[مہمان نوازی،قسط:۱]
مفتی ندیم احمد انصاری
مہمان نوازی ایک عمدہ ترین صفت ہے، صالح معاشرے میں اس کی ضرورت ہمیشہ برقرار رہےگی۔آپسی تعلقات کو گہرا کرنے میں اسے بڑا دخل ہے۔مال و دولت کی فراوانی اور اسباب وو سائل کی کثرت مخلص میزبان کی مہمان نوازی کی جگہ نہیں لے سکتی۔ مہمان نوازی خلیل اللہ حضرت ابراہیمؑ اور حبیب اللہ حضرت محمد ﷺ کا خاص وصف ہے، لیکن اب یہ صفت دھیرے دھیرے رخصت ہوتی جا رہی ہے۔ بِن بلائے مہمان کو دیکھ کر تو جان ہی سوکھ جاتی ہے، جنھیں باقاعدہ دعوت دے کر بلایا جاتا ہے ان کا بھی حق ادا نہیں کیا جاتا۔ شادی بیاہ میں مہمانوں کی بھیڑ جمع کرنا بھی ریاونمود کے جذبے سے ہوتا ہے کہ لوگ دیکھیں کہ ہمارے یہاں کتنے، کیسے اور کہاں کہاں سے مہمان آئے ہیں!اسلام میں مہمان کے اکرام کی بہت تاکید آئی ہے، اس لیے جو اللہ و رسول ﷺ کی غلامی کا دَم بھرے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ سورۂ ذاریات میں جہاں حضرت ابراہیمؑ کے مہمانوں کا ذکر آیا ہے،وہاں کہا گیاہے:یہ کچھ ان جان لوگ ہیں۔ [الذاریات] یعنی حضرت ابراہیمؑ انھیں پہچانتے نہ تھے، پھر بھی انھوں نے ان کی مہمان نوازی کی۔اس لیے جو لوگ بِن بلائے آجائیں ان کی بھی واجبی مہمان نوازی کی جانی چاہیے، ویسے موبائل فون وغیرہ کی سہولت کے زمانے میں بلا اجازت و بلا اطلاع کسی کے یہاں جا دھمکنا بھی اچھا نہیں۔ بعض مرتبہ دوسروں کو سرپرائز(Surprise) دینے کے چکر میںآدمی خود شاکڈ (Shocked) ہو کر رہ جاتا ہے۔ نیز جو لوگ آپ کی دعوت پر دوردراز کا سفر کر کے حاضر ہوں ان کی خاطر نہ کرنا بےوفائی اور دھوکےبازی ہے، لیکن یہ سب کچھ سماج میں ہو رہا ہے۔ اسی لیے یہاں مہمان نوازی سے متعلق اسلامی ہدایات جامع انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور ہمیں اسلامی معاشرت اپنی زندگی میں اپنانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین
مہمان نوازی کے معنی
’ضیافۃ‘ لغت میں ’ضاف‘ ( مہمان بنا ) کا مصدر ہے اور اصطلاح میں مہمان کے اکرام اور اس پر احسان کرنے کا نام ’ضیافت یا مہمان نوازی‘ ہےاور مہمان وہ ہے جو کسی کے پاس اکرام کے لیے آئے۔[الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ]
مہمان نوازی کا شرعی حکم
آنے والوں کی مہمانی کرنا آدابِ اسلام اور مکارمِ اخلاق میں سے ہے اور انبیا و صلحا کی عادت ہے۔ [معارف القرآن] ’الموسوعۃ الفقھیۃ‘ میں ہے: ضیافت مکارمِ اخلاق اور حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور آپ کے بعد کے انبیا کی سنت سمجھی جاتی ہے، اسلام نے اس کی ترغیب دی ہے اور اسے ایمان کی صداقت کی نشانیوں میں سے شمار کیا ہےاور یہ مسلمان پر اس کے مسلمان بھائی کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔ [الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ]
ابتداے اسلام میں
