ندیم احمد انصاری
ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کی کوئی غلط بات بھی غلط ماننے کو تیار نہیں ہوتے، اور جب کسی سے عداوت رکھتے ہیں ، تو اس کی درست بات کو بھی غلط ٹھہرانے سے نہیں چوکتے۔ جب کہ اسلام نے ہمیں ہر معاملے میں اعتدال پر قائم رہنے کی تعلیم دی ہے۔ والدین، اساتذہ اور علماے ربانین کی دست بوسی وغیرہ شریعت کے مطابق جائز اور درست ہے،لیکن اس کے کچھ آداب اور شرائط ہیں۔ اگر ان کا پاس و لحاظ رکھ کر کوئی شخص یہ کام انجام دے تو اسے ملامت کرنا یا ٹوکنا نہی عن المنکر نہیں بلکہ خود منکر ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس معاملے میں عمل کرنے والے اور ٹوکنے والے ہر ایک غلو کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ اس موضوع پر چند سطریں سپردِ قلم کی جائیں۔ اللہ تعالیٰ اسے مفید بنائے۔آمین
اصل بات
محبت اور تبرک کے ساتھ کسی چیز کو چومنے میں کوئی حرج نہیں، جیسے قرآنِ کریم کو چومنا۔ حتی کہ دو روایتوں میں دست بوسی اور قدم بوسی کا بھی تذکرہ آیا ہے۔ دو واقعات میں نو مسلم حضرات خدمتِ نبوی میں حاضر ہوئے تھے اور انھوں نے دست بوسی اور قدم بوسی کی تھی۔ ان میں سے ایک روایت ابوداؤد میں ہے، جو مشکوٰۃ میں بھی آئی ہے۔ یہ دونوں روایتیں اعلیٰ درجے کی صحیح نہیں، مگر وہ چومنا جو تبرک کے طور پر تھا، اس لیے گنجائش تھی۔ پھر جب بات آگےبڑھی اور لوگ بڑوں کو تعظیم کے طور پر چومنے لگے، تو علما نے دست بوسی کو ناپسند کیا اور قدم بوسی کو ناجائز قرار دیا، کیوں کہ وہ زمین بوسی کے مشابہ تھی اور زمین بوسی سجدے کے مشابہ ہے، اور علما نے یہ بات قیامِ تعظیمی کی جو ممانعت آئی ہے- کہ تم اپنے بڑوں کے لیے ایسا قیام نہ کرو، جیسا عجمی اپنے بڑوں کے لیے کرتے ہیں- اس سے مطلقاً و تعظیماً دست بوسی اور قدم بوسی کو بھی ممنوع قرار دیا ہے، کیوں کہ تعظیم جب حد سے بڑھ جاتی ہے تو وہ عبادت اور پوجا تک پہنچ جاتی ہے، اس لیے سدِ باب کے طور پر قدم بوسی کو تو مطلقاً ناجائز کہا اور دست بوسی کو نامناسب قرار دیا۔ اگر محبت میں چومنا ہے تو پیشانی چومے، یہی سنت ہے۔ (تحفۃ الالمعی)
حدیث کی بعض روایات
ابوداؤد شریف میں ہے:
أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ حَدَّثَهُ، وَذَكَرَ قِصَّةً، قَالَ: فَدَنَوْنَا، يَعْنِي مِنَ النَّبِيِّ ﷺ، فَقَبَّلْنَا يَدَهُ.(ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، انھوں نے ایک واقعہ بیان کیا، اس میں فرمایا کہ ہم آپ ﷺ کے قریب ہوگئے اور آپ کے دست مبارک پر بوسہ دیا۔
ابنِ عساکر کی روایت ہے:
عن كعب بن مالك قال: لما نزلت توبتي قبلت يد النبي ﷺ.
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : جب میری توبہ کا حکم نازل ہوا، میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہاتھ چوم لیے۔ (کنزالعمال)
ابنِ عساکر کی ہی ایک روایت ہے:
عن عمار بن أبي عمار أن زيد بن ثابت ركب يوما فأخذ ابن عباس بركابه، فقال له: تنح يا ابن عم رسول الله ﷺ ! فقال له: هكذا أمرنا أن نفعل بعلمائنا وكبرائنا فقال زيد: أرني يدك، فأخرج يده، فقبلها فقال: هكذا أمرنا أن نفعل بأهل بيت نبينا.
