[مہمان نوازی،قسط:۵]
مفتی ندیم احمد انصاری
مہمان کی عزت اور حفاظت کا خیال رکھنا
میزبان کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت اور حفاظت کا خیال رکھے۔ حضرت لوط ؑ کی قوم نے جب ان کے مہمانوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کیا تو وہ فکرمند ہو گئے تھے اور انھوں نے فرمایا تھا:یہ لوگ میرے مہمان ہیں، لہٰذا مجھے رسوا نہ کرو، اللہ سے ڈرو، اور مجھے ذلیل نہ کرو۔ [الحجر]سورۂ ہود میں ہے:اللہ سے ڈرو اور میرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے رسوا نہ کرو، کیا تم میں کوئی ایک بھی بھلا آدمی نہیں ہے ؟ [ہود]آگے فرمایا: حضرت لوطؑنے کہا : کاش کہ میرے پاس تمھارے مقابلے میں کوئی طاقت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لے سکتا۔ [ہود] اپنی تمام کوشش کے بعد یہ بات حضرت لوطؑ نے کہی تھی، اس سے معلوم ہوا کہ میزبان کو مہمان کی حتی المقدور حفاظت کرنی چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓسے منقول ہے کہ اس واقعے میں جب قومِ لوط ان کے گھر پر چڑھ آئی تو حضرت لوط ؑ نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا تھا اور یہ گفتگو اس شریر قوم سے پسِ پردہ ہو رہی تھی، فرشتے بھی مکان کے اندر تھے، ان لوگوں نے دیوار پھاند کر اندر گھسنے کا اور دروازہ توڑنے کا ارادہ کیا، اس پر حضرت لوط ؑ کی زبان پر یہ کلمات آئے، جب فرشتوں نے حضرت لوط ؑ کا یہ اضطراب دیکھا تو حقیقت کھول دی اور کہہ دیا کہ آپ دروازہ کھول دیں، اب ہم ان کو عذاب کا مزہ چکھاتے ہیں، دروازہ کھولا تو جبرئیل امینؑنے اپنے پَر کا اشارہ ان کی آنکھوں کی طرف کیا، جس سے سب اندھے ہوگئے اور بھاگنے لگے۔[معارف القرآن]
مہمان کو خطرے سے آگاہ کرنا
مذکورہ بالا واقعے کے تحت تفسیر ابنِ کثیر میںلکھا ہے:حضرت قتادہؒفرماتے ہیں کہ لوط علیہ السلام اپنی زمین پر تھے کہ یہ فرشتے انسان کی صورت میں آئے اور ان کے مہمان بنے، شرما شرمی میں وہ انکار تو نہ سکے اور انھیں لے کر گھر کی طرف چلے، راستے میں صرف اس نیت سے کہ یہ اب بھی واپس چلے جائیں، ان سے کہا کہ واللہ! یہاں کے لوگوں سے زیادہ برے اور خبیث لوگ اور کہیں نہیں ہیں، کچھ دور جا کر پھر یہی کہا، غرض گھر پہنچنے تک چار بار یہی کہا۔[تفسیر ابن کثیر] معلوم ہوا کہ اگر مہمان کے لیے کوئی خطرہ محسوس ہو تو میزبان اسے آگاہ کر دے۔
مہمان کے پاس ایسے شخص کو نہ بٹھانا
مہمان کے ساتھ ایسے شخص کو نہ بٹھائے جس کے بیٹھنے سے وہ تکلیف محسوس کرے یا اس کے ساتھ بیٹھنا اس کے لیے مناسب نہ ہو،اس سلسلے میں بھی بےتوجہی عام ہے۔[الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ]
کھانے سے پہلے ناشتہ وغیرہ