حضرت ابوکریمہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ہر مسلمان پر مہمان کی ایک رات کی ضیافت حق ہے، جو کسی مسلمان کے گھر میں رات گزارے تو ایک دن کی مہمانی اس پر قرض ہے، چاہے تو اسے وصول کرلے اور چاہے تو چھوڑ دے۔[ابوداود] حضرت مقدام ابوکریمہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص بھی کسی کے ہاں رات کو مہمان ہوجائے اور پھر وہ صبح تک مہمان داری سے محروم رہے تو بےشک ہر مسلمان پر اس کی مدد کرنا اس کا حق ہے یہاں تک کہ اگر کوئی اس کی مہمان نوازی نہ کرے تو وہ مہمان اس قوم کی کھیتی اور مال میں سے (اپنی ضرورت کے موافق) لے سکتا ہے۔ [ابوداود] حضرت عقبہ بن عامر ؓ نے بیان کیا کہ ہم نے حضرت نبی کریم ﷺ سے عرض کیا: آپ ہمیں مختلف ملک والوں کے پاس بھیجتے ہیں اور کبھی ہمیں ایسے لوگوں کے پاس جانا پڑتا ہے جو ہماری ضیافت نہیں کرتے، آپ کی ایسے موقع پر کیا ہدایت ہے ؟ آپﷺنے ہم سے فرمایا: اگر تمھارا قیام کسی قبیلے میں ہو اور تم سے ایسا برتاؤ کیا جائے جو کسی مہمان کے لیے مناسب ہے تو تم اسے قبول کرلو، لیکن اگر وہ ایسا نہ کریں تو تم خود مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو۔ [بخاری] ان احادیث و آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ ضیافت واجب ہے اور اس کو قرض کی طرح قرار دیا گیا ہے اور جس کے لیے واجب ہوئی ہے وہ اسے قرض کی طرح لے سکتا ہے، بعد میں یہ حکم منسوخ کردیا گیا۔ [شرح معانی الآثار]
مہمان نوازی واجب ہے یا سنت؟
اس میں علما کا اختلاف ہے کہ مہمانی کرنا واجب ہے یا نہیں؟ جمہور علما اس پر ہیں کہ واجب نہیں، سنت اور مستحسن ہے۔ بعض نے فرمایا کہ گاؤں والوں پر واجب ہے کہ جو شخص ان کے گاؤں میں ٹھہرے اس کی مہمانی کریں کیوں کہ وہاں کھانے کا کوئی دوسرا انتظام نہیں ہوسکتا اور شہر میں ہوٹل وغیرہ سے اس کا انتظام ہوسکتا ہے؛ اس لیے شہر والوں پر واجب نہیں۔[معارف القرآن]حنفیہ، مالکیہ اور شافعیہ کا مذہب یہ ہے کہ ضیافت سنت ہے اور اس کی مدّت تین دن ہے، امام احمدؒ سے بھی ایک روایت یہی ہے۔سحنونؒنے کہا: ضیافت دیہات والوں پر ہے، جہاں تک اہلِ شہر کا تعلق ہے تو جب مسافر شہر میں آئے گا تو اسے ٹھکانہ یعنی ہوٹل وغیرہ مل جائےگا تو ضیافت اہلِ شہر کے لیے مندوب ہوگی ، اور یہ شہر والوں پردیہات والوں کی طرح چند معانی کی بنا پر متعین نہیں ہوگی: (۱)اول یہ کہ شہر والوں کو بار بار اس طرح کا معاملہ پیش آتا ہے اگر شہر والے ضیافت کا التزام کریںگے تو اس سے چھٹکارا نہیں پائیںگے اور دیہات والوںکو شاذ و نادر یہ پیش آتا ہے تو انھیں کوئی مشقت لاحق نہیں ہوگی(۲) دوم یہ کہ مسافر کو شہر میں رہائش اور کھانا وغیرہ مل جاتا ہے لہٰذا ضیافت کے نہ ہونے کی صورت میں اسے مشقت لاحق نہیں ہوگی۔بڑے دیہاتوں کا حکم -جن میں ہوٹل اور بہ قیمت کھانے کی چیزیں میسر ہوتی ہیں اور ان میں لوگوں کی آمد و رفت زیادہ ہوتی ہے- شہر کی طرح ہوگا، اور یہ اس شخص کے بارے میں ہے جسے لوگ پہچانتے نہیں، لیکن جسے وہ محبت کے ساتھ پہچانتے ہیں یا اس کے اور دوسرے کے درمیان رشتے داری، تعلق اور اچھے تعلقات ہوں تو اس کا حکم شہر اور غیر شہر میں برابر ہے۔[الموسوعۃ الفقھیۃ]
مہمان نوازی رحمۃ للعالمین کا خصوصی وصف
