ندیم احمد انصاری
رات کے وقت میںکچھ رکعتیں نفل پڑھ لینا عظیم اجر و ثواب کا باعث ہے ،خصوصاً رمضان المبارک میں اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے ۔اسے قیام اللیل یا تہجد کہا جاتا ہے ۔فرض کا قضا کرنا فرض اور واجب کا قضا کرنا واجب اور سنت کی قضا سنت ہے ، حاصل یہ کہ قضاے عمری کی ادایگی میں سستی اور کاہلی اور تاخیر اچھی نہیں ہے ، جہاں تک ہوسکے اور جب وقت ملے فرائض اور وتر کی قضا نماز ادا کی جائے تو بہتر ہے ، لیکن صلوٰۃِ تہجد جس کی قرآن شریف اور احادیث شریفہ میں بہت فضیلت آئی ہے ، چناں چہ صحیح مسلم میں ہے :فرائض کے بعد نماز تہجد افضل ہے پس اس فضیلت کا اقتضایہی ہے کہ اس کو ہرگز نہ چھوڑا جائے ۔(دیکھیے فتاویٰ دارالعلوم دیوبند)ارشادِ ربانی ہے :اور رات کے کچھ حصے میں تہجد پڑھ لیاکرو جو آپ کے حق میں زائد چیز ہے ، کیا عجب کہ آپ کا رب آپ کو ”مقام محمود“ میں جگہ دے ۔ (بنی اسرائیل)ایک مقام پر ارشاد فرمایا:بے شک پرہیزگار بہشتوں اور چشموں میں ہوں گے اور اپنے رب کی عطا کردہ نعمتیں لے رہے ہوں گے (اس بات پر کہ) بے شک یہ لوگ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکو کار تھے ، رات کو(تہجد پڑھنے کی وجہ سے) بہت کم سوتے تھے ، اور اخیر شب میں استغفار کیا کرتے تھے ۔ (الذاریات)
حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی رائے یہ ہے کہ عشا کی نماز با جماعت پڑھنے اور صبح کی نماز با جماعت پڑھنے سے بھی قیام اللیل کا ثواب حاصل ہو جاتا ہے ، اس لیے کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے :جو شخص عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے گویا اس نے آدھی رات قیام کیا ، اور جو صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے ، گویا اس نے پوری رات قیام کیا۔(الموسوعۃ الفقہیہ) لیکن ظاہر ہے کہ جب حضرت نبی کریمﷺ نے اپنے قول و عمل سے باقاعدہ رات میں اٹھ کر تہجد پڑھنے کی ترغیب فرمائی ہے ، تو اس کی اپنی الگ اہمیت ہوگی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :رسول اللہﷺنے ارشاد فرمایا: سب سے افضل روزے ماہِ رمضان کے بعد اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں ، اور سب سے افضل نماز فرضوں کے بعد رات کی نماز ہے۔(ابوداؤد، مسلم)اور فقہا کی اصطلاح میں قیام اللیل کا مطلب نماز وغیرہ میں رات گزارنا ہے ، اگرچہ ایک ہی لمحہ ہو۔ رات کا اکثر حصہ اس میں مشغول رہنا شرط نہیں ہے ۔ مراقی الفلاح میں ہے کہ قیام کے معنی یہ ہیںکہ رات کا بیش تر حصہ طاعت میں مشغول رہے ، اور ایک قول یہ ہے کہ رات کے کچھ حصے میں قرآن پڑھے ، یا حدیث سنے ، یا تسبیح پڑھے ، یا نبیﷺ پر درود بھیجے۔(مراقی مع طحطاوی)قیام اللیل اور تہجد کی مشروعیت پر فقہا کا اتفاق ہے ، یہ حنفیہ اور حنابلہ کے نزدیک سنت ہے ، مالکیہ کے نزدیک مندوب اور شافعیہ کے نزدیک مستحب۔(الموسوعۃ)
تہجد کی رکعات
