تائید: سیدی و مرشدی حضرت مفتی احمد خانپوری صاحب دامت برکاتہم
افادات: حضرت مفتی اسعد خانپوری صاحب مدظلہ
تحقیق و ترتیب: مولانا ندیم احمد انصاری
اس وقت پورے عالَم میں کُل انسیانیت اور خاص طور پر مسلمان قوم ابتلا و آزمائش کا شکار ہے۔اقتدار و حکومت کی خاطر چند انسان نما حیوانوں نے نفرت کی آگ کو ہر جگہ بھڑکا رکھا ہے۔ دل میں ہر وقت ایک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کب کیا ہو جائے؟ ترقی کی دوڑ میں انسان انسانیت سے بہت دور جا پہنچا ہے۔ ظلم و بربریت عام ہے۔لیکن قرآن مجیدکا طالبِ علم جانتا ہے کہ یہ حالات نئے نہیں، سابقہ امتیں اس سے خطر ناک حالات سے دوچار ہو چکی ہیں۔ اس لیے وہ ہمیشہ اپنا محاسبہ کرتا رہتا ہے۔ فساد اور بگاڑ کی یہ تاریخ قابیل اور ہابیل سے شروع ہوئی اورحضرت نوح،حضرت ابراہیم،حضرت یوسف، حضرت داؤد، حضرت سلیمان، حضرت موسیٰ و ہارون، حضرت زکریا و یحییٰ،حضرت یونس،حضرت لوط،حضرت صالح،حضرت ہود اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی قوم سے ہوکر سید الانبیا حضرت محمدﷺکی امت تک پہنچی ہے۔ہر نبی اور اس کی قوم کو اپنے زمانے میں باطل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں سابقہ امتوں کا ذکر اسی لیے کیا ہے کہ اس سے عبرت حاصل کی جائے۔حالات کا بد سے بد تر ہونا ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی اور بداعمالیوں کا نتیجہ ہے۔ بہت سے گناہوں کو تو اللہ تبارک و تعالیٰ خود ہی معاف فرماتے رہتے ہیں، لیکن جب کوئی قوم نافرمانی کرتے ہوئے حد سے گزر جاتی ہے تو اسے گو نا گوں حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ اس وقت بھی اگر وہ اپنا محاسبہ کر لے اور توبہ و استغفار سے اپنے رب کو راضی کر لے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس عذاب کو بھی روک لیتے ہیں جو آسمانوں پر چھا چکا ہو۔ جیسا کہ حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے ساتھ ہوا۔ اگر قوم اپنی بدبختی پر اصرار کرتی رہے تو زمین کے اس خطے کو جس پر اس کا بسیرا ہو،آسمانوں تک لے جا کر دھرتی پر پٹخ دیا جاتا ہے۔جیسا کہ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کے ساتھ کیا گیا۔قرآن مجید اور احادیثِ رسولﷺ میں اُن تمام باتوں کو صاف صاف اور کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے، جو عذابِ الٰہی کا موجب ہوتی ہیں۔افسوس کہ ان میں سے تقریباً تمام باتیں ہمارے معاشرے میں رواج پا چکی ہے۔ غیبت،جھوٹ، فریب، دھوکہ، وعدہ خلافی،تہمت، زنا، اغلام بازی، رشوت، سود،جوا، شراب، ناچ گانا، ظلم، تکبر، بغض، حسد، کینہ، چوری ،والدین کی نافرمانی، حلال و حرام میں تمیز نہ کرنااور ایک دوسرے کے حقوق غصب کرنا وغیرہ وغیرہ ہر ایک گناہ ہمارے معاشرے میں پایا جاتاہے۔اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جنھیںاپنے گناہوں کا احساس تک نہیں۔ ایسے میں خدا کی نافرمانی کے بعد اس کے عذاب سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے،اس لیے ضروری ہے کہ ہم خود بھی اپنے گناہوں سے سچی توبہ اور کثرت سے استغفار کریں اور اپنے بھائیوں یعنی پوری امت کی طرف سے بھی استغفار کا اہتمام کریں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے خود اپنے حبیبﷺ کو اس کی تاکید فرمائی اور باقاعدہ ایسے فرشتے متعین کیے جوانسانوں کی طرف سے استغفار کرتے رہتے ہیں۔
قرآنی ارشادات