حضرت محمد مصطفی ﷺ پر جب پہلی مرتبہ وحی نازل ہوئی اور آپ نے جان کا خوف محسوس کیا، اس وقت آپ کو تسلّی دیتے ہوئے آپ کی جاںنثار بیوی نے آپ کے جن اوصاف کا تذکرہ کیا تھا ان میں مہمان نوازی بھی ہے۔ بخاری شریف میں ہے کہ آپ ﷺ حضرت خدیجہ بنت خویلدؓکے پاس تشریف لائےاور فرمایا: مجھے کمبل اڑھا دو! مجھے کمبل اڑھا دو! تو لوگوں نے کمبل اڑھا دیا، یہاں تک کہ آپ کا خوف جاتا رہا۔ حضرت خدیجہؓسے سارا واقعہ بیان کر کے آپﷺ نے فرمایا: مجھے اپنی جان کا خوف ہے! حضرت خدیجہؓنے کہا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو صلہ رحمی کرتے ہیں! ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں! محتاجوں کے لیے کماتے ہیں! اور مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں! الحدیث۔[بخاری]
مہمان نوازی کی ابتدا حضرت ابراہیمؑ سے
حضرت سعیدؓسے روایت ہے، سب سے پہلے حضرت ابراہیمؑ نے مہمان کی مہمان نوازی کی۔ [مصنف ابن ابی شیبہ] حضرت ابراہیمؑ کی مہمان نوازی کا واقعہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر ذکر کیا ہے، ایک جگہ فرمایا:(اے پیغمبر) کیا ابراہیم کے معزز مہمانوں کا واقعہ آپ کو پہنچا ہے ؟جب وہ ابراہیم کے پاس آئے تو انھوں نے سلام کہا۔ ابراہیم نے بھی سلام کہا۔ (اور دل میں سوچا کہ) یہ کچھ ان جان لوگ ہیں۔ پھر چپکے سے اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور ایک موٹا سا بچھڑا لے آئے۔ اور اسے ان مہمانوں کے سامنے رکھا۔ کہنے لگے : کیا آپ لوگ کھاتے نہیں؟ اس سے ابراہیم نے ان کی طرف سے اپنے دل میں ڈر محسوس کیا۔ انھوں نے کہا : ڈریے نہیں، اور انھیں ایک لڑکے کی خوش خبری دی جو بڑا عالم ہوگا۔ [الذاریات]سورۂ ہود میں فرمایا: اور ہمارے فرشتے (انسانی شکل میں) ابراہیمؑ کے پاس (بیٹا پیدا ہونے کی) خوش خبری لے کر آئے۔ انھوں نے سلام کہا، ابراہیم نے بھی سلام کہا، پھر ابراہیم کو کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ وہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ [ہود]حضرت عبداللہ بن عباسؓنے فرمایا: یہ تین فرشتے، جبریل، میکائیل اور اسرافیل تھے، انھوں نے بہ شکلِ انسان آکر ابراہیم ؑ کو سلام کیا، حضرت ابراہیم ؑ نے سلام کا جواب دیا اور ان کو انسان سمجھ کر مہمان نوازی شروع کی۔[ معارف القرآن]ان کا معمول یہ تھا کہ کبھی تنہا کھانا نہ کھاتے بلکہ ہر کھانے کے وقت تلاش کرتے تھے کہ کوئی مہمان آجائے تو اس کے ساتھ کھائیں۔
علامہ قرطبیؒنے بعض اسرائیلی روایات سے نقل کیا ہے کہ ایک روز کھانے کے وقت حضرت ابراہیمؑ نے مہمان کی تلاش شروع کی تو ایک اجنبی آدمی ملا، جب وہ کھانے پر بیٹھا تو ابراہیم ؑ نے کہا: بسم اللہ کہو! اس نے کہا: میں جانتا نہیں اللہ کون اور کیا ہے ؟ ابراہیم ؑ نے اس کو دسترخوان سے اٹھا دیا۔ جب وہ باہر چلا گیا تو جبریل امینؑآئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے تو اس کے کفر کے باوجود ساری عمر اسے رزق دیا اور آپ نے ایک لقمہ دینے میں بھی بخل کیا! یہ سنتے ہی ابراہیم ؑ اس کے پیچھے دوڑے اور اس کو واپس بلایا۔ اس نے کہا کہ جب تک آپ اس کی وجہ نہ بتلائیں کہ پہلے کیوں مجھے نکالا تھا اور اب پھر کیوں بلا رہے ہیں، میں اس وقت تک آپ کے ساتھ نہ جاؤںگا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے واقعہ بتلا دیا تو یہی واقعہ اس کے مسلمان ہونے کا سبب بن گیا۔ اس نے کہا کہ وہ رب جس نے یہ حکم بھیجا ہے بڑا کریم ہے، میں اس پر ایمان لاتا ہوں، پھر حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ گیا اور مومن ہو کر باقاعدہ بسم اللہ پڑھ کر کھانا کھایا۔[دیکھیے معارف القرآن]