تعارف و تبصرہ
مفتی برہان الدین بجنوری
کثرتِ تصانیف امتِ محمدیہ کی ایک اہم خصوصیت ہے جس کی وجہ سے یہ امت دوسری امتوں پر اپنے علمی، ادبی اور تاریخی سرمایے کے لحاظ سے برتری رکھتی ہے۔ اس امت کے علما اور مصنفین کو اگر ’حبرُ بنی آدم‘ کا خطاب دے دیا جائے تو بالکل بہ جا ہے۔ یوں تو امتِ محمدیہ پورے کرۂ ارض پر پھیلی ہوئی ہے اور ہر ملک کے اہلِ علم نے اپنی تصانیف سے کتب خانوں کو مالامال اور علوم و فنون کو نہال کیا ہے مگر گذشتہ تین سو برس کے علماے برِ صغیر کو بہت سے اسلامی ممالک میں سکونت پذیر اہلِ علم کے مقابلے میں اللہ کی جانب سے کثرتِ تصانیف کی توفیق سے بہ طور خاص نوازا گیا ہے۔ قدیم علماے کرام کی تصانیف سے ہم سبھی استفادہ کرتے ہیں، موجودہ اہلِ علم میں بھی ان باتوفیق اہلِ علم کی کمی نہیں جنھیں بارگارہِ باری سے اس عظیم شرف کے لیے قبول فرمایا گیا۔ انھیں علماے کرام میں حضرت مولانا مفتی ندیم احمد بجنوری بھی ہیںجو اب تک درجنوں کتابیں تحریر کر چکے ہیں۔
اس وقت ان کی مرتب کردہ ایک کتاب ’محمودالمکاتیب‘ راقم کے سامنے ہے جس میں انھوں نے حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری دامت برکاتہم (شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین، ڈابھیل، گجرات) کے مکاتیب کو جمع فرمایا ہے۔ بزرگوں کے مکاتیب، مجالس اور مواعظ ضبطِ تحریر میں لا کر محفوظ کرنے کا سلسلہ کافی پرانا ہے۔ حضرت مجددِ الفِ ثانیؒ کے مکاتیب علمی دنیا میں خاص شہرت رکھتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے سیاسی مکتوبات، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ،حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ، حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ، حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کے مکاتیب سے ہم سبھی فیض یاب ہوتے ہیں۔ بزرگوں ہی کے نہیں خالص علمی، ادبی اور تحقیقی شخصیات کے مکاتیب کے مجموعے بھی برِ صغیر میں کثرت سے شایع ہوئے ہیں۔ مولانا شبلی نعمانیؒ، مولانا سید سلیمان ندویؒ، مولانا ابوالکلام آزادؒ، ڈاکٹر محمد اقبالؒ اور سرسیداحمدخاںؒ کے مکاتیب ہمارے کتب خانوں کی زینت ہیں۔
اُدبا، محققین، بزرگوں اور علماےکرام کے خطوط روحانیت اور علم و ادب کا گنجینہ ہوتے ہیں۔ ان میں نہ صرف صاحبِ مکتوب کا مزاج و مذاق پوشیدہ ہوتا ہے بلکہ مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے عہد کی سیاسی، سماجی اور علمی و ادبی تاریخ بھی ان سے پتا چلتی ہے۔ ان کے خیالات، ان کا اسلوبِ فکر اور پیش آمدہ واقعات و حوادث پر ان کی آرا بعد میں آنے والی نسلوں کے لیے روشنی فراہم کرتی ہیں۔ اس لیے مکاتیب کی جمع و ترتیب کا یہ سلسلہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔
حضرت مولانا مفتی احمد خانپوری صاحب اس عہد کی ایک عظیم شخصیت ہیں جن سے بہ یک وقت ہزاروں لوگ دنیا بھر میں علمی اور روحانی استفادہ کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک روحانی ہستی، بلکہ متبحر عالمِ دین بھی ہیں۔ ان کے مکاتیب روحانی اور دینی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ مکاتیب کے ایسے بیش بہا سرمائے کا شایع ہونا بہت ضروری ہے۔ راقم ذاتی طور پر مفتی ندیم احمد صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہے کہ انھوں نے اس بیش بہا سرمایۂ مکاتیب سے اسفادے کا موقع فراہم کیا اور کتابی صورت میں اسے شایع کر کے اس عہد کی ایک عظیم علمی و روحانی شخصیت کے فکر و خیال کا یہ خزانہ آیندہ نسلوں کے لیے محفوظ کر دیا۔
بلا شبہ حضرت مفتی خانپوری صاحب کے مکاتیب اپنے اندر ایک کشش رکھتے ہیں۔ جلی عناوین نے ان کی کشش اور دل رُبائی میں اضافہ کر دیا ہے۔ جلد اول کی فہرست میں سیکڑوں عناوین ہیں جن سے مکاتیب کے موضوعات کا تعین ہوتا ہے۔ سبھی خطوط کو موضوعات کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے تو درجِ ذیل موضوعات سامنے آتے ہیں: (۱)نصائح و تصوف (۲)مسائل (۳)مشورہ (۴)تعزیت (۵)تعبیر (۶)سماجی حالات (۷)وظائف (۸)تاریخ (۹)ذاتی افکار (۱۰)ردِ رسومات (۱۱)تہنیت۔ سبھی موضوعات پر حضرت مفتی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے بہت دل چسپ ہے اور دل و دماغ کو نور و سرور بخشتا ہے۔
