لڑکا اور لڑکی دونوں مسلمان نہ ہوں تو ’نکاح‘ ؟
مولانا ندیم احمد انصاری
شادی بیاہ کا تعلق کسی خاص مذہب سے نہیں، یہ ایک فطری ضرورت ہے، جس کی اہمیت و افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔ اسلام چوں کہ دینِ فطرت ہے، اس لیے اس میں نکاح کی نہ صرف اجازت دی گئی، بلکہ حوصلہ افزائی بھی کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہر اس نوجوان کو نکاح کی ترغیب دی، جو اس کی استطاعت رکھتا ہو ، بلکہ نکاح کو آدھا دین قرار دیا۔ قرآن مجید میں تاکید کے ساتھ کہا گیا کہ جو لڑکے اور لڑکیاں نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں، ان کے نکاح کی پورا اسلامی معاشرہ فکر کرے۔اللہ تعالیٰ نے حکم دیتے ہوئے فرمایا: وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ.تم میں سے جن (مَردوں یا عورتوں) کا اس وقت نکاح نہ ہو، ان کا بھی نکاح کراؤ۔(سورۃ النور) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مَنْ زَوَّجَ للّٰہِ تَعَالَى تَوَّجَهُ اللّٰهُ تَاجَ الْمَلِكِ.جس نے (بغیر کسی دنیوی غرض کے) کسی کا نکاح کرایا، اللہ تعالیٰ اسے بادشاہوں والا تاج پہنائیں گے۔ (ابوداؤد)لیکن آج ہر انسان اپنی زندگی میں ایسا مست ہے کہ اسے کسی کی فکر ہے نہ پروا۔
مومن و مشرک کا نکاح
پچھلے چند سالوں سے مسلمان لڑکے اور لڑکیوں میں یہ مرض عام ہو چلا ہے کہ وہ اپنا لائف پارٹنر چُنتے وقت مذہب کی پروا نہیں کرتے۔کسی کی صورت یا ادا پر فدا ہو جانا یا بہ قول ان کے آپسی انڈر اسٹینڈنگ ہی نکاح کی بنیاد ہے۔ وہ خود کو مسلمان کہلاتے ہیں، لیکن اپنے عمل سے قرآن مجید کی آیت کا انکار کرتے ہیں۔ کوئی کچھ کہے تو اس پر فتویٰ داغنے کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:(مفہوم)اور دیکھو مشرک عورتوں سے- جب تک ایمان نہ لے آئیں- نکاح نہ کرو۔ ایک مشرک عورت تمھیں (بہ ظاہر) کتنی ہی پسند آئے، لیکن مومن عورت اس سے کہیں بہتر ہے۔ اور اسی طرح مشرک مرد جب تک ایمان نہ لے آئیں، مومن عورتیں ان کے نکاح میں نہ دی جائیں۔ یقیناً خدا کا مومن بندہ ایک مشرک مرد سے بہتر ہے، اگرچہ بہ ظاہر مشرک مرد تمھیں کتنا ہی پسند کیوں نہ آئے۔ یہ لوگ (یعنی مشرکینِ عرب) تمھیں (دینِ حق سے برگشتہ کرنا چاہتے ہیں اور اس لیے) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں، اور اللہ اپنے حکم سے (دینِ حق کی راہ کھول کر) تمھیں جنت اور مغفرت کی طرف بلا رہا ہے ( پس ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ تمھاری سازگاری کیوں کر ہوسکتی ہے ؟ ) اللہ لوگوں کی ہدایت کے لیے اپنی آیتیں واضح کردیتا ہے، تاکہ متنبہ ہوں اور نصیحت پکڑیں۔(سورۃ البقرۃ) (ترجمان القرآن)
قابلِ غور!