عمار بن ابی عمر سے مروی ہے، ایک دن حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ گھوڑے پر سوار ہونا چاہتے تھے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سواری کی رکابیں تھام لیں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا : اے ابن عباس، ہٹ جاؤ! ابن عباس نے کہا : ہمیں اپنے علما اور بزرگوں کے ساتھ یہی معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت زید نے فرمایا : مجھے اپنا ہاتھ دکھاؤ! حضرت ابن عباس نے اپنا ہاتھ نکالا تو حضرت زید نے ان کا ہاتھ چوما اور فرمایا : ہمیں بھی حکم دیا گیا ہے کہ ہم اپنے نبی کے اہلِ بیت کے ساتھ یہی معاملہ کریں۔ (کنزالعمال)
ترمذی وغیرہ میں ایک روایت ہے:
عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَسَّالٍ، قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ لِصَاحِبِهِ اذْهَبْ بِنَا إِلَى هَذَا النَّبِيِّ، فَقَالَ صَاحِبُهُ: لَا تَقُلْ نَبِيٌّ إِنَّهُ لَوْ سَمِعَكَ كَانَ لَهُ أَرْبَعَةُ أَعْيُنٍ، فَأَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ ﷺ فَسَأَلَاهُ عَنْ تِسْعِ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ، فَقَالَ لَهُمْ: لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا، وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَلَا تَمْشُوا بِبَرِيءٍ إِلَى ذِي سُلْطَانٍ لِيَقْتُلَهُ، وَلَا تَسْحَرُوا، وَلَا تَأْكُلُوا الرِّبَا، وَلَا تَقْذِفُوا مُحْصَنَةً، وَلَا تُوَلُّوا الْفِرَارَ يَوْمَ الزَّحْفِ، وَعَلَيْكُمْ خَاصَّةً الْيَهُودَ أَنْ لَا تَعْتَدُوا فِي السَّبْتِ، قَالَ: فَقَبَّلُوا يَدَهُ وَرِجْلَهُ، فَقَالَا: نَشْهَدُ أَنَّكَ نَبِيٌّ، قَالَ: فَمَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تَتَّبِعُونِي، قَالُوا: إِنَّ دَاوُدَ دَعَا رَبَّهُ أَنْ لَا يَزَالَ فِي ذُرِّيَّتِهِ نَبِيٌّ وَإِنَّا نَخَافُ إِنْ تَبِعْنَاكَ أَنْ تَقْتُلَنَا الْيَهُودُ.
صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے اپنے ساتھی سے کہا : چلو اس نبی کے پاس چلتے ہیں۔ اس کے ساتھی نے کہا نبی نہ کہو،اگر انھوں نے سن لیا تو ان کی چار آنکھیں ہوجائیں گی۔ پھر وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے اور آپ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کردہ نو کھلی ہوئی نشانیوں کے متعلق پوچھا۔ آپ ﷺنے فرمایا: ( ١ ) کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ ( ٢ ) چوری نہ کرو ( ٣ ) زنا نہ کرو ( ٤ ) ناحق کسی کو قتل نہ کرو ( ٥ ) کسی بےگناہ کو حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ کہ وہ اسے قتل کر دے ( ٦ ) جادو نہ کرو ( ٧ ) سود مت کھاؤ ( ٨ ) پاک باز عورت پر زنا کی تہمت مت لگاؤ ( ٩ ) اور دشمن سے مقابلے کے دن پیٹھ پھیر کر بھاگنے کی کوشش نہ کرو۔ اور خاص تم یہودیوں کے لیے یہ بات ہے کہ سبت (سنیچر) کے سلسلے میں حد سے آگے نہ بڑھو!
(آپ ﷺکا جواب سن کر) انھوں نے آپ کے ہاتھ پیر چومے اور کہا : ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نبی ہیں۔ آپ ﷺنے فرمایا : پھر تمھیں میری پیروی کرنے سے کیا چیز روکتی ہے ؟ انھوں نے کہا : داؤد علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی کہ ان کی اولاد میں ہمیشہ کوئی نبی رہے، اس لیے ہم ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے آپ کی اتباع کی تو یہودی ہمیں مار ڈالیں گے۔ (ترمذی)
امام ترمذیؒ فرماتے ہیں:
وفي الباب عن يَزِيدَ بْنِ الْأَسْوَدِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَكَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اس باب میں یزید بن اسود، ابن عمر اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ (ترمذی)
دست بوسی و قدم بوسی کا حکم اور آداب
