مفتی ندیم احمد انصاری
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو شریعت نازل کی ہے اس میں بندوں کی مکمل رعایت رکھی گئی ہے۔ شریعت کا ہر حکم حکمت سے پُر ہے، اس لیے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے اور جذباتیت سے پرے ہو کر شریعت کے حکموں کو ماننا چاہیے۔ شریعت میں ایک حصہ فضائل کا اور ایک حصہ مسائل کا ہے۔ اب تو فضائل پڑھ سن کر غیرمحقق مسائل کا استخراج کرنے لگے ہیں۔ ایسے لوگ جب اس میدان میں کود پڑتے ہیں تو فساد ہی پھیلاتے ہیں۔اس وقت فرض نمازوں کی جماعت کا مسئلہ زیرِ بحث ہے۔ شریعت نے مَردوں کو جماعت کی بہت تاکید کی ہے، احادیث میں کثرت سے اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں مگر بعض صورتوں میں شریعت نے ہی چھوڑنے کی بھی اجازت دی ہے، اس کے دلائل بھی احادیث میں موجود ہیں اور فقہاےکرامؒنے شرح و بسط کے ساتھ ان مسائل کو بیان کیا ہے۔ ان مسائل کو جاننے والے جب ان رخصتوں پر عمل کرتے ہیں تو نہ جاننے والے غیرسنجیدہ لوگ محض دشمنی اور حسد کی بنا پر علماےکرام اور مفتیانِ عظام کی پگڑیاں اچھالنے لگتے ہیںکہ دیکھو وہ مولوی صاحب ہو کر، وہ مفتی صاحب ہو کر ایسا کرتے ہیں، یہ انتہائی پرلے درجے کی حماقت ہے۔
رخصت پر عمل کرنا
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے: اللہ تعالیٰ پسند کرتے ہیں کہ ان کی دی ہوئی رخصت پر عمل کیا جائے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کرنے کو ناپسند کرتے ہیں۔[مسنداحمدابن حنبل]حضرت حمزہ بن عمرواسلمیؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اپنے اندر سفر میں روزہ رکھنے کی قوت پاتا ہوں تو میں اگر روزہ رکھوں تو کیا کچھ گناہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا : یہ اللہ کی طرف سے رخصت ہے، سو جس نے اس پر عمل کیا خوب کیا، اور جس نے چاہا روزہ رکھنا تو اس پر گناہ نہیں۔[مسلم]
باجماعت نماز پڑھنا سنت ہے یا واجب؟
جمہور امت؛ صحابہؓوتابعینؒ،علما وفقہا کے نزدیک جماعت سنتِ مؤ کدہ ہے، مگر سننِ مؤ کدہ میں سنتِ فجر کی طرح سب سے زیادہ مؤ کد اور قریب بہ واجب ہے، ان سب حضرات نے قرآنِ کریم کے امر﴿وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ﴾ [البقرۃ] کو دوسری آیات اور روایات کی بنا پر تاکید کے لیے قرار دیا ہےاور جن احادیث کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد کے قریب رہنے والے کی نماز بغیر جماعت کے ہوتی ہی نہیں اس کا یہ مطلب قرار دیتے ہیں کہ یہ نماز کامل اور مقبول نہیں۔[معارف القرآن]جماعت کے واجب نہ ہونے کی ایک دلیل یہ ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے جماعت کی نماز کو تنہا نماز پڑھنے سے افضل بتایا ہے اور ان دونوں پر نکیر نہیں فرمائی جنھوں نے یہ کہا تھا کہ ہم نے اپنے کجاوے میں نماز پڑھ لی، اگر جماعت واجب ہوتی تو آپ ﷺ یقیناً نکیر فرماتے۔[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]
اذان سننے والے کی نماز بلاجماعت