ایک امر قابل غور یہ ہے کہ جب اہلِ کتاب کا اختلاف ہلکا قرار دے کر ان کی عورتوں سے نکاح مسلمان کا جائز ہوا، تو اس کے برعکس مسلمان عورتوں کا نکاح بھی غیر مسلم اہلِ کتاب سے جائز ہوجانا چاہیے، مگر ذرا غور کرنے سے فرق واضح ہوجاتا ہے کہ عورت کچھ فطرۃً ضعیف ہے اور پھر شوہر اس پر حاکم اور نگراں بنایا گیا ہے، اس کے عقائد ونظریات سے عورت کا متاثر ہوجانا مستبعد نہیں، اس لیے اگر مسلمان عورت غیر مسلم کتابی کے نکاح میں رہے تو اس کے عقائد خراب ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے، بہ خلاف اس کے کہ غیرمسلم کتابی عورت مسلمان کے نکاح میں رہے تو اس کے خیالات کا اثر شوہر پر پڑنا اصولاً مستبعد ہے، کوئی بےاصول اور افراط کا شکار ہوجائے یہ اس کا اپنا قصور ہے۔۔۔نیز اہلِ کتاب یہود و نصاریٰ کی عورتوں سے مسلمان مَردوں کو نکاح کی اجازت کے بھی معنی یہ ہیں کہ اگر نکاح کرلیا جائے تو نکاح صحیح ہوجائے گا، اولاد ثابت النسب ہوگی، لیکن روایاتِ حدیث اس پر شاہد ہیں کہ یہ نکاح بھی پسندیدہ نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کو اپنے نکاح کے لیے دین دار صالح عورت تلاش کرنا چاہیے، تاکہ خود اس کے لیے بھی دین میں معین ثابت ہو اور اس کی اولاد کو بھی دین دار ہونے کا موقع میسر آئے، اور جب غیر متدین مسلمان عورت سے نکاح پسند نہیں کیا گیا، تو کسی غیرمسلم سے کیسے پسند کیا جاتا! یہی وجہ ہے کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو جب خبر پہنچی کہ عراق وشام کے مسلمانوں میں کچھ ایسے ازدواج کی کثرت ہونے لگی، تو بہ ذریعۂ فرمان ان کو اس سے روک دیا گیا اور اس پر توجہ دلائی گئی کہ یہ ازدواجی تعلق دیانۃً بھی مسلم گھرانوں کے لیے خرابی کا سبب ہے اور سیاسۃً بھی۔(ملخصاً ازمعارف القرآن)
سابقہ اجازت منسوخ ہو گئی
پہلے مسلمان مرد اور کافر عورت اور اس کے برعکس دونوں صورتوں میں نکاح کی اجازت تھی، اس آیت سے اس کو منسوخ کردیا گیا۔ اگر مرد یا عورت مشرک ہو تو اس کا نکاح مسلمان سے درست نہیں، یا نکاح کے بعد ایک مشرک ہوگیا تو نکاحِ سابق ٹوٹ جائے گا۔ اور شرک یہ (ہے) کہ علم یا قدرت یا کسی اور صفتِ خداوندی میں کسی کو خدا کا مماثل سمجھے، یا خدا کے مثل کسی کی تعظیم کرنے لگے، مثلاً کسی کو سجدہ کرے یا کسی کو مختار سمجھ کر اس سے اپنی حاجت مانگے۔ باقی اتنی بات دیگر آیات سے معلوم ہوتی ہے کہ یہود و نصاریٰ کی عورتوں سے مسلمان مرد کا نکاح درست ہے، وہ اِن مشرکین میں داخل نہیں، بہ شرط یہ کہ وہ اپنے دین پر قایم ہوں، دہریہ اور ملحد نہ ہوں، جیسے اکثر نصاریٰ آج کل کے نظر آتے ہیں۔(تفسیرِ عثمانی)
ایمان کا تقاضا
(ویسے بھی) عورت اور مرد کے درمیان نکاح کا تعلق محض ایک شہوانی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ ایک گہرا تمدنی، اخلاقی اور قلبی تعلق ہے۔ مومن اور مشرک کے درمیان اگر یہ قلبی تعلق ہو، تو جہاں اس امر کا امکان ہے کہ مومن شوہر یا بیوی کے اثر سے مشرک شوہر یا بیوی پر اور اس کے خاندان اور آیندہ نسل پر اسلام کے عقائد اور طرزِ زندگی کا نقش ثبت ہوگا، وہیں اس امر کا بھی امکان ہے کہ مشرک شوہر یا بیوی کے خیالات اور طور طریقوں سے نہ صرف مومن شوہر یا بیوی، بلکہ اس کا خاندان اور دونوں کی نسل تک متاثر ہوجائے گی، اور غالب امکان اس امر کا ہے کہ ایسے ازدواج سے اسلام اور کفر و شرک کی ایک ایسی معجونِ مرکب اس گھر اور اس خاندان میں پرورش پائے گی، جس کو غیر مسلم خواہ کتنا ہی پسند کریں، مگر اسلام کسی طرح پسند کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ جو شخص صحیح معنوں میں مومن ہو، وہ محض اپنے جذباتِ شہوانی کی تسکین کے لیے کبھی یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ اس کے گھر اور اس کے خاندان میں کافرانہ و مشرکانہ خیالات اور طور طریقے پرورش پائیں اور وہ خود بھی نادانستہ اپنی زندگی کے کسی پہلو میں کفر و شرک سے متاثر ہوجائے۔ اگر بالفرض ایک فردِ مومن کسی فردِ مشرک کے عشق میں بھی مبتلا ہوجائے، تب بھی اس کے ایمان کا اقتضا یہی ہے کہ وہ اپنے خاندان، اپنی نسل اور خود اپنے دین و اخلاق پر اپنے شخصی جذبات قربان کر دے۔ (تفہیم القرآن)