تہجد کے بارے میں روایات مختلف ہیں، کم از کم دو رکعت یا چار رکعت اور زیادہ سے زیادہ بارہ رکعت تک ثابت ہے ، البتہ رسول اللہ ﷺاکثر وبیش تر آٹھ رکعتیں پڑھا کرتے تھے ، اسی لیے فقہاے احناف نے تہجد میں آٹھ رکعات کو افضل قرار دیا ہے ۔(دیکھیے فتاویٰ دارالعلوم)صحیح بخاری ومسلم میں حضرت صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت یہ ہے کہ رسولِ کریم ﷺرمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعات سے زیادہ نہ پڑھتے تھے ، ان گیارہ رکعات میں حنفیہ کے نزدیک تین رکعتیں وتر کی ہوتی تھیں باقی آٹھ تہجد کی۔اور صحیح مسلم کی ایک روایت میں صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ رسولِ کریمﷺ رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے ، جن میں وتر بھی شامل ہیں اور دو رکعتیں سنتِ فجر کی بھی۔ سنتِ فجر کو رات کی نماز میں بہ وجہِ رمضان کے شمار کرلیا ہے ۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ عام عادت رسولِ کریم ﷺکی یہ تھی کہ تہجد کی نماز میں آٹھ رکعات ادا فرماتے تھے ،لیکن صدیقہ عائشہ ہی کی ایک روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ کبھی کبھی اس تعداد سے کم؛ چار یا چھ رکعات پر بھی اکتفا فرمایا ہے ، جیسا کہ صحیح بخاری میں آپ سے یہ منقول ہے کہ حضرت مسروق نے حضرت صدیقہ سے تہجد کی نماز کے متعلق دریافت کیا، تو فرمایا کہ سات، نو اور گیارہ رکعات ہوتی تھیں، علاوہ سنتِ فجر کے ۔ حنفیہ کے قاعدے کے مطابق تین رکعت وتر کی ہوئی، تو سات میں چار، نو میں سے چھ، گیارہ میں سے آٹھ تہجد کی رکعتیں رہ جاتی ہیں۔(معارف القرآن)
تہجد سے پہلے سونا لازم نہیں
تہجد کی نماز کے لیے عشاء کی نماز کے بعد سونا لازم نہیں ہے ، بلکہ عشا کی نماز اور سنن ونوافل کی ادایگی کے بعد جو بھی نفل تہجد کی نیت سے پڑھی جائے گی، وہ تہجد کہلا ئے گی، خواہ آدھی رات کے بعد پڑھی جائے یا نصف آدھی رات سے پہلے ۔عشا کی نماز کے بعد تہجد کا وقت شروع ہوجاتا ہے ، البتہ افضل یہ ہے کہ نصف شب کے بعد تہجد کی نماز پڑھی جائے ، لیکن اگر سونے کے بعد تہجد کے لیے اٹھنا مشکل ہوتا ہے ،اس لیے کوئی عشا کی نمازکے بعد وتر سے پہلے حسبِ سہولت دو چار چھے یا آٹھ رکعت پڑھ لیا کرے ،تو تہجد کا ثواب مل جائے گا۔ان شاء اللہ(مستفاد از فتاوی دارالعلوم، احسن الفتاوی)
سوکر اُٹھنے کے بعد رات کو جو نماز پڑھی جائے وہ تہجد کہلاتی ہے ، رکعتیں خواہ زیادہ ہوں یا کم، آں حضرت ﷺسے چار سے بارہ تک رکعتیں منقول ہیں، اور اگر آدمی رات بھر نہ سوئے ، ساری رات عبادت میں مشغول رہے تو کوئی حرج نہیں، اس کو قیامِ لیل اور تہجد کا ثواب ملے گا، مگر یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں، اس لیے جن اکابر سے رات بھر جاگنے اور ذکر اور عبادت میں مشغول رہنے کا معمول منقول ہے ، ان پر اعتراض تو نہ کیا جائے اور خود اپنا معمول، اپنی ہمت و استطاعت کے مطابق رکھا جائے ۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل)
تہجد کی جماعت
