ماں باپ کے حقوق میں بھی اعتدال ضروری
ندیم احمد انصاری
ترقی کے زعم میں دنیا والوں نے اپنے ماں باپ کو یاد کرنے کے لیے بھی سال میں ایک ایک دن تجویز کر لیا ہے،جب کہ والدین اپنی اولاد کی پہلی سانس بلکہ اس کے وجود کے احساس سے لے کر اپنے آخری سانس تک ہر وقت اس کا خیال رکھتے ہیں۔ دنیاداروں نے طرح مئی کے دوسرے اتوار میں ’عالمی یومِ مادر‘ اور جون کے تیسرے اتوار کو ’یومِ پِدر‘ منانے کارواج عام کیا ہے،جس میں دوسروں کی دیکھا دیکھی بہت سے مسلمانوں نے بھی حصہ لینا شروع کر دیاہے۔اسے کسی دینی تقریب کے طور پر انجام نہیں دیا جاتا، لیکن غیروں کی نقالی میں ان دنوں کو جشن کے طور پر منانے والوں سے دیگر ایام میں اپنے والدین کے حقوق کا خاص خیال بھی نہیں رکھا جاتا۔ یہ صورتِ حال دن بہ دن بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔ جس سے بوڑھے والدین یا تو جیتے جی مر جاتے ہیں یا اپنی زندگی کے آخری گھڑیاں اسی دکھ میں گُھل کر گذار دیتے ہیں۔ مزید برآں آسائش و نمائش کی ہوس نے اولاد کو مال و دولت کے ایسے خواب دکھائے ہیں کہ انھیں شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے اولاد بوڑھے ماں باپ سے بہ آسانی جُدائی گوارا کر لیتی ہے۔ اس نعمتِ بے بہا کی ناقدری کی قیمت اولاد کو اس طرح چکانی پڑتی ہے کہ والدین کے فوت ہو نے پر ان کا آخری دیدار تک نصیب نہیں ہوتا۔پھر بھی دنیا کے چند ٹھیکروں کی خاطر یہ سب بہت عام ہو گیا ہے۔
رسمی دن منانے والوں کا حال
اسلام عید و بقر عید وغیرہ کے علاوہ کسی خاص دن و تاریخ میں اہتمام سے خوشیاں منانے کا قائل نہیں،شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والے دیگر ایام میں اپنی ذمے داری کا اہتمام نہیں کر پاتے۔جیسا کہ مدرز ڈے اور فادر ڈے منانے والے اکثر اپنے ماں باپ سے دیگر ایام میں زیادہ ترش روئی سے خطاب کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اگر اجازت دیں تو عرض کروں کہ حقیقت یہ ہے کہ آج یومِ مادر اور یومِ والد پر بھی لوگ سوشل میڈیا پر مبارک بادی کے پیغامات لے دے کر یا ان سے متعلق ڈی پی رکھ کر یہ دن سیلیبریٹ (celeberate) اور بعض اولڈیج ہوم میں جاکر پھولوں کا ایک گل دستہ تو اپنے ماں باپ کی نذر کر دیتے ہیں،لیکن اس سے زیادہ ان سے کچھ توقع رکھنا عبث ہے۔
معاشرے کی حالتِ زار
دل دکھتا ہے، روح کانپتی ہے یہ دیکھ کر کہ آج کے نوجوان لڑکے ہی نہیں لڑکیاں- جو صنفِ نازک تصور کی جاتی ہیں-بھی اپنے ماں یا باپ کو غصے سے جھڑکتی ہوئی کہتی ہیں- تم لوگ بہت پکاتے ہو! زیادہ بکواس مت کیا کرو! نہیں سمجھ میں آتا تو چُپ بیٹھو! ہر وقت چپڑ چپڑ کرتے رہتے ہو!-الامان والحفیظ۔ ذرا ٹھنڈے دماغ سے سوچیں تو سہی کہ اس وقت اُن بوڑھے ماں باپ پر کیا گزرتی ہوگی؟ کیا اسی دن کے لیے اُنھوں نے تمھارے لیے اپنے رات اور دن قربان کیے تھے کہ تم توانا ہو کر ان پر آنکھیں پھیلا کر اور گلا پھاڑ کر چلاؤ! جو نا ہنجار اپنے ماں باپ کو گالیاں بکتے ہیں اور جو بد بخت تمام حدوں کو پار کرکے ان پر ہاتھ اٹھاتے ہیں، ان کے بارے میں ہم کچھ بھی کہنے سے قاصر ہیں۔
قرآنی ہدایت
