس لیے اکثر احادیث میں لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ پر اکتفا کیا گیا، باقی مراد وہی پورا کلمہ ہے یعنی مع اپنی قرین اور لازم کے۔ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ تو سب میں مشترک ہے، مگر قرین ہر امتِ مسلمہ کا الگ الگ ہے، اور چوں کہ اصل کلمۂ طیبہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے اور محمد رسول اللہ اس کا قرین ہے، اس لیے حضراتِ صوفیہ جب ذکر کی تلقین کرتے ہیں تو یہ فرماتے ہیں کہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کا ذکر مثلاً اس مقدار میں کیا کرو اور کبھی کبھی محمد رسول اللہ بھی کہہ لیا کرو، تاکہ تابع اور متبوع کا فرق اور حق ادا ہوجائے اور وجہ یہ ہے کہ ذکر تو اللہ کا حق ہے اور نبی کا حق درود ہے جس کا قرآن میں حکم آیا ہے لہٰذا لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ تو ذکر ہے اور محمد رسول اللہ کلمۂ تجدیدِ ایمان کے لیے ہے۔ [معارف القرآن ادریسی]

ایمان کی افضل ترین شاخ

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ایمان کی ستّر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے، اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ [ابوداود]

لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کہنے والا

ابو مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جس نے لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کہا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اور چیزوں کی پرستش کا انکار کردیا، اس کا جان ومال محفوظ ہوگیا، باقی ان کے دل کی حالت کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمّے ہے۔ [مسلم]

افضل ترین ذکر

حضرت جابر بن عبداللہؓ فرماتے ہیں، میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا، آپ نے فرمایا: افضل ترین ذکر لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ اور افضل دعا اَلْحَمْدُ لِلهِ ہے۔[ترمذی]

قیامت میں سب سے زیادہ شفاعت

حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! قیامت کے دن آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملےگی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:ابوہریرہ! مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس بارے میں مجھ سے دریافت نہیں کرےگا کیوں کہ میں نے حدیث کے متعلق تمھاری حرص دیکھ لی تھی۔ سنو ! قیامت میں میری شفاعت سے سب سے زیادہ فیض یاب وہ شخص ہوگا جو سچّے دل سے یا سچّے جی سے لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ کہےگا۔[بخاری]

کلمۂ طیبہ کی برکتیں

قرآن مجید میں ایک مقام پر فرمایا: ﴿اَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّفَرْعُهَا فِي السَّمَاۗءِ؀﴾ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کلمۂ طیبہ کی کیسی مثال بیان کی ہے؟ وہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے جس کی جڑ (زمین میں) مضبوطی سے جمی ہوئی ہے اور اس کی شاخیں آسمان میں ہیں۔[ابراہیم]کلمۂ طیبہ سے مراد کلمۂ توحید یعنی لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ ہے اور اکثر مفسرین نے فرمایا ہے کہ پاکیزہ درخت سے مراد کھجور کا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ جمی ہوتی ہیں اور تیز ہوائیں اور آندھیاں اسے نقصان نہیں پہنچاسکتیں نہ اسے اپنی جگہ سے ہلا سکتی ہیں۔ اسی طرح جب توحید کا کلمہ انسان کے دل و دماغ میں پیوست ہوجاتا ہے تو ایمان کی خاطر اسے کیسی ہی تکلیفوں یا مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے اس کے ایمان میں کوئی کمزوری نہیں آتی، چناں چہ آںحضرت ﷺ کے صحابہ کو ہر قسم کی اذیتیں دی گئیں لیکن توحید کا جو کلمہ ان کے دل میں گھر کرچکا تھا اس میں مصائب کی ان آندھیوں سے ذرّہ برابر تزلزل نہیں آیا۔ کھجور کے درخت کی دوسری صفت اس آیت میں یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ اس کی شاخیں آسمان کی طرف بلند ہوتی ہیں اور زمین کی کثافتوں سے دور رہتی ہیں، اسی طرح جب توحید کا کلمہ مومن کے دل میں پیوست ہوجاتا ہے تو اس کے تمام نیک کام جو درحقیقت اسی کلمے کی شاخیں ہیں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچ کر اس کی خوشنودی حاصل کرتے ہیں اور دنیا پرستی کی کثافتوں سے محفوظ رہتے ہیں۔ [توضیح القرآن]

جس کا آخری کلمہ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ ہو

حضرت معاذ بن جبلؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس کا آخری کلام لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ ہوگا وہ جنت میں جائےگا۔ [ابوداود]

موت کے قریب کلمے کی تلقین

حضرت ابوسعید خدریؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: اپنے قریب الموت لوگوں کولَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کی تلقین کیا کرو۔[ترمذی]حضرت سعید بن مسیب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا : جب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہﷺ ان کے پاس گئے اور ان سے کہا : لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُکہہ دیں، میں اس کلمے کے سبب اللہ کے پاس آپ کے لیے حجت پیش کروںگا۔ [بخاری]حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا (ابوطالب) سے فرمایا: لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّهُ کہہ دیجیے تاکہ میں قیامت کے دن آپ کے متعلق ایمان کی گواہی دے سکوں۔ وہ کہنے لگے: اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ قریش کہیں گے کہ (ابوطالب) نے موت کی گھبرا ہٹ کی وجہ سے کلمہ پڑھ لیا تو میں یہ کلمہ پڑھ کر تمھاری آنکھیں ٹھنڈی کردیتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِيْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَا ءُ ﴾ (اے پیغمبر) حقیقت یہ ہے کہ آپ کسی کو خود ہدایت تک نہیں پہنچا سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت تک پہنچا دیتا ہے۔[ترمذی]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here