اگر مقتدی دو ہوں تو بالاتفاق جائز ہے ، اور اگر مقتدی تین ہوں تو بعض فقہاء کے نزدیک جائز ہے اور بعض فقہاء کے نزدیک مکروہ ہے ، اور اگر مقتدی چار یا اس سے زیادہ ہوجائیں تو بالاتفاق مکروہ ہے ، اس لیے کہ نوافل پر تداعی جائز نہیں ہے ، اور مقتدیوں کا چار یا اس سے زیادہ ہوجانا یہ خود تداعی ہے ؛ لہٰذا رمضان یا غیر رمضان دونوں صورتوں میں مکروہ ہے اور تہجد اور اوابین میں بھی مکروہ ہے ۔ نوافل باجماعت صرف استسقاء، کسوف اور تراویح میں جائز ہے اور کسی نفل یا سنت کی جماعت جائز نہیں ہے۔(مستفاد از امداد الاحکام،فتاوی رشیدیہ، امداد الفتاوی،فتاویٰ دارالعلوم، احسن الفتاوی)
رمضان میں تہجد کی جماعت
تہجد کی نماز رمضان یا غیر رمضان میں باجماعت پڑھنے کا اہتمام آں حضرت ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول نہیں ہے ، ماہِ مبارک میں آں حضرت ﷺ کا معمول اعتکاف کا تھا،لیکن آپ ﷺنے صحابۂ کرام کے ساتھ تہجد باجماعت پڑھی ہو یہ ثابت نہیں،اس لیے فقہاے کرام لکھتے ہیں کہ تہجد وغیرہ نفل نماز باجماعت پڑھنا مکروہ ہے ، بلا تداعی ایک دو مقتدیوں کے ساتھ مکروہ نہیں، یہ حدیث سے ثابت ہے ، اس سے زیادہ کا ثبوت وارد نہیں، لہٰذ ا فقہا لکھتے ہیں کہ امام کے ساتھ تین مقتدی ہونے میں اختلاف ہے اور چاریا اس سے زیادہ مقتدی ہوں تو بالاجماع مکروہ ہے۔(فتاوی رحیمیہ) اس موضوع پر حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کا ایک مستقل رسالہ ’رمضان میں نفل کی جماعت‘کے نام سے ان کی کتاب’فقہی مقالات‘ میں موجود ہے ۔ ہمارے اکابرین میں سے حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ رمضان میں با جماعت تہجد کا اہتمام کرتے تھے ، لیکن خود ان کے نواسے ’فتاوی شیخ الاسلام‘ کے نام سے جب ان کے فتاویٰ مرتب کیے تو اس مسئلے کے ذیل میں لکھا:یہ مسئلہ (رمضان میں تہجد کی جماعت کاجائز ہونا) حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے تفردات میں سے ہے ،جسے حضرت ؒ نے مجتہدانہ بصیرت سے کام لیتے ہوئے براہِ راست احادیثِ شریفہ سے مستنبط فرمایا ہے ، لیکن احقر کو حضرت کے اس موقف کی تائید فقہِ حنفی کے کسی جزئیے سے نہیں ملی، بلکہ مسبوط سرخسی اور دیگر معتبر کتبِ احناف میں تین چار سے زیادہ مقتدی ہونے کی صورت میں نوافل کی جماعت کو مطلقاً مکروہ قرار دیاگیاہے۔(مبسوط سرخسی) بریں بنا مسئلۂ زیرِ بحث میں فقہِ حنفی کی رو سے حضرت گنگوہیؒ کا موقف ہی راجح اور مضبوط ہے (جو تہجد کی جماعت کے ذیل میں مذکور ہوا)۔(حاشیہ فتاویٰ شیخ الاسلام) اور فتاویٰ محمودیہ میں ہے :حضرت مولانا حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے اپنی حدیث، فقہ میں گہری بصیرت کی بنا پر اگر تفرد اختیار فرمایا ہے ، تو اس کی وجہ سے ہمیں ان پر اعتراض کا حق نہیں، لیکن ان کے تفرد کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا مذہب نہیں بدلے گا، سلف میں بھی اس کے نظائر موجود ہیں کہ کسی دلیل سے انھوں نے کسی عمل کی گنجائش سمجھی۔(جدید)
دکھاوا نہ ہو
تہجد کی نماز پر کسی کے اطلاع ہونے پر اس لیے خوشی ہو کہ یہ مجھ کو بڑا نمازی سمجھے گا اور اس کے دل میں میری عظمت ہوگی، شیطانی وسوسہ ہے ، اس سے اپنے قلب کو پاک کرنا چاہیے اور کسی کے دیکھنے پر رکوع سجدہ لمبا کرنا اور اچھی طرح کرنا ریا کاری اور اس کے ثواب سے محرومی ہے اور قابلِ مواخذہ ہے ، اعاذنا اللہ۔البتہ اگر دل میں خوشی صرف اس وجہ سے ہو کہ مجھ کو دیکھ کر اس کو بھی عمل کی توفیق ہوگی اور وہ عمل کرے گا تو مجھے بھی ثواب ملے گا یا خوشی طبعاً ہو کہ بفضلہ تعالیٰ مجھے عمل کی توفیق ملی اور اس نے اچھی حالت میں مجھے دیکھا اور یہ شخص میرے عمل پر گواہ ہوگا، تو یہ صورت ریا کاری میں داخل نہ ہوگی۔(فتاویٰ رحیمیہ)
