ندیم احمد انصاری
یومِ ولادت ِ نبویﷺ یعنی اس عظیم الشان شخصیت کا جنم دن ،جسے تمام عالم کے لیے سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا۔وہ دن واقعی بڑی ہی عظمت و برکت کا حامل تھا، جس سال ربیع الاول میں اس کائنات کے سب سے روشن دن میں خلاصۂ کائنات، سید المرسلین،خاتم الانبیاء، احمد مجتبیٰ،محمد مصطفیﷺ اس عالمِ رنگ و بو میں رونق افروز ہوئے ۔اگرچہ شریعت نے سالانہ آپﷺ کے یومِ ولادت کوکسی مخصوص طریق سے منانے کا حکم نہیں فرمایا، نہ ہی اس کے لیے کسی قسم کے مراسم مقرّر کیے،لیکن جس سال ماہِ ربیع الاول میں یہ دن وقوع پذیر ہوا،وہ نہایت ہی متبرک اور پیارا دن تھا۔
آج ربیع الاول کا مہینہ آتے ہی مسجد، محلے میں ذکر نبویﷺ کے زمزمے سنائی دینے لگتے ہیں، ہر طرف نبی کے امتی اپنے حبیب کی ولادت کا جشن منانے کی تیاریوں میں لگ جاتے ہیں، مسجدوں اور بعض چوراہوں پر سیرۃ النبیﷺ کے موضوع پر جلسے منعقد کیے جاتے ہیں… یہ سب چیزیں اپنی جگہ، لیکن مضمون نگار اس وقت قارئین کے سامنے ایک درمندانہ پہلو رکھنا چاہتا ہے وہ یہ کہ کیا سال بھر میں اس طرح چند روز اپنے حبیب کا ذکر کر لینا ہمارے لیے کافی ہے؟ کیا حضرت نبی کریمﷺ کا ہم پر اتنا ہی حق ہے؟ کیا ہم آپﷺ سے اسی قدر محبت کرتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ان تمام سوالوں کا جواب آپ نفی ہی میں دیں گے اور ضرور میری اس بات سے اتفاق کریں گے کہ رحمۃ للعالمینﷺ کا ذکر پورے سال بلکہ ہر دم ہونا چاہیے۔ آپﷺ کی تعلیمات کو عام کرنا، اس زمانے میں ویسے بھی ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے، جب کہ انسانیت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے، ہر طرف خون خرابا اور ہاہاکار مچا ہوا ہے، انسانی زندگی بے قیمت ہو چکی ہے، ہر طرف دنیوی حرص و ہوس نے انسان کے حواس باختہ کر دیے ہیں۔ گلی، کوچے جرائم کے اڈے بنے ہوئے ہیں، سگا بھائی سگے بھائی کا دشمن ہے، اولاد ماں باپ سے نالاں ہے، والدین اولاد سے پریشان… کیا کیا کہوں اور کیا کیا ذکر کروں! قلب و ذہن میں ان گنت باتیں آ،جا رہی ہیں، صرف امراض کا ذکر کرلینا ویسے بھی لاحاصل ہے، اس لیے اصل علاج ہی کا ذکر کرتا ہوں اور وہ ہے… تعلیماتِ نبویﷺ کا فروغ اور ان پر عمل درآمد کرنا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ایک روایت کے مطابق کم و بیش سوا لاکھ اور دیگر روایت کے مطابق کم و بیش سوا دو لاکھ انبیاک کرام علیہم السلام کو دنیا میں بھیجا، جن میں سے ہر ایک کی دعوت یہی تھی کہ انسان اپنے رب کو پہچانے اور اپنی زندگی کو خالق کے منشا کے مطابق گزارے۔ ان سب نے مشترکہ طور پر یہی پیغام دیا کہ انسان کو خوں ریزی اور زمین پر فساد پھیلانا زیب نہیں دیتا، یہ تو شیطانی عمل ہے۔ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ دنیا، انسان کے لیے دار العمل ہے، جس میں اُسے الٰہی احکامات کے مطابق زندگی گزار کر آخرت کو سنوارنے کی کوشش کرنی ہے،آخرت دار الجزا ہے، وہاں ہر چیز کا حساب دینا ہے، جس کے مطابق جنت یا جہنم کا فیصلہ ہونا ہے۔ یہاں اصلاً کسی عمل کا بدلہ نہیں ملتا، کچھ اثر بھلے ہی ظاہر ہو جائے، وہاں اصل کا بدلہ جزا یا سزا کے طور پرملے گا۔ جو انسان اس بات کو سمجھ لے، وہی کامیاب ہے، جو دنیا میں اُلجھ کر رہ جائے گا، وہ خسارے میں ہے۔ رسول اللہﷺ نے کتنی پیاری مثال دے کر سمجھایا کہ انسان دنیا میں اس طرح رہے، جیسے پانی کشتی میںرہا کرتی ہے، لیکن پانی کو اندر نہیں آنے دیتی، اس لیے کہ چھوٹے سے سوراخ سے بھی اگر پانی اندر آگیا، تو وہ کشتی غرق ہو جائے گی، یہی معاملہ انسان کا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اگر اِس کی محبت اُس کے دل میں آ گئی،تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔ تمام انبیائِ سابقین کی طرح رسول اللہ حضرت محمدﷺ کو بھی دنیا میں اسی مقصد کے تحت بھیجا گیا اور آپ کے بعد نبوت کے دروازے کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر کے یہ پیغام دے دیا گیا کہ اب جو انسان کامیابی حاصل کرنا چاہے، وہ حضرت محمدﷺ کی اتباع کرے۔
اب دیکھنا ہے کہ آپﷺ نے وہ کیا تعلیمات دیں، جن پر عمل کرکے ہم اپنی دنیا و آخرت؛ دونوں کو کامیاب بنا سکتے ہیں۔نبوی تعلیمات؛ جو کہ قرآن و احادیث اور سیرت وغیرہ کی شکل میں ہیں، وہ ساری کی ساری امت کے پاس بعینہ موجود ہیں، ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مستند دینی باتوںتک رسائی حاصل کرنے اور انھیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے۔شیطان، جو کہ انسان کا ازلی دشمن ہے، اُس نے بھی یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ انسان کو دائیں، بائیں، آگے ، پیچھے گویا چہار جانب سے بہکانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہے گا، جس سے وہ کبھی غافل نہیں ہوتا، اگرچہ انسان اپنے دشمن سے غافل ہو جاتا ہے۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ شیطان انسان کے دل کے پاس اپنی سونڈ لیے بیٹھا رہتا ہے اور جیسے ہی اُسے غافل پاتا ہے، اس کے دل میںوسوسوں کے زہر سے بھری سونڈ چُبھا دیتا ہے۔ شیطان کو یہ قدرت نہیں کہ کسی انسان سے جبراً کوئی بدی کروائے، بلکہ وہ تو صرف وسوسہ ہی ڈالتا ہے، آگے اسے عملی جامہ خود انسان پہناتا ہے۔آج آپ دیکھ لیں کہ کس طرح اس نے انسانوں کو انسانوں کا، غیروں کو مسلمانوں کا ، بلکہ بعض مسلمانوں کوبعض مسلمانوں کا دشمن بنا کر اس طرح کھڑا کر دیا ہے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہوئے بھی ہر وقت بر سر پیکارہیں۔ ان میں سے کتنے تو وہ ہیں، جو دین و مذہب کے نام پر ظلم و ستم کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں اور کتنوں نے بدعات و خرافات کو دین سمجھ کراصل دین کی طرف دعوت دینے والوں کو اپنا اصلی دشمن سمجھ رکھا ہے۔ آپﷺ نے دشمن کے ساتھ بھی کبھی ایسا معاملہ نہیں کیا، جیسا ہم اپنی رائے سے اختلاف کرنے اپنے دینی بھائی سے معاملہ کرتے ہیں، رحمۃ للعالمین ﷺدنیا میں رحمت کو عام کرنے کے لیے تشریف لائے تھے، آپ کا مقصد جہنم میں جا رہی قوم کو جنت میں داخل کرانا تھا، آپﷺ لوگوں کو شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کے نور میں داخل کرانا چاہتے تھے، آپﷺ نے مسلمانوں کو ہی آپس میں بھائی بن کر رہنا نہیں سکھایا، بلکہ مشرکوں اور اغیار سے بھی احسان کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی۔ جسے مثالیں دیکھنی ہوں، وہ سیرت کا مطالعہ کر کے اپنے شوق کو پورا کر لے دیکھ لے۔