قرآن مجید میں فرمایا گیا:وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا ۭ اِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَآ اَوْ كِلٰـهُمَا فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيْمًاوَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًااور تمھارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرواور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں تمھارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انھیں اُف تک نہ کہو اور نہ انھیں جھڑکو، بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات کیا کرو اور ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ کرتے ہوئے ان کے سامنے اپنے آپ کو انکساری سے جھکاؤ، اور یہ دعا کرو کہ یا رب ! جس طرح انھوں نے میرے بچپن میں مجھے پایا ہے، آپ بھی ان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کیجیے۔(الاسراء: 23-24)
سابقہ امتوں سے میثاق
والدین کے حقوق کی اہمیت دیگر امتوں پر بھی واضح کی گئی تھی اور ان سے اس بابت عہد بھی لیا گیا تھا، لیکن انھوں نے اسے پامال کر دیا۔ ارشادِ ربانی ہے: وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ ۣوَبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْـنًا وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ ۭثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ وَاَنْتُمْ مُّعْرِضُوْنَ ۔اور (وہ وقت یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے پکا عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرو گے، اور والدین سے اچھا سلوک کرو گے اور رشتے داروں سے بھی اور یتیموں اور مسکینوں سے بھی، اور لوگوں سے بھلی بات کہنا، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، (مگر) پھر تم میں سے تھوڑے سے لوگوں کے سوا باقی سب (اس عہد سے) منہ موڑ کر پھرگئے۔ (البقرۃ:83)
والدین کا حق خدا کے ساتھ بیان کیا
والدین کی نافرمانی بہت بڑا گناہ ہے،اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے متعدد مرتبہ اپنے حق کے ساتھ ساتھ بیان فرمایا، ارشادِ ربانی ہے: وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا۔اور اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (النساء:36)
مالی نیکیوں میں والدین کا مقام
بلکہ والدین کی خدمت اور ان پر خرچ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے مالی نیکیوں میں سب سے اول نمبر پر رکھ کر بیان فرمایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: يَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ وَالْيَتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۭ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌلوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ وہ ( اللہ کی خوشنودی کے لیے) کیا خرچ کریں ؟ آپ کہہ دیجیے کہ جو مال بھی تم خرچ کرو وہ والدین، قریبی رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہونا چاہیے، اور تم بھلائی کا جو کام بھی کرو، اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ (البقرۃ: 215)
غلط کاموں میں والدین کی بھی اطاعت نہ کی جائے
البتہ اسلام نے اپنا امتیازِ خاص باقی رکھتے ہوئے بعض خاص حالات میں والدین کی مخالفت کی نہ صرف اجازت دی ہے، بلکہ حکماً ارشاد فرمایا ہے:يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاۗءَ لِلّٰهِ وَلَوْ عَلٰٓي اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ۔اے ایمان والو ! انصاف قائم کرنے والے بنو، اللہ کی خاطر گواہی دینے والے، چاہے وہ گواہی تمھارے اپنے خلاف پڑتی ہو، یا والدین اور قریبی رشتے داروں کے خلاف۔ (النساء: 135)اس لیے ہمیں چاہیے کہ اللہ و رسول کی ہدایات کی ہر ہر موقع پر پاس داری کریں۔اللہ تعالیٰ ہمیں نیک توفیق عنایت فرمائے۔آمین٭٭