ڈاکٹر مفتی ندیم احمد انصاری
[پڑوسی کے حقوق، قسط:۲]
پڑوسی کے ساتھ حسنِ سلوک
حضرت انس بن مالکؓروایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک ایسا نہ ہو کہ جو بات اپنے لیے پسند کرتا ہو وہی اپنے بھائی کے لیے یا پڑوسی کے لیے بھی پسند کرے۔(مسلم) حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کون ہے جو مجھ سے یہ کلمات سیکھ کر ان پر عمل کرے یا اسے سکھائے جو ان پر عمل کرے؟ حضرت ابوہریرہؓفرماتے ہیں؛ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول!میں حاضر ہوں۔ آپ ﷺنے میرا ہاتھ پکڑا اور پانچ باتیں شمار کیں، آپ ﷺنے فرمایا: (۱) حرام کاموں سے پرہیز کرو، سب سے زیادہ عبادت گزار ہو جاؤ گے (۲)اللہ کی تقسیم پر راضی رہو، لوگوں سے بے پروا ہوجاؤ گے (۳)اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرو، مومن ہوجاؤ گے (۴)لوگوں کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے پسند کرتے ہو، مسلمان ہوجاؤ گے (۵)زیادہ مت ہنسو کیوں کہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ کردیتا ہے۔(ترمذی)
برے پڑوسی کی طرف رحمت کی نظر نہ ہوگی
حضرت انسؓسے روایت ہے: دو شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف رحمت کی نظر نہیں فرمائےگا: (۱) ایک قطع رحمی کرنے والا (۲)دوسرا برا پڑوسی۔(کنزالعمال)
پڑوسی کو تکلیف دینا قیامت کی نشانی
حضرت سلمان فارسیؓنے فرمایا: قیامت کے قریب کی علامتیں یہ ہیں: (۱)زمین پر عمارتیں ظاہر ہوجائیں گی (۲)رشتے داریاں توڑی جائیں گی (۳)پڑوسی پڑوسی کو تکلیف دے گا۔(مصنف ابن ابی شیبہ)حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے فرمایا: بلاشبہ قیامت کی علامتوں میں ہے کہ بدگوئی، بدفعلی، بدخلقی اور برا پڑوس عام ہوجائے گا۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
قربِ قیامت پڑوسی پڑوسی کو قتل کرےگا
حضرت ابوموسیؓنے بیان کیا ، رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ارشاد فرمایا: قیامت کے قریب ہرج ہوگا۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ہرج سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺفرمایا: قتل! کسی مسلمان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ہم تو اب بھی ایک سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کردیتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا: مشرکوں کا قتل نہیں بلکہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے، حتی کہ مرد اپنے پڑوسی کو، چچازاد بھائی کو، قرابت دار کو قتل کرے گا۔ لوگوں میں کسی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس وقت ہماری عقلیں قایم ہوں گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، اس زمانے میں اکثر لوگوں کی عقلیں سلب ہوجائیں گی اور ذرّوں کی طرح (ذلیل) لوگ باقی رہ جائیں گے۔ پھر حضرت ابوموسی اشعریؓنے فرمایا: اللہ کی قسم میرا گمان ہے کہ میں اور تم اس زمانے کو پائیں گے اور اللہ کی قسم اگر وہ زمانہ ہم پر آیا تو ہمارے لیے اس سے نکلنے کی کوئی راہ نہ ہوگی جیسا کہ ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اس میں سے نہ نکل سکیں گےسوائے اس کے کہ ہم اس سے ویسے ہی نکلیں جیسے داخل ہوئے۔(ابن ماجہ)
اہل و عیال نیز پڑوسیوں پر وسعت
حضرت ابنِ عباسؓسے روایت ہے، اللہ عزوجل کے کچھ ملائکہ ہیں اللہ تعالیٰ نےانھیں جس طرح چاہا پیدا کیا اور جیسی چاہی صورت بخشی، وہ اللہ کے عرش کے نیچے ہیں، اللہ نے انھیں الہام کیا ہے کہ وہ طلوعِ شمس سے قبل اور غروبِ شمس سے قبل ہر روز دو مرتبہ یہ ندا دیا کریں : خبردار ! جس نے اپنے اہل و عیال اور پڑوسیوں پر وسعت کی، اللہ دنیا میں اس پر وسعت فرمائے گا۔ خبردار! جس نے تنگی کی، اللہ اس پر تنگی کرےگا۔ خبردار ! اللہ تعالیٰ تمھارے اہل و عیال پر خرچ ہونے والے ایک درہم کے بدلے ستر قنطار عطا فرمائے گا، اور قنطار وزن میں احد پہاڑ کے برابر ہوگا۔ پس خرچ کرو، جمع نہ کرو، تنگی نہ کرو، بخل سے کام نہ لو اور تمھیں جمعے کے دن خرچ کرنےمیں زیادہ وسعت کرنی چاہیے۔(کنزالعمال)