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: جس نے اذان سنی، پھر نماز کے لیے نہ آیا اس کی نماز ہی نہیں ہوئی، مگر یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو۔[ابن ماجہ] جو حضرات جماعت کو فرض یا واجب کہتے ہیں ان کی ایک دلیل حضرت عبداللہ ابن عباسؓکی یہی حدیث اور یہ فتویٰ ہے کہ آپ سے ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا جو رات بھر نفلیں پڑھتا ہے اور ہمیشہ روزے رکھتا ہے مگر جمعہ اور جماعت میں شریک نہیں ہوتا، آپؓنے فرمایا: ایسا شخص جہنم میں جائےگا۔ اور جمہور حضرت ابنِ عباسؓکی مذکورہ حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ وعید کی حدیث ہے جس میں ناقص کو کا لعدم فرض کر کے گفتگو کی جاتی ہے یعنی بلا عذر تارکِ جماعت کی نماز ناقص ہے، مگر اس کو تہدیداً کالعدم قرار دیا گیا۔ اور حضرت ابن عباسؓکا فتویٰ اس شخص کے بارے میں ہے جو جمعہ اور جماعت کو بے حیثیت سمجھتا ہے، ان کی بے قدری کرتا ہے اور ان کو کچھ اہمیت نہیں دیتا، وہ استخفاف کی بنا پر کافر ہے نہ کہ ترکِ جماعت کی بنا پر۔ [تحفۃ القاری] ’معارف القرآن‘ میں ہے کہ ان احادیث کی بنا پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ اور ابو موسیٰ اشعریؓوغیرہ حضرات صحابہؓ نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جو شخص مسجد سے اتنا قریب رہتا ہے کہ اذان کی آواز وہاں تک پہنچتی ہے تو اگر وہ بلاعذر کے جماعت میں حاضر نہ ہوا تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی۔ساتھ ہی حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانیؒ تحریر فرماتے ہیں کہ آواز سننے سے مراد یہ ہے کہ متوسط آواز والے آدمی کی آواز وہاں پہنچ سکے، آلۂ مکبر الصوت (لاؤڈاسپیکر) یا غیر معمولی بلند آواز کا اس میں اعتبار نہیں۔ [معارف القرآن]
نماز، جماعت اور مسجدِ شرعی میں جماعت
نماز، جماعت اور شرعی مسجد کی جماعت یہ تین مختلف چیزیں ہیں۔ مَردوں کو شرعی مسجد قریب ہوتے ہوئے عام حالات میں بلا وجہ گھر میں نماز کی عادت نہیں بنانی چاہیے، لیکن قریب میں کوئی شرعی مسجد ہی نہ ہو یا شرعی مسجد تو ہو لیکن جماعت میں حاضر نہ ہونے کی کوئی اور رخصت موجود ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں، گھر ہی میں نماز ادا کر لینا بلا کراہت جائز ہے، اور بلا عذرِ شرعی بلا جماعت پڑھنا ناجائز اور گناہ کا موجب ہے۔مسجد میں جماعت سے نماز ادا کرنے کی فضیلت اس وقت زیادہ ہے جب کہ وہ واقعی شرعی مسجد ہو، محض جماعت خانے کا یہ حکم نہیں اور عموماً فرض نماز مسجد میں ہی باجماعت ادا کرتے ہیں، اس لیے جماعت کی نسبت مسجد کی طرف کی جاتی ہے۔[منحۃ الخالق]
تنہا اور باجماعت نماز کا ثواب
حضرت ابو سعید خدریؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مَرد کا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا گھر میں تنہا نماز پڑھنے سے پچیس درجہ افضل ہے۔[ابن ماجہ] نیز فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ہو یا گھر میں، اہلِ خانہ یا کسی کے ساتھ بھی ادا کر لینے سے جماعت کا ثواب مل جاتا ہے، لیکن مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کا ثواب زیادہ ہے۔[حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ] اور حضرت عبداللہ بن عمرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جماعت کی نماز کا ثواب تنہا نماز سے ستائیس گُنا زیادہ ہے۔[بخاری]جماعت اگر چہ نماز کی صحت کے لیے شرط نہیں، مگر اس کی بڑی اہمیت ہے، حدیثوں میں تنہا نماز اور باجماعت نماز کا موازنہ کیا گیا ہے، تنہا نماز کا ایک ثواب ہے اور باجماعت نماز کا پچیس گنا یا ستائیس گنا ثواب ہے، اس حدیث میں اشارہ ہے کہ تنہا نماز بھی صحیح ہے، اگر نماز کی صحت کے لیے جماعت شرط ہوتی جیسا کہ داود ظاہری اور بعض کہتے ہیں تو تنہا نماز کا کوئی ثواب نہ ہوتا، معلوم ہوا کہ جماعت شرطِ صحتِ صلوٰۃ نہیں، اور جماعت کا پچیس گنا یا ستائیس گنا ثواب جماعت کی فضیلت ہے۔[تحفۃ القاری]