زبان بہت سہل اور صاف ستھری ہے، اسلوب میں روانی اور اثر پایا جاتا ہے، بہ طور مثال مکتوب نمبر:۸۵ کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’آپ کا خط ملا، مدرسے میں رہتے ہوئے معمولات کی پابندی ہونا اور گھر پر جا کر باوجود فرصت اور فراغت کے پابندی نہ ہونا اچھی بات نہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وطن میں اچھے لوگوں کی صحبت میسر نہیں، وہاں جا کر وہاں کے قیام کے دوران صالحین کی صحبت اختیار کریں‘‘۔(مکتوب نمبر:۸۵)
اس اقتباس پر غور کرنے سے زبان کی سادگی، شفافیت اور روانی صاف طور پر پتا چلتی ہے، دل پر اثر ہوتا ہے۔ اس اقتباس کے موضوع کا تعلق بھی کسی مکتوب الیہ کی آپ بیتی سے نہیں بلکہ جگ بیتی سے ہے۔
تصوف اور سلوک کی راہ طے کرنے والے عوام و خواص میں سے کون ہوگا جسے صحبتِ ناجنس کا خمیازہ کبھی نہ کبھی بھگتنا نہ پڑا ہو، اس پریشانی کا ایک ہی علاج ہے اور وہ بہ الفاظِ مکتوب نگار یہ ہے:
’’صالحین کی صحبت اختیار کریں‘‘۔ اس کے بغیر نہ معمولات کی پابندی ہو سکتی ہے اور نہ ان کی تاثیر ہی ظاہر ہوگی۔
ایک اور اقتباس ملاحظہ فرمائیں اور غور کریں کہ کیسے اہم سوال کا جواب دو تین سطور میں پُر اثر طریقے پر مل جاتا ہے:
’’جو لوگ اخلاص اور دل سوزی کے ساتھ دین کا کام کرنے میں لگے ہوئے ہیں، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا اور ان سے دوستی اور محبت کا تعلق رکھیں تاکہ آپ کے دل میں بھی یہ کیفیت پیدا ہو‘‘۔(مکتوب نمبر:۸۶)
دینی خدمات انجام دینے والوں اور دینی خدمت کی خواہش رکھنے والوں کے لیے یہ سطور بہت اہمیت رکھتی ہیں۔
اسلوب کی روانی، الفاظ کی سادگی، ترکیب کی بندش اور ان سب کے ساتھ بلکہ سب سے اہم ایک ایک لفظ میں موجود صفتِ تاثیر ایسے اوصاف ہیں جو ان مکاتیب کو ذخیرۂ مکاتیب میں اضافہ نہیں سرمایۂ مکاتیب کی زینت بنا دینے کے لیے کافی ہیں۔ یہ اوصاف دس پانچ مکتوبات میں نہیں پورے مجموعے میں قدرِ مشترک کے طور پر نظر آتے ہیں۔
’محمودالمکاتیب‘ کے مرتب نے کتاب میں حواشی کا خاص طور پر اہتمام کیا ہے۔ مکاتیب کے لیے حواشی ایک تسلیم شدہ حیثیت رکھتے ہیں، اکثر مجموعوں میں کچھ نہ کچھ حواشی ضرور شامل کیے جاتے ہیں مگر یہ حواشی عام طور پر کچھ مخصوص مواقع پر ہوا کرتے ہیں۔ احادیث کی تخریج اور فقہی عبارات و امہات الکتب کے حوالوں سے مزین کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی، جب کہ کسی بھی مکتوب میں درج شدہ مخصوص عبارات کی تخریج ایک ضروری امر ہے۔ اس مجموعے میں اس امر کی بہ خوبی تکمیل کی گئی ہے،مثلاً مکتوب نمبر: ۴۲ میں صاحبِ مکتوب لکھتے ہیں:
’’حضرت تھانویؒ نے فارسی والے مشہور شعر میں ترمیم فرمائی ہے۔ع
ایں چنیں تسبیح ہم دارد اثر‘‘
اس عبارت سے حاصل ہونے والے حظ کی تکمیل اسی وقت ہو سکتی ہے جب حاشیے میں اصل فارسی والے مشہور شعر کو درج کر دیا جائے۔ اگر اصل شعر سامنے نہ ہو تو عام قاری حضرت تھانویؒ کی جانب سے کی ہوئی ترمیم سے واقف ہی نہیں ہو سکےگا۔ اسی لیے مرتب نے حاشیے میں وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ سلطان باہو عین الفقر کا فارسی شعر اس طرح تھا؎
بر زباں تسبیح و در دل گاؤ خر
ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر
ترجمہ: زبان پر اللہ اللہ اور دل میں گائے گدھے (یعنی مال و متاع) کا تصور ہے، اگر اس طرح تسبیح پڑھے تو اس کا اثر کیا ہوگا؟ ندیم‘‘
حاشیہ پڑھنے کے بعد مکتوب کی عبارت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔
حواشی کی ضرورت کیوں پیش آئی اس کے متعلق مرتب لکھتے ہیں:
’’حضرت دامت برکاتہم کے مکتوب الیہم؍ مریدین میں بڑی تعداد اہلِ علم کی ہے؛ اس لیے بعض مکتوبات میں علمی مسائل و نکات کی طرف محض اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا تھا لیکن طباعت کے بعد چوں کہ پڑھنے والے ہر قسم کے لوگ ہوںگے، اس لیے حسبِ ضرورت حاشیے میں ایسے مقامات کی وضاحت کر دی گئی ہے‘‘۔(محمودالمکاتیب:۱؍۳۷)
حواشی سے پتا چلتا ہے کہ معدودے چند حواشی صاحبِ مکتوب کی جانب سے ہیں، بعض مفتی عبدالقیوم راجکوٹی صاحب کی جانب سے، مگر اکثر حواشی خود مرتب ہی کے ہیں۔ تینوں شخصیات کے حواشی مکتوبات کے لیے اہمیت کے حامل ہیں۔ اگر یہ حواشی نہ ہوتے تو بہت سے مقامات پر خفا باقی رہ جاتا۔