زمانہ تغیر پذیر ہے، اس لیے اہلِ ایمان کو صرف خدا کا ڈر اپنے دل میں بسانا چاہیے۔ ارشادِ ربانی ہے:(مفہوم) یہ تو آتے جاتے دن ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔(آلِ عمران)ایک موقع پر مثال دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:(مفہوم)اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے جو بڑی پُر امن اور مطمئن تھی۔ اس کا رزق اس کو ہر جگہ سے بڑی فراوانی کے ساتھ پہنچ رہا تھا۔ پھر اس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری شروع کردی تو اللہ نے ان کے کرتوت کی وجہ سے ان کو یہ مزہ چکھایا کہ بھوک اور خوف ان کا پہننا اوڑھنا بن گیا۔ (النحل)معلوم ہوا کہ حالات کا آنا ہمارے اعمال کا صلہ اور ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔اور ان حالات کا مقصد یہ ہے کہ انسان اپنی غلطیوں کا احساس کر کے اللہ کی طرف رجوع کرے۔ایک مقام پرارشادِ خداوندی ہے:(مفہوم)تمھیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمھارے اپنے ہاتھوں کیے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے، اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے۔ (الشوریٰ)ایک مقام پر فرمایا:(مفہوم)ان کے برے اعمال کا وبال ان پر پڑا ۔(النحل)ایک مقام پر فرمایا گیا:(مفہوم) لوگوں نے اپنے ہاتھوں جو کمائی کی، اس کی وجہ سے خشکی اور تری میں فساد پھیلا، تاکہ انھوں نے جو کام کیے ہیں اللہ ان میں سے کچھ کا مزا اُنھیں چکھائے، شاید وہ باز آجائیں۔ (الروم)
استغفار کرنے والوں کو عذاب سے نجات
اللہ کے عذاب سے بچنے کا قرآنی نسخہ یہ ہے کہ اپنے گناہوں پر استغفار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ دو صورتوں میں اپنے بندوں کو عذات نہیں دیتا۔پہلی صورت یہ کہ اس کا نبی امت میں موجود ہو، دوسری یہ کہ امت استغفار میں مشغول ہو۔ اپنے نبی سے مخاطب ہوکر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:(مفہوم) اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ ان کو اس حالت میں عذاب دے جب تم ان کے درمیان موجود ہو، اور اللہ اس حالت میں بھی ان کو عذاب دینے والا نہیں ہے جب وہ استغفار کرتے ہوں۔(الانفال)حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھ پر میری امت کے لیے دو امن اتارے؛ (1)اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ میرے ہوتے ہوئے عذاب دے (2) اللہ انھیں عذاب نہیں دے گا، جب تک وہ استغفار کرتے رہیں گے۔ پس جب میں (دنیا) سے چلا جاؤں گا تو ان میں استغفار کو قیامت تک کے لیے چھوڑ جاؤں گا۔(ترمذی)
اللہ معافی کے لیے بلا رہا ہے
اللہ تبارک و تعالیٰ تو ایسا کریم رب ہے کہ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لیے بلا رہا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: (مفہوم) وہ تمھیں بلا رہا ہے کہ تمھاری خاطر تمھارے گناہ معاف کردے۔ (ابراہیم)اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی معافی کے مختلف انتظامات کر رکھے ہیں۔ اپنے حبیبﷺ کو امت کے لیے استغفار کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:(مفہوم)(اے پیغمبر) یقین جانو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے، اور اپنے قصور پر بھی بخشش کی دعا مانگتے رہو،اور مسلمان مَردوں اور عورتوں کی بخشش کی بھی۔ (محمد)اور انسانوں کی طرف سے استغفار کرنے کے لیے باقاعدہ فرشتے بھی مقرر فرمائے ہیں۔ارشادِ ربانی ہے:(مفہوم) فرشتے اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں اور زمین والوں کے لیے استغفار کر رہے ہیں۔ یاد رکھو کہ اللہ ہی ہے جو بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔ (الشوریٰ)