عقائد درست ہوں
حضرت تھانویؒ تحریر فرماتے ہیں کہ جو مرد ظاہری حالت سے مسلمان سمجھا جائے، لیکن عقائد اس کے کفر تک پہنچے ہوں، اس سے مسلمان عورت کا نکاح درست نہیں، اور اگر نکاح ہوجانے کے بعد ایسے عقائد خراب ہوجاویں تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے، جیسے آج کل بہت سے آدمی اپنے مذہب سے ناواقف سائنس کے اثر سے اپنے عقائد تباہ کرلیتے ہیں، لڑکی والوں پر واجب ہے کہ پیام آنے کے وقت اول عقائد کی تحقیق کرلیا کریں، تب زبان دیں۔ (بیان القرآن)
مسلم کا غیر مسلم کے ساتھ فرار ہونا
کسی مسلمان عورت کا نکاح کیے بغیر کسی شخص کے ساتھ فرار ہوجانا سخت گناہ ہے اور کافر کے ساتھ تو اور بھی شدید معصیت ہے،کیوں کہ کافر سے کسی مسلمان عورت کا نکاح نہیں ہوسکتا۔ لیکن توبہ، استغفار کی وجہ سے بڑے سے بڑا گناہ بھی معاف ہوجاتا ہے ،اس کی وجہ سے لڑکی دِین سے خارج نہیں ہوتی ، لہٰذا یہ بات مناسب نہیں کہ اب اس لڑکی کو اس کا باپ اپنے گھر نہ آنے دے کہ اس کے نتیجے میں وہ اور برائیوں میں مبتلا ہوتے جائی گی ، اور نہ یہ مناسب اور شرعاً درست ہے کہ لڑکی کو مارا (پیٹا) جائے ، صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس سے توبہ کرائی جائے ، اور اگر وہ غیر مسلم لڑکا اسلام قبول کرنے کو تیار ہوجائے، تو اسے کلمہ پڑھا کر اسی سے نکاح کردیا جائے، اور اگر اس کے لیے تیار نہ ہو تو کسی اور مسلمان لڑکے سے اس کا نکاح کردیا جائے ، تاکہ وہ حلال اور جائز طریقے پر اپنی زندگی گزار سکے ، اور اگر وہ زنا کی وجہ سے حاملہ ہوگئی ہو اور ابھی چارماہ سے کم کا حمل ہو ، تو اس بات کی بھی گنجائش ہے کہ اس کا حمل ساقط کردیا جائے، اور اس کے اس گناہ کی تشہیر اور لوگوں سے اس کا تذکرہ بھی درست نہیں،کیوں کہ اگر مسلمان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہو تو اس کے ساتھ ستر اور پردہ پوشی کا معاملہ کرنا چاہیے، حدیث شریف میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے۔(کتاب الفتاویٰ) اسی پر مسلمان لڑکے کا غیر مسلم لڑکی کے ساتھ فرار ہونے کا حکم بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔
ایسی اولاد کا نسب اور وراثت
ایسے رشتے سے پیدا ہونے والی اولاد البتہ اپنے ماں باپ کے گناہ سے بَری ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب پوچھا جاتا : (کیا) ولد الزنا شرالثلاثۃ (یعنی کیا یہ بھی اپنے والدین کی طرح شر) ہے ؟ تو وہ فرماتی تھیں : اس پر اپنے والدین کا کوئی گناہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : کوئی بوجھ اٹھانے والا، دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔(کنزالعمال) لیکن حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ہے: زنا سے پیدا ہونے والا بچہ زانی سے ثابت النسب نہیں ہو سکتا۔(مصنف ابن ابی شیبۃ) حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کو وارث قرار نہیں دیتے تھے، اگرچہ کوئی شخص اس کا باپ ہونے کا دعویٰ کرے۔(دارمی)اس لیے مسلمان اور غیر مسلم کے رشتے سے پیدا ہونی والی اَولاد کا نسب مسلمان سے ثابت نہیں ہوگا، نہ اُسے مسلم باپ سے میراث ملے گی، اس لیے کہ یہ نکاح باطل ہے۔فتاویٰ شامی میں ہے: کافرنے مسلمان عورت سے نکاح کیا، جس سے اولاد ہوئی، تو اس سے نسب ثابت نہ ہوگا، نہ عورت پر عدت واجب ہوگی، کیوں کہ یہ نکاح باطل ہے۔ (شامی)
(مضمون نگار الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا کے محقق اور ڈیرکٹر ہیں)