مہمان نوازی کے فضائل و آداب

[مہمان نوازی،قسط:۳]

مفتی ندیم احمد انصاری

مہمان کا آنا، اچھا شگون

حضرت ابو قرصافہؓسے روایت ہے: جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی قوم کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو ان کے پاس مہمان کو ہدیے کے طور پر بھیجتا ہے، مہمان ان کے پاس اپنا رزق لے کرآتا ہے، جب وہ کوچ کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہلِ خانہ کی مغفرت کردی ہوتی ہے۔ [کنزالعمال]

مہمان نواز کنجوسی سے بری

حضرت خالد بن زید بن حارثہ سے روایت ہے: جس نے زکوٰۃ ادا کی، مہمان نوازی کی اور مصیبت میں کسی کو دیا تو وہ کنجوسی سے بری ہوگیا۔ [کنزالعمال]

اس شخص میں کوئی خیر نہیں

حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس شخص میں کوئی خیر نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔ [مسند احمدابن حنبل]

مہمان نوازی میں بدلہ نہیں

حضرت ابوالاحوصؓاپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!میں ایک آدمی کے پاس سے گزرتا ہوں تو وہ میری مہمان نوازی نہیں کرتا، پھر وہ میرے پاس سے گزرتا ہے تو کیا میں بھی اس کے بدلے میں اسی طرح کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ اس کی مہمان نوازی کرو،الحدیث۔ [ترمذی]

مہمان میزبان کو حرج میں نہ ڈالے

ابوشریح کعبیؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے، ایک دن رات تو اس کا جایزہ ہے اور تین دن ضیافت ہے اور اس سے زیادہ صدقہ ہے اور مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کے پاس اتنا ٹھہرے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔ [بخاری]

میزبان کو گنہ گار نہ کرے

حضرت ابوشریح خزاعیؓنے فرمایا: مہمان نوازی تین دنوں تک، اور جائزہ ایک دن اور ایک رات تک ہے، اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اتنا قیام کرے کہ اسے گنہ گار کر دے۔ حضراتِ صحابہ کرامؓنے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ اسے گنہ گار کیسےکر دےگا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ میزبان کے پاس اس قدر ٹھہرے کہ اس کے پاس مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ بچے۔ [مسلم]

جایزہ، ضیافت اور صدقہ

حضرت ابوشریح عدویؓکا بیان ہے کہ میرے کانوں نے سنا اور میری آنکھوں نے دیکھا جب آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ و قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے، اور جو شخص اللہ و قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی جایزے سے عزت کرے! پوچھا گیا:اے اللہ کے رسول!جایزہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک دن ایک رات (خاطر کرنا جایزہ ہے)، اور ضیافت تین دن ہے، جو اس سے زیادہ ہو وہ صدقہ ہے، اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ خاموش رہے۔ [بخاری]

تین دنوں سے زیادہ مہمان داری

ابوعثمان کہتے ہیں کہ میں سات دن تک حضرت ابوہریرہؓکا مہمان رہا، وہ، ان کی بیوی اور ان کے خادم تہائی رات باری باری اٹھتے، ایک نماز پڑھ لیتا تو دوسرے کو جگا دیتا۔ [بخاری]اس روایت سے معلوم ہوا کہ سابقہ روایات میں تین دنوں کا ذکر حصر کے لیے نہیں، حرج سے بچانے کے لیےہے ، اس لیے فقہاےکرامؒفرماتے ہیں کہ مہمان تین دنوں سے زائد قیام نہ کرے تاکہ میزبان اس سے تنگ دل اور اسے بھگانے پر مجبور نہ ہو، البتہ اگر صاحبِ مکان خلوصِ دل سے مہمان کو اپنے پاس قیام کرنے پر اصرار کرے تو اس کے لیے قیام کی اجازت ہے۔[الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ]

گناہ کی جگہ مہمان نہ بنے

سفینہ ابوعبدالرحمن روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت علیؓکی دعوت کی اور آپ کے واسطے کھانا بنایا تو حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا: کاش ہم رسول اللہ ﷺ کو بھی بلاتے اور آپ ہمارے ساتھ کھانا کھاتے! چناں چہ انھوں نے آپ ﷺ کو بلا لیا، آپ ﷺ تشریف لائے، آپ نے اپنا دستِ مبارک دروازے کی چوکھٹ پر رکھا تو گھر کے ایک کونے میں تصویروں والا پردہ دیکھا، یہ دیکھ کر آپ واپس لوٹ گئے۔ حضرت فاطمہؓنے حضرت علیؓسے فرمایا: جائیے اور دیکھیے کہ آپ ﷺ کو کس چیز نے واپس لوٹا دیا؟ حضرت علیؓکہتے ہیں کہ میں آپﷺ کے پیچھے آیا، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کس چیز نے لوٹا دیا؟ آپﷺ نے فرمایا: بےشک میرے یا کسی نبی کے لیے درست نہیں کہ کسی ایسے گھر میں داخل ہو جہاں تصویروں والے نقش و نگار ہوں۔ [ابوداود]