آپ ﷺنے بچیوں کو جینے کا حق دیا، آپﷺ نے عورتوں کو معاشرہ میں عزت دی، آپﷺ نے والدین و رشتہ داروں سے حسنِ سلوک کی تاکید کی، آپﷺ نے پڑوسیوں کے حقوق کی نشان دہی کی، آپﷺ نے غیروں سے حسنِ سلوک کرنا سکھایا بلکہ آپﷺ نے جانوروں کو تکلیف پہنچانے پر جہنم کی وعید سنائی، آپﷺ نے قیدیوں سے بے جا بدسلوکی سے منع کیا، آپ نے مقتولین کے مُثلہ سے روکا، آپ نے پھل دار درخت نہ کاٹنے کی ہدایت دی… لیکن نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج ایک طرف جہاں اغیار اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، وہیں بعض نام نہاد مسلمان بھی اپنے قول و عمل سے اسلام کی پاکیزہ شبیہ کو داغ دار بنانے سے احتراز نہیں کرتے۔یہ سب اُن تعلیمات کا ایک سطر میں مختصر ترین نمونہ ہے، جنھیں رسول اللہﷺ نے اپنی پوری زندگی میںمسلمانوں کے دلوں میں پیوست کیا۔
ربیع الاول کا مہینہ–جس میں خلاصۂ کائنات حضرت محمدﷺ اس عالمِ رنگ و بو میں تشریف لائے، اس موقع پر گلیوں کو ہری جھنڈیوں سے سجا لینا، چند نعتیہ اشعار گنگنا لینا، لمبی چوڑی تقریریں سُن یا کر لینا–ظاہر ہے کہ صِرف ان چیزوں سے بعثت نبوی کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے، اس کے لیے تو ہم میں سے ہر ایک کو آپﷺ کی تعلیمات کو اپنی زندگی میں رچانا بسانا ہوگا، ورنہ کبھی تباہی کے دہانے پر کھڑی انسانیت کو امن نہیں ملے گا۔ آج اس موقع پر ہمیں اس بات کا عزم کرنا ہوگا کہ رسول اللہﷺ کی تمام تعلیمات کو– خواہ وہ عائلی ہوں یا قبائلی– ہم قلب و جگرسے اپنائیں گے، سچے عاشقِ رسول بن کر دکھائیں گے یعنی اخلاقِ حسنہ کے ذریعے آپﷺ کی تعلیمات کا ڈنکا سارے عالم میں بجائیں گے، اپنے اہل خانہ اور رشتہ داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کریں گے، اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے نیک کاموں میں ان کا بازو بن کر کھڑے ہوں گے،ملک کی سالمیت کا ہر وقت لحاظ رکھیں گے… اگر ایسا ہوا، تو سمجھیے کہ ہم نے آپﷺ کے امتی ہونے کا فرض نبھانے کی کوشش کی، ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ، جس نے اپنے حبیبﷺ کے ذکر کو قرآنِ کریم میں{ انک لعلی خلق عظیم} کہہ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بلند کر دیا، اُسے ہم جیسوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ جس طرح سے اُس خدا کی خدائی میں ہمارے کچھ کرنے نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، اسی طرح اس کے مصطفی کی مصطفائی میں بھی ہمارے چند رسمی اعمال کا کوئی وزن نہیں۔یہ تو ہماری سخت محرومی کی دلیل ہے کہ اپنی من مانی کرکے ہم اپنے رب کی رضا و خوشنودی کا خواب دیکھتے ہیں، شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے بہت خوب فرمایا ہے’’ اپنے آقا کی خوشنودی سے محروم ہے وہ شخص، جو اس کی تو تعمیل نہ کرے جس کا وہ حکم فرماوے اور جس کا اس نے حکم نہیں دیا، اس میں مشغول رہے، یہی اصل محرومیت اور اصل موت اور اصل مردودیت ہے‘‘۔ ( فیوضِ یزدانی)
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عنایت فرمائے۔ آمین