مسلم شریف اور ترمذی شریف وغیرہ میں وارد ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ باقاعدہ طعام سے پہلے مہمان کے سامنے کچھ ناشتہ پھل فروٹ وغیرہ پیش کرنا بھی مستحب ہے۔حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ خلافِ عادت گھر سے نکلے، اس وقت میں آپﷺ سے ملاقات کے لیے کوئی حاضر نہیں ہوا کرتا تھا، اتنے میں حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے، آپ ﷺنے پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! صرف آپ کی ملاقات، زیارت و سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد حضرت عمرؓبھی آگئے، آپﷺنے پوچھا: کیسے آنا ہوا؟ انھوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے آیا ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مجھے بھی کچھ بھوک محسوس ہو رہی ہے۔ پھر وہ سب ابوالہیثم بن تیہان انصاریؓکے گھر کی طرف چل پڑے۔ ابوالہیثمؓکے یہاں بہت سی کھجوروں کے درخت اور کثیر تعداد میں بکریاں تھیں، البتہ خادم کوئی نہیں تھا۔ جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو انھیں موجود نہ پا کر ان کی بیوی سے پوچھا: وہ کہاں گئے ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں۔ اتنے میں وہ ایک مشک اٹھائے ہوئے پہنچ گئے، مشک رکھی اور آپﷺ کے ساتھ لپٹ گئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان! پھر ابوالہیثمؓان تینوں حضرات کو لے کر اپنے باغ میں چلے گئے، ان کے لیے کپڑا بجھایا اور ایک درخت سے کھجور کا گچھا توڑ کر پیش کردیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم ہمارے لیے صرف تازہ پکی کھجوریں کیوں نہ لائے؟ انھوں نے عرض کیا: میں اس ارادے سے تازہ پکی اور ادھ کچری کھجوریں لایا ہوں تاکہ آپ جو چاہیں اختیار فرمائیں۔ انھوں نے کھجوریں کھائیں اور میٹھا پانی پیا۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے! یہ ٹھنڈا سایہ، پاکیزہ کھجوریں، اور ٹھنڈا پانی ایسی نعمتیں ہیں کہ قیامت کے دن ان کے متعلق تم سے سوال کیا جائےگا۔ پھر جب ابوالہیثمؓآپ کے لیے کھانا تیار کرنے کے لیے جانے لگے تو آپﷺ نے فرمایا: دودھ دینے والا جانور ذبح نہ کرنا، چناں چہ ابوالہیثمؓنے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا اور پکا کر پیش کر دیا، ان حضرات نے وہ کھایا، الحدیث۔ [ترمذی] علامہ نوویؒفرماتے ہیں:یہ مستحب ہے کہ مہمان کے لیے پہلے تو فوری طور پر جو کچھ میسر ہو کھانے پینے کے لیے پیش کر دے، اس کے بعد طعام کا انتظام ہو تو باقاعدہ کھانا تیار کرکے اس سے مہمان کا اکرام کرے۔[شرح مسلم]
مہمان کے ساتھ کھانا کھانا
حضرت ثوبانؓسے روایت ہے: اپنے مہمان کے ساتھ کھانا کھایا کرو ،کیوں کہ مہمان تنہا کھانا کھانے سے شرماتا ہے۔[کنزالعمال] حضرت ثوبانؓہی سے روایت ہے، وہ حضرت نبی کریم ﷺ کے پاس آئے، جب انھیں کھانا پیش کیا گیا تو حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے فرمایا : اپنے مہمان کو کھانا کھلاؤ ، کیوں کہ مہمان اکیلے کھانا کھانے سے شرماتا ہے۔[کنزالعمال]حضرت ابوعثمان سے روایت ہے، حضرت عبدالرحمٰن بن ابو بکر ؓ نے بیان کیا کہ حضرت ابوبکر ؓ ایک یا چند مہمان لے کر گھر آئے اور خود شام ہی سے حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں چلے گئے، جب لوٹ کر آئے تو میری والدہ نے کہا: آپ اپنے مہمانوں کو چھوڑ کر کہاں رہ گئے تھے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے پوچھا: کیا تم نے انھیں کھانا نہیں کھلایا؟ انھوں نے کہا: ہم نے کھانا ان کے سامنے پیش کیا تھا لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر ؓ کو غصہ آگیا اور انھوں نے (گھر والوں کی) سرزنش کی اور رنج کا اظہار کیا اور قسم کھالی کہ میں کھانا نہیں کھاؤںگا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓکہتے ہیں: میں ڈر کے مارے چھپ گیا، تو آپؓنے پکارا: اے دنی! کدھر ہے، اِدھر آ۔ میری والدہ نے بھی قسم کھالی کہ اگر وہ کھانا نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گی۔ اس کے بعد مہمانوں نے بھی قسم کھالی کہ اگر ابوبکر ؓ نہیں کھائیں گے تو وہ بھی نہیں کھائیں گے۔ آخر ابوبکر ؓ نے کہا: یہ غصہ کرنا شیطانی کام تھا، پھر آپ نے کھانا منگوایا اور خود بھی مہمانوں کے ساتھ کھایا (اس کھانے میں یہ برکت ظاہر ہوئی کہ) جب یہ لوگ ایک لقمہ اٹھاتے تو نیچے سے کھانا اور بڑھ جاتا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا : اے بنی فراس کی بہن! یہ کیا ہو رہا ہے؟ کھانا تو اور بڑھ گیا! انھوں نے کہا: میری آنکھوں کی ٹھنڈک! اب یہ اس سے بھی زیادہ ہوگیا جب ہم نے کھانا کھایا بھی نہیں تھا! پھر سب نے کھایا اور اس میں سے حضرت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بھی بھیجا۔ وہ کہتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے بھی اس میں سے کھایا۔ [بخاری]
مہمان کے سیر ہونے کا خیال رکھنا
حضرت ابنِ عمرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب دستر خوان لگا دیا جائے تو کوئی شخص اس کے اٹھائے جانے سے پہلے نہ اٹھے اور نہ اپنا ہاتھ کھینچے اگرچہ وہ سیر ہوچکا ہو، جب تک کہ دوسرے لوگ بھی کھانے سے فارغ نہ ہوجائیں، (اور اٹھنا ضروری ہو) تو عذر پیش کر دے، اس لیے کہ آدمی اپنے ساتھی سے شرماتا ہے تو اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ ابھی اسے کھانے کی حاجت ہو۔ [ابن ماجہ] یہ حکم عام ہے اور شریف مہمان میزبان کے سامنے شرماتا ہے، اس لیے میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے سیر ہونے کا خاص خیال رکھے ۔
مہمان کی پسند کا خیال رکھنا
حضرت انسؓفرماتے ہیں کہ میری والدہ ام سلیمؓنے تر کھجوروں کا ایک ٹوکرا میرے ہاتھ رسول اللہ ﷺکی خدمت میں بھیجا۔ مجھے آپ ﷺ نہیں ملے، آپ ﷺ قریب ہی میں اپنے ایک آزاد کردہ غلام کے پاس تشریف لے گئے تھے، اس نے آپ کی دعوت کی تھی اور آپ کے لیے کھانا تیار کیا تھا۔ جب میں پہنچا تو آپ ﷺکھانا کھا رہے تھے، آپﷺ نے مجھے بھی اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ میزبان نے گوشت اور کدو میں ثرید تیار کیا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ آپ ﷺ کو کدو اچھے لگ رہے ہیں تو میں کدو جمع کر کے آپ کے قریب کرنے لگا۔ جب ہم کھانا کھاچکے تو آپ ﷺ اپنے گھر تشریف لائے، میں نے کھجوروں کا ٹوکرا آپ ﷺکی خدمت میں پیش کیا،آپ کھانے لگے اور تقسیم (بھی) کرتے رہے، یہاں تک کہ وہ ختم ہوگیا۔ [ابن ماجہ]اس حدیث میں بھی مہمان کا تذکرہ نہیں، لیکن جس طرح حضرت انسؓنے آپ ﷺکا خیال کیا اس سےیہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں اپنے بھائیوں کی پسند کا خیال رکھنا چاہیے، بہ طور خاص تب جب کہ وہ مہمان ہو۔