تہجد حاصل کرنے کا نسخہ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :حضرت نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : سحری کھا کر دن کے روزے کے لیے مدد حاصل کرو، اور قیلولے کے ذریعے سے قیام اللیل کے لیے مدد حاصل کرو۔ (ابن ماجہ)
تہجد پڑھے یا قضاے عمری
جن لوگوں کے ذمے قضا نمازیں ہوں، وہ تہجد کے وقت بھی نفل کے بجائے اپنی قضا نمازیں پڑھا کریں، ان کو ان شاء اللہ تہجد کا ثواب بھی ملے گا اور سر سے فرض بھی اُترے گا۔(دیکھیے آپ کے مسائل اور ان کا حل)
تہجد کے وقت کی ایک دعا
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ،حضرت نبی کریم ﷺجب رات کو تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے تو فرماتے :اللَّھُمَّ لَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَیِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِیھِنَّ، وَلَکَ الْحَمْدُ لَہَ مُلْکُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَمَنْ فِیھِنَّ وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَلَکَ الْحَمْدُ أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُکَ الْحَقُّ،وَلِقَاؤُکَ حَقٌّ،وَقَوْلُکَ حَقٌّ، وَالْجَنَّۃُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالنَّبِیُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ ﷺ وَسَلَّمَ حَقٌّ، وَالسَّاعَۃُ حَقٌّ، اللَّھُمَّ لَکَ أَسْلَمْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَاِلَیْکَ أَنَبْتُ وَبِکَ خَاصَمْتُ وَاِلَیْکَ حَاکَمْتُ، فَاغْفِرْ لِی مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا اِلَہَ اِلَّا أَنْتَ، أَوْ لَا اِلَہَ غَیْرُکَ۔ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللَّہِ۔اے میرے اللہ! تیرے ہی لیے حمد ہے ، تو آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو چیزیں ہیں ان کا نگراں ہے ، تیرے ہی لیے حمد ہے ، تیرے ہی لیے آسمان اور زمین اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں پر حکومت ہے ، تیرے ہی لیے حمد ہے تو آسمان اور زمین کی روشنی ہے ، تیرے ہی لیے حمد ہے تو حق ہے ، تیرا وعدہ حق ہے ، تیری ملاقات حق ہے ، تیرا قول حق ہے ، جنت حق ہے ، جہنم حق ہے ، تمام نبی حق ہیں اور محمد حق ہیں اور قیامت حق ہے ۔ اے میرے اللہ! میں نے اپنی گردن تیرے لیے جھکا دی اور میں تجھ پر ایمان لایا، تجھی پر میں نے بھروسہ کیا، تیری طرف میں متوجہ ہوا، تیری ہی مدد سے میں نے جھگڑا کیا اور تیری ہی طرف میں نے اپنا مقدمہ پیش کیا، میرے اگلے پچھلے اور ظاہری اور چھپے ہوئے گناہوں کو بخش دے ، تو ہی آگے اور پیچھے کرنے والا ہے ، تو ہی معبود ہے ، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔نہیں ہے طاقت و قوت سوائے اللہ کے ۔(بخاری،مسلم)٭