استغفار کی فضیلت و اہمیت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر توبہ کرے اور آیندہ کے لیے اس سے باز آجائے اور استغفار کرے تو اس کا دل چمک کر صاف ہوجاتا ہے۔ یہ دھبہ دور ہوجاتا ہے۔ اگر اور زیادہ گناہ کرے تو یہ دھبہ سیاہ ہوجاتا ہے۔ (ابن ماجہ)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اِستغفَار کیا (یعنی دل سے ندامت کے ساتھ گناہ سے توبہ کی) اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا، اگرچہ دن بھر میں اس سے ستر مرتبہ گناہ سر زرد ہوجائے۔(ابوداؤد:)حضرت ابو الدردا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اگر تم استغفار کی کثرت کرسکتے ہو تو دریغ نہ کرو، کیوں کہ اللہ کے یہاں اس سے زیادہ نجات دینے والی اور محبوب کوئی چیز نہیں ہے۔(کنزالعمال) حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ لاالہ الا اللہ اور استغفار کی کثرت کرو،یہ دونوں دنیا میں ذلت سے بچاؤ ہیں اور آخرت میں آتشِ دوزخ سے ڈھال ہیں۔(کنزالعمال)
خلاصۂ مضمون
مضمون کا خلاصہ یہ نکلا کہ جس وقت حالات اور مشکلات کا سامنا ہو، اس وقت خاص طور پر رجوع الی اللہ کی ضرورت ہے۔ ہر چھوٹے بڑے گناہ سے احتراز اور استغفار کی کثرت ہی اللہ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بچنے کا نسخۂ اکسیر ہے۔ہمیں اپنی،اپنے متعلقین، دوست، احباب بلکہ تمام مومنوں اور مومنات یعنی حضور ﷺ کی امت کے ہر ہر فرد کی طرف سے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور استغفار کرنا چاہیے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر ایک شخص روزانہ کم سے کم تین سو مرتبہ استغفار پڑھنے کا اہتمام کرے۔اگر اللہ توفیق دے تو ایک ہزار یا تین ہزار مرتبہ یا جتنا زیادہ ہو سکے، کوشش کرے۔ اس کے الفاظ یہ ہوں:نَسْتَغْفِرُ اللہ۔ واحد کے بجائے جمع کا صیغہ استعمال کرے،گویا ہم میں سے ہر شخص اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور یہ کہہ رہا ہےکہ اے اللہ ہم سب تجھ سے معافی چاہتے ہیں۔اس طرح آپ کے صرف دس منٹ میں پوری امت کو فایدہ پہنچے گا۔ ان شاء اللہ
مسائل کے حل کا آسان راستہ
دیکھیے موجودہ حالات کے لیے رحمۃ للعالمین ﷺ نے کیسا پیارا نسخہ عنایت فرمایا ہے، جس میں بہت وقت بھی نہیں لگتا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو استغفار کرنے کو اپنے اوپر لازم کرلے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ پیدا فرمادے گا اور ہر غم سے نجات دے گا اور ایسی جگہ سے روزی عطا فرمائے گا، جہاں سے اس کو گمان بھی نہ ہوگا۔(ابوداؤد ) گویا ہمارے عظیم ترین مسائل کا حل استغفار کو لازم پکڑنے میں موجود ہے۔
مستجاب الدعوات بننے کا نسخہ
ایک حدیث میں ہے کہ جس نے مومن مرد اور مومن عورتوں کے لیے ہر روز ستائیس بار اللہ سے استغفار کیا، اسے مستجاب الدعوات میں لکھا جائے گا، جن کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور ان کی برکت سے اہلِ زمین کو روزی ملے گی (تو اندازہ کیجیے کہ خود ایسا کرنے والے کو کتنی روزی ملے گی؟)۔(کنزالعمال، مجمع الزوائد) اور جب ستائیس مرتبہ پر اتنی بڑی فضیلت کا وعدہ ہے تو غور کیجیے کہ اخلاص کے ساتھ کثرت سے استغفار کا اہتمام کرنے پر وہ فیاض داتا کس قدر نوازے گا۔