مذکورہ بالا روایات سے دست بوسی کا جواز ثابت ہوتا ہے، لیکن علما نے سدِ باب کے طور پر اس کی کچھ حدیں مقرر کی ہیں۔ آگے اکابر علما کی بعض عبارتیں نقل کی جاتی ہیں، اُنھیں بغور مطالعہ فرمائیں۔
کفایت المفتی میں ہے: قدم بوسی فی حدِ ذاتہٖ جائز ہے۔ تقبیل ید و قدم میں بحیثیت نفسِ تقبیل کے کوئی فرق نہیں اور دست بوسی اور قدم بوسی کا جواز متعدد احادیث سے ثابت ہے ادعائے تخصیص غیر موجہ ہے۔ مجوزین نے اسی حکمِ اصلی کی بنا پر جواز کا فتویٰ دیا، مانعین نے قدم بوسی کو سجدہ کا ذریعہ اور دواعی قرار دے کر سد اللباب ممانعت کا حکم لگا دیا ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عوام ایسے معاملات میں اکثری طور پر حد سے تجاوز کرجاتے ہیں، پس واقف اور خاص آدمی کے لیے قدم بوسی میں مضائقہ نہیں اور عوام کو اجازت نہ دینا ہی احوط ہے۔ طلب من عالم اوزاہد یدفع الیہ قدمہ لیقبلہ لا یرخص فیہ ولا یجیبہ الیٰ ذالک وکذا اذا استاذن ان یقبل راسہ او یدیہ کذافی الغرائب۔( ہندیہ)(کفایت المفتی93)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:علم و بزرگی کے احترام کی خاطر ہاتھ پیر چومنے کی اجازت ہے، مگر ایسا نہ ہو کہ سجدے کی صورت بن جائے، اس کی اجازت نہیں۔ جھکنے کی بھی حدیث شریف میں ممانعت آئی ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ مخرج)کسی عالم و بزرگ کو تکلیف ہو تو نہ چومے، صرف اجازت ہے، واجب نہیں۔(جامع الفتاویٰ)
احسن الفتاویٰ میں ہے: عوام مسلمین کے ہاتھوں کی تقبیل (یعنی چومنا) جائز ہے۔ علما و متورعین کے ہاتھوں کی تقبیل مسنون یا مندوب ہے۔لیکن انحنا مکروہ ہے۔ باقی رہا یہ اشکال کہ تقبیل بلا انحنا ممکن ہی نہیں، سو جواب یہ ہے؛( ١ )تقبیل میں انحناء مقصود نہیں۔ قصداً انحناء للتعظیم ناجائز ہے، مطلقاً انحنا ممنوع نہیں اور نہ ہی اس سے تحرز ممکن ہے۔ کئی ایک ضروریات کی وجہ سے انحنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً کوئی چیز اٹھانے کے لیے، رکھنے کے لیے، کچھ دیکھنے کے لیے وغیرہ۔ اس کے عدمِ جواز کا کسی کو وہم نہیں ہو سکتا، اس لیے کہ انحنا مقصود نہیں( ٢ ) انحناء قریب الی الرکوع ناجائز ہے۔ معمولی سا انحنا ممنوع نہیں۔ (ماخوذ ا ز احسن الفتاویٰ)
حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی صاحبؒ کا اس موضوع پر مستقل رسالہ ہے، جو جواہر الفقہ میں موجود ہے۔ جس میں دلائل ذکر کرنے کے بعد بہ طور خلاصہ حضرت موصوف تحریر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ و تابعین کے جو واقعات آپ نے اس رسالے میں ملاحظہ فرمائے، اس کو اسی درجے میں رکھنا ضروری ہے، جس درجے میں سنت اور تعاملِ سلف سے اس کا ثبوت ہوا ہے۔ ان تمام روایات و واقعات کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کام ہوئے، مگر اتفاقی طور پر کسی ایک دو آدمی نے کر لیے، نہ اس کی عادت تھی، نہ سب مجمع کو یہ کام کرنا تھا، نہ کوئی کسی کو اس کی دعات دیتا تھا اور نہ کوئی کسی کی حرص کرتا تھا، بس اسی سادگی اور عدم پابندی کے ساتھ جہاں ہوں، جائز اور درست بلکہ مستحب بھی ہو سکتا ہے، جہاں یہ سادگی نہ رہی، پابندی پڑ گئی، تو وہ مفاسد سے خالی نہیں اور فقہا کا یہ ضابطہ معروف و مشہور ہے کہ اگر کسی مستحب کام میں کچھ منکراتِ شرعیہ شامل ہو جائیں تو اس مستحب کو بھی چھوڑ دینا واجب ہو جاتا ہے، بہ شرط یہ کہ وہ سننِ مقصودہ میں سے نہ ہو، جیسے جماعتِ نماز کے بعد کے مصافحے کو بعض فقہا نے اس لیے مکروہ قرار دیا کہ اس کو نماز کی ایک سنت جیسا قرار دے دینا خلافِ شرع اور گناہ ہے۔ بس مختصر بات یہی ہے کہ سنتِ رسول اللہ ﷺ اور تعاملِ صحابہ میں اس کی جو حد منقول ہے، اس کو اسی حد پر رکھا جائے تو بلا شبہ دست بوسی، قدم بوسی، معانقہ، مصافحہ سب جائز، بلکہ سنت و مستحب ہیں اور جہاں اس میں غلو کا پہلو یا دوسروں کی ایذا شامل ہو جائے، وہ گناہ ہے۔ (جواہر الفقہ)
٭٭٭٭