مسجد میں باجماعت نماز کا ثواب
حضرت عثمان بن عفانؓفرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :جس نے نماز کے لیے وضو کیا اور وضو کی تکمیل کی، پھر فرض نماز کے لیے چل کرگیا اور لوگوں کے ساتھ یا جماعت کے ساتھ نماز ادا کی، یا مسجد میں نماز پڑھی ، اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دے گا۔ [مسلم] حضرت ابوموسیٰؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے فرمایا: نماز میں ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر وہ شخص ہے جو (مسجد میں نماز کے لیے) زیادہ دور سے آئے اور جو شخص نماز کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور پھر امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے وہ اجر میں اس شخص سےبڑھ کر ہے جو (پہلے ہی) پڑھ کر سو جائے۔[مسلم]
مسجد میں جماعت کے لیے نہ جانے کی رخصت
فقہا نے جماعت چھوڑنے کے درجِ ذیل اعذار ذکر کیے ہیں:(۱)مریض یعنی ایسا بیمار ہونا کہ مسجد تک جانا مشکل ہو (۲)اپاہج ہونا (۳)لنگڑا ہونا (۴)بوڑھااور اتنا ضعیف ہونا کہ مسجد تک جانے میں دشواری ہو(۵)نا بینا ہونا (۶)سخت بارش ، ژالہ باری یا برف باری ہونا (۷)راستے میں اتنا کیچڑ یا برف ہونا جس میں چل کر جانا مشقت میں ڈال دے (۸)سخت سردی ہونا (۹)اتنا اندھیرا ہونا کہ راستہ دکھائی نہ دیتا ہو (۱۰)آندھی یا تیز ہوا چلنا (۱۱)چور؍ ڈاکو یا کسی اور وجہ سے مال ہلاک ہونے کا خدشہ ہونا (۱۲)دشمن یا اس کے علاوہ کسی وجہ سے جان کا خطرہ ہونا (۱۳)قضاےحاجت کا شدید تقاضا ہونا (۱۴)سفر کا ارادہ ہونا اور جماعت کے سبب گاڑی یا ساتھیوں کے نکل جانے کا خوف ہونا (۱۵) مریض کی عیادت کے لیے ٹھہرنا جب کہ اس کے چلے جانے سے مریض کو مشقت یا وحشت کا خوف ہو (۱۶) کھانا حاضر ہونا، جب کہ اتنی بھوک لگی ہو کہ اگر کھانا نہ کھائےگا تو نماز میں اسی طرف دل اٹکا رہےگا (۱۷) مفتی یا عالمِ کا کبھی کسی دینی مسئلے میں ایسا مشغول ہونا کہ جماعت میں شامل ہونے میں دشواری ہو۔[شامی] مذکورہ بالا اعذار کے علاوہ ہر وہ عذر جس کے سبب جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں سخت مشقت برداشت کرنی پڑے یا نماز میں دھیان اسی طرف لگا رہے جماعت ترک کرنا یا مؤخر کرنا جائز ہے۔ [اعلاءالسنن]
مسجد نہ جانے کے باوجود مسجد کا ثواب
اگر مسجد میں جاکر باجماعت نماز ادا کرنے کی نیت ہو اور کسی شرعی عذر کی بنا پر مسجد میں نہ جا سکے تو بھی اسے جماعت کا ثواب مل جائےگا۔ [مراقی الفلاح]وقاص لیثی کا بیان ہے کہ میں نے مسجدِ نبوی میں منبرِ رسول سے حضرت عمر بن خطابؓکی زبان سے سنا، وہ فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ ارشاد فرما رہے تھے: تمام اعمال کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملےگا۔[بخاری]