لیلۃ القدر میںعبادت کی فضیلت
افادات: مفتی احمد خانپوری مدظلہ
شب ِ قدر اللہ تبارک وتعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ امّت ِ محمدیہ کوعطافرمائی ہے، روایتوں میں آتا ہے کہ نبیٔ کریم ﷺنے امّت ِ محمدیہ کی عمروں کا تذکرہ کیا ،جیسا کہ حضورﷺکاارشادہے:﴿أَعْمَارُأُمَّتِیْ مَابَیْنَ سِتِّیْنَ اِلَی سَبْعِیْنَ ﴾میری امّت کی عمریںساٹھ سےلےکرسترکے درمیان ہے،عام طورپر امّت ِ محمدیہ کے لوگ ساٹھ ، ستر کے درمیان رخصت ہوجاتے ہیں ،کوئی ذراآگے بڑھ گیاتوبڑھ گیا، ورنہ عام طور پریہی عمریں رہتی ہیں۔ اپنی امّت کی عمروں کو یاد کیااوراس کے مقابلہ میں اگلی امّتوں کو جوعمریں دی گئی تھی اس کوجب نبیٔ کریمﷺنے دیکھا توآپ کویہ خیال ہوا کہ عبادات میں میری امّت ان کامقابلہ نہیں کرسکتی،جس کی وجہ سے آپﷺکےدل میںایک غم کی سی کیفیت پیداہوئی۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ حضوراکرم ﷺکوامّت کےساتھ کتنا تعلق تھا کہ یہ چیز بھی آپ کےلیے باعث ِ غم ہوئی،تواس پراللہ تعالیٰ کی طرف سے سورۂ قدر اتاری گئی جس میںارشاد فرمایا: ﴿لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ أَلْفِ شَہْرٍ﴾ شب ِ قدرہزارمہینوںسےبہترہے۔اورہزارمہینوںکاحساب لگایاگیاتو تراسی (۸۳) سال اور چار(۴)مہینےہوتے ہیں،اور فرمایاگیاکہ اس سے بہترہے۔ اگر کوئی آدمی تراسی سال اورچار مہینے عبادت کرے اس کو شب ِ قدر میں عبادت کاثواب اس سے بھی زیادہ ملے گا،اوروہ زیادتی کتنی ہوگی وہ بھی اس میں نہیںبتلائی گئی ہے، تو ظاہرہےکہ ایک رات کااتنا زیادہ ثواب ہے۔حضرت شیخ نوراللہ مرقدہٗ فرماتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کو زندگی میں دس راتیں بھی مل جائیں تو یوں سمجھئے کہ آٹھ سوتیتیس سال (۸۳۳؍سال) بلکہ اس سے زیادہ عبادت کا ثواب ملے گا۔اس لیے یہ بڑے اہتمام کی چیز ہے۔
بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ ایک مرتبہ نبیٔ کریم ﷺنے بنی اسرائیل کے ایک عابد کاتذکرہ کیا جس نے پانچ سوسال تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کی، یہ سن کر صحابہ کرامؓ کویہ خیال ہواکہ ہمیںتویہ مقام حاصل نہیں ہوسکتا اوراس پرافسوس بھی ہوا کہ ہم باوجودچاہنے کے اس پرعمل نہیں کرسکتے؛ اس پرسورۂ قدر نازل ہوئی جس میں بتلایا گیا کہ شب ِ قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اب ظاہرہے اگرایسی چند راتیں آدمی کو میسرہوجائیں تو اس کی کامیابی اور مرادبرآنےکےلیے کافی ہے۔قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی:﴿ اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْر﴾باری تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے قرآنِ پاک کولیلۃ القدر میں نازل کیا۔ پوری سورۃ ہی شب ِ قدر کی فضیلت بیان کرنے کےلیے نازل کی گئی ہے۔وَقَالَ تَعَالٰی:﴿اِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ ﴾ہم نے قرآنِ پاک کو بابرکت رات میں نازل کیا،یہاں پربھی شب ِ قدرمراد لی گئی ہے ۔ آگے اس کے فضائل اوراس میں قیام وعبادت کے فضائل بتلارہے ہیں ۔
عن أَبي هريرة عن النبيِّ ﷺقَالَ : مَنْ قَامَ لَيْلَةَ القَدْرِ إيمَاناً وَاحْتِسَاباً غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔(ریاض الصالحین:۱۱۸۹)حضرت ابوہریرہ سے منقول ہےکہ نبیٔ کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جوآدمی لیلۃ القدر میں ایمان اوراحتساب کے ساتھ کھڑا رہا (یعنی اس نے نماز پڑھی اور عبادت کی) تواس کے پچھلے سارے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔
اس کی شرح کرتے ہوئے علماء نےلکھا ہے کہ نماز پڑھنا ہی ضروری نہیںبلکہ عبادت کے دوسرے جتنے طریقے ہیںجیسے: تلاوت،دعا،تسبیحات وغیرہ؛ ان میںسےکسی بھی طریقۂ عبادت کےذریعہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کی، اور اپنے اوقات کواس میں صرف کیا، تواس کویہ فضیلت حاصل ہوجائے گی۔
[email protected]