مسجد میں افطار کا معمول بنانا خلاف ادب ہے

مسجد میں افطار کا معمول بنانا، ندیم احمد انصاری

ہمیں صغر سنی ہی میں جب سے اللہ کے گھر یعنی مسجد میں حاضری کا شرف حاصل ہوا، رمضان کے مہینے میں تقریباً ہر جگہ افطار کے دسترخوان نظرآئے۔ گاؤں ہو یا شہر ہر جگہ عصر سے ہی اور بعض جگہ تو ظہر بعد سے افطار کی تیاریاں زور شور سے شروع ہو جاتی ہیں، جس میں کہیں کارکنان کا شور مسجد کے آداب کو غارت کرتا تو کہیں شربت بنانے اور پھل کاٹنے والوں کا تساہل روزے داروں سے پہلے مکھیوں کے جتھے کو دعوت دیتا ہوا نظر آتا ہے۔جو با وسعت حضرات مسجدوں میں افطار کا سامان بھجواتے ہیں، ان کے پیشِ نظر غالباً وہ احادیث ہیں جن میں روزے دار کو افطار کرانے کی ترغیب و فضیلت آئی ہے، جس پر سرِ تسلیم خم ہے لیکن عرض کرنے دیجیے کہ یہ احادیث کسی طرف مروج افطار پارٹیوں کی دلیل نہیں بن سکتیں، ہاں ضرورت کے موقع پر ان احادیث پر عمل کرنا بڑے اجر و ثواب کا کام ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ علاقے کے کتنے ہی افراد ایسی جگہوں پر اس لیے حاضر ہوتے ہیں کہ اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے مختلف اشیاے خوردنی جمع کریں اور کتنے احباب ان میں ’بہترین آئٹم‘ اپنے لیے نکال کر الگ رکھتے ہوئے خود ان آنکھوں نے دیکھے ہیں۔ مساجد میں جہاں غریبوں اور مسافروں کے افطار کا انتظام ہو تو صحنِ مسجد میں آداب کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ خدمت انجام دی جا سکتی ہے لیکن بلا ضرورت مسجد کے اطراف کے جو لوگ مسجدوں میں آکر لِلّٰہ آئے ہوئی افطاری کا جو اپنی ذات کے لیے استعمال کرتے ہیں، یا بلاکسی مجبوری کے اپنے ساتھ لائے ہوئے سامان کو لمبے دسترخوانوں پر سجا کر بیٹھتے ہیں، وہ مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
فی زمانہ مسئلہ یہ ہے کہ عبادات کے باب میں نہایت تساہل اور کسل مندی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے،جس کا ازالہ اشد ضروری ہے۔ آج کل بعض لوگ تو رمضان المبارک میں سحر و افطار سے ملحق نمازوں یعنی فجر و مغرب میں نماز با جماعت کو ہی خیر باد کہہ دیتے ہیں اور بعض نے اس کی یہ صورت نکالی ہے کہ افطار ہی مسجد میں لے کر بیٹھ جاتے ہیں، جب کہ علماء نے غیر معتکف کے لیے مسجد میں کھانے پینے کو مکروہ قرار دیا ہے، گو کہ بعض علماء نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی ہے کہ مسجد ملوث نہ ہونے پائے یا بعض نے نفل اعتکاف کی نیت کرنے کا راستہ بھی بتایا ہے۔جس کے لیے ضروری ہے کہ اگر کوئی کسی وجہ سے مسجد میں ہی افطار کرے تو اولاً تو صحنِ مسجد میں یا کام کرے اور اگر کسی طرح وہاں ممکن نہ ہو تو مسجد کے احترام کا پورا لحاظ رکھے اورکم از کم نفل اعتکاف کی نیت سے افطار سے کچھ قبل مسجد میں داخل ہو جائے۔ جیسا کہ حضرت مولانا ظفر احمد تھانویؒ رقم طراز ہیں:’’ایسی حالت میں افطار مسجد میں کیا جائے، مگر مسجد کی حد کے اندر نہ کھائیں بلکہ باہر کھائیں اور باہر کوئی جگہ مناسب نہ ہو تو مسجد ہی میں کھا لیں اور کھانے سے کچھ دیر پہلے اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں آجایا کریں۔‘‘ (امداد الاحکام)

پھر بھی اس کا عام رواج بنا لینا مناسب معلوم نہیں ہوتا، اس لیے کہ اس میں مسجد کی بے ادبی کی صورتیں سامنے آتی ہیں۔کبھی مسجد میں شور شرابہ ہوتا ہے تو کبھی جماعت کھڑی ہونے تک کھاتے پیتے رہتے ہیں اور جب امام نماز شروع کر دیتا ہے، تب کہیں جاکر جلدی جلدی سامان سمیٹتے ہیں، جس سے بعض دفع جلد بازی میں مسجد کی چٹائیاں بھی ملوث ہو جاتی ہیں اور مکھیاں بھنکنے لگتی ہیں، جب کہ رسول اللہﷺ نے مساجد کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے،اس لیےبہتر یہی ہے کہ اپنے مقام سے جلد افطار کرکے مسجد پہنچنے کی فکر کریں۔نیز گھر سے افطار کرکے آنے والے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی علیہ الرحمہ کی یہ ہدایت ملحوظ رکھیں تو کیا ہی اچھا ہو کہ ’’ اکثر جگہ دیکھا جاتا ہے کہ افطار کے سامان میں، جس کو عُر ف میں افطاری کہتے ہیں، اس قدر اہتمام کرتے ہیں کہ اس کے کھاتے کھاتے مغرب کی جماعتِ مسجد بالکل یا کسی قدر فوت ہو جاتی ہے اور یہ بات قصداً اور اکثر ہوتی ہے، جس میں شرعاً معذور بھی نہیں ہو سکتا۔ جماعتِ مسجد کی جو کچھ تاکید آئی ہےاس کے اعتبار سے یہ عادت نہایت منکر ہے، اول تو [افطار میں] اس قدر اہتمام ہی کی کیا ضرورت ہے؟دوسرے یہ بھی ممکن ہے کہ نماز کے بعد یہ شغل ہو اور افطار کسی مختصر چیز سے ہو کہ نماز میں حاضر ہو جائے۔‘‘(اغلاط العوام)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here