مہمان کے لیے مستقل انتظام

حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: آدمی کے لیے ایک بستر ہونا چاہیے، ایک بستر اس کی بیوی کے لیے ہونا چاہیے، تیسرا بستر مہمان کے لیے ہونا چاہیے اور چوتھا تو شیطان کے لیے ہے۔ [مسلم] حضرت ثابتؓسے روایت ہے: ہرچیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور مکان کی زکوٰۃ مہمان خانہ ہے۔ [کنزالعمال]حضرت انسؓسے روایت ہے: آدمی کے گھر کی زکوٰۃ یہ ہے کہ وہ اس میں مہمان خانہ بنائے۔ [کنزالعمال]

مہمان کا استقبال

جب کوئی مہمان آئے تو میزبان کو چاہیے کہ اس کا استقبال کرے،حضرت عائشہؓ سے روایت ہے، (ایک دن) حضرت فاطمہؓتشریف لائیں، ان کی چال رسول اللہ ﷺ کی چال کی طرح تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مرحبا اے میری بیٹی! اس کے بعد آپﷺ نے انھیں اپنی دائیں یا بائیں جانب بٹھا لیا ۔[بخاری]

مہمان پہلے سلام کرے

سورۂ ذاریات میں ہے: ﴿ اِذْ دَخَلُوْا عَلَيْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ ۚ﴾ جب وہ ابراہیمؑ کے پاس آئے تو انھوں نے سلام کہا، ابراہیم نے بھی سلام کہا۔[الذاریات] سورۂ ہود میں بھی ہے:﴿ قَالُوْا سَلٰمًا ۭ قَالَ سَلٰمٌ﴾ انھوں نے سلام کہا، ابراہیم نے بھی سلام کہا۔ [ہود]مسلمانوں کے لیے سنت ہے کہ جب آپس میں ملیں تو سلام کریں، آنے والے مہمان کو اس میں پیش قدمی کرنا چاہیے اور دوسروں کو جواب دینا چاہیے۔قرآنِ کریم میں اس جگہ فرشتوں کی طرف سے صرف ﴿سَلٰمًا﴾ اور حضرت ابراہیم ؑ کی طرف سے جواب میں ﴿سَلٰمٌ﴾ ذکر کیا گیا ہے، بہ ظاہر یہاں پورے الفاظِ سلام کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ سمجھی، جیسے عرف و محاورے میں کہا جاتا ہے کہ فلاں نے فلاں کو سلام کیا، مراد یہ ہوتی ہے کہ پورا کلمہ السلام علیکم کہا، اسی طرح یہاں لفظ سلام سے پورا کلمۂ مسنونہ سلام کا مراد ہے جو رسولِ کریمﷺ نے اپنے قول و عمل سے لوگوں کو بتلایا ہے۔[دیکھیے معارف القرآن]

مہمان کے آتے ہی ماحضر پیش کرنا

میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے آتے ہی ماحضر پیش کر دے،پانی پیئیںگے کیا؟ چائے لیںگے کیا؟ اس طرح کی باتیں پوچھنے سے شریف آدمی شرما جاتا ہے۔سورۂ ذاریات میں ہے؛ حضرت ابراہیمؑ نے مہمانوں سے پوچھا نہیں کہ میں آپ کے لیے کھانا لاؤں؟بلکہ وہ چُپکے سے انتظام کے لیے چلے گئے:﴿فَرَاغَ اِلٰٓى اَهْلِهٖ﴾۔[الذاریات]سورۂ ہود میں ہے:﴿فَمَا لَبِثَ اَنْ جَاۗءَ بِعِجْلٍ حَنِيْذٍ؀﴾پھر ابراہیم کو کچھ دیر نہیں گزری تھی کہ وہ ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ [ہود]’معارف القرآن‘ میں ہے: مہمان نوازی کے آداب میں سے یہ ہے کہ مہمان کے آتے ہی جو کچھ کھانے پینے کی چیز میسر ہو اور جلدی سے مہیا ہوسکے وہ لا رکھے، پھر اگر صاحبِ وسعت ہے تو مزید مہمانی کا انتظام بعد میں کرے۔[معارف القرآن]
اسی طرح مہمان کے آنے پر قضاےحاجت کی جگہ بھی ازخود بتا دینی چاہیے، مہمان آتے ہی تقاضے کے باوجود اس طرح کی بات کرنے سے ہچکچاتا ہے۔

[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here