پڑوسی کی مدد نہ ضرور کریں
حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے: جب لوگ دیناروں اور درہموں کے ساتھ بخل کرنے لگیںگے، سود میں حیلے کے ساتھ خریدو فروخت کرنے لگیںگے، اور تم لوگ گائے کی دُموں کو پکڑلوگے، اور کھیتی باڑی میں مشغول ہو کر اللہ کے راستے میں جہاد کو چھوڑدوگے، تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی ذلت مسلط فرمائیں گے جو تم سے اس وقت تک دور نہ ہوگی جب تک تم اپنے دین کے کام کی طرف واپس نہ چلے جاؤ، لہٰذا ایک شخص قیامت کے دن اپنے پڑوسی کے پیچھے پڑا ہوگا اور کہہ رہا ہوگا کہ اس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کیا تھا اور میرے ساتھ اپنے مال میں کنجوسی کی تھی۔(کنزالعمال)
پڑوسی کے لیے روٹی پکانا
حضرت اسما بنتِ ابوبکر ؓکہتی ہیں کہ مجھ سے جب حضرت زبیر ؓ نے شادی کی تو نہ ان کے پاس مال تھا نہ زمین، اور نہ لونڈی غلام تھے، بہ جز پانی کھینچنے والے اونٹ اور گھوڑے کے کچھ نہ تھا۔ حضرت زبیر ؓ کے گھوڑے کو میں چَراتی تھیں، پانی پلاتی تھیں، ان کا ڈول سیتی تھیں اور آٹا پیستی تھیں، البتہ روٹی پکانا مجھے نہیں آتا تھا، میری روٹی انصاری پڑوسنیں پکا دیا کرتی تھیں، وہ بڑی نیک عورتیں تھیں۔ حضرت زبیر ؓکی اس زمین سے جو آپ ﷺ نے انھیں دی تھی، میں اپنے سر پر چھوہاروں کی گٹھلیاں اٹھا کرلاتیں، وہ مقام دو میل دور تھا، ایک دن میں اپنے سر پر گٹھلیاں رکھ کر آرہی تھیں کہ مجھے آپ ﷺ ملے۔ آپ کے ساتھ چند صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے، آپ ﷺ نے مجھے پکارا، پھر مجھے اپنے پیچھے بٹھانے کے لیے اونٹ کو اخ اخ کہا، لیکن مجھے مَردوں کے ساتھ چلنے سے شرم آئی، زبیر ؓکی غیرت بھی مجھے یاد آئی کہ وہ بڑے غیرت والے ہیں۔ آپ ﷺ نے محسوس کر لیا کہ اسماؓکو شرم آرہی ہے، چناں چہ آپﷺ چل پڑے۔ میں نے آ کر حضرت زبیرؓ سےکہا: مجھے راستے میں آپ ﷺ ملے تھے، میرے سر پر گٹھلیوں کا گٹھا تھا اور آپ ﷺ کے ساتھ صحابہ تھے، آپ نے مجھے بٹھانے کے لیے اونٹ کو ٹھہرایا تو مجھے اس سے شرم آئی اورتمھاری غیرت کو بھی میں جانتی ہوں۔ حضرت زبیرؓنے کہا: اللہ کی قسم ! مجھے تیرے سر پر گٹھلیاں لاتے ہوئے آپ کا دیکھنا آپ کے ساتھ سوار ہوجانے سے زیادہ برا معلوم ہوا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓنے ایک خادم بھیج دیا تاکہ وہ گھوڑے کی نگہبانی میں میرے کام آئے، گویا انھوں نے مجھے آزاد کردیا۔(بخاری)
برا پڑوس نہایت تکلیف دہ
حضرت حسن کہتے ہیں: حضرت لقمانؑ نے اپنے بیٹے سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! میں نے پتھر اور لوہا اٹھایا ہے مگر برے پڑوسی سے زیادہ وزنی (یعنی تکلیف دہ) کوئی چیز نہیں، اور میں نے ہر کڑوی چیز کا ذایقہ چکھا ہے مگر تکبر سے زیادہ کڑوی کوئی چیز نہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
برا پڑوسی ایک مصیبت
حضرت عبداللہ بن عمروؓفرماتے ہیں کہ میں تمھیں تین مصیبتوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟: (۱)ایک وہ ظالم بادشاہ کہ اگر تم اچھا کام کرو، تو وہ تمھارا شکریہ ادا نہ کرے اور اگر غلطی کرو تو وہ تمھیں معاف نہ کرے (۲)دوسرا برا پڑوسی، اگرتمھاری اچھائی دیکھے تو چھپا دے اور اگر برائی دیکھے تو افشا کردے(۳)تیسری ایسی بری بیوی کہ اگر تم موجود ہو تو تمھیں غصہ دلائے اور اگر موجود نہ ہو تو خیانت کرے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
پڑوسی کو ہر تکلیف سے بچانے کی فکر کرنا
حضرت میمون بن مہران فرماتے ہیں کہ مسلمانوں میں سے ایک آدمی سحری کے لیے روٹی کا ایک ٹکڑا رکھتا تھا ۔ بکری آئی اور اس نے وہ روٹی کا ٹکڑ ا لے لیا۔ اتنے میں اس کی بیوی نے کھڑے ہو کر بکری کو باندھ دیا اور اس سے روٹی کا ٹکڑا لے لیا۔بکری نے چلانا شروع کردیا۔ اس آدمی نے کہا : کیا تو جانتی نہیں کہ اس کے چیخنے سے بھی پڑوسی کو تکلیف پہنچے گی؟(مصنف ابن ابی شیبہ)
پڑوسی کے یہاں تکلیف دینے والی چیز پھینکنا
حضرت عروہؓفرماتے ہیں، مجھے حضرت نبی کریم ﷺ کے پڑوسی نے بتلایا کہ وہ مردار اور پتھر پھینکا کرتا تھا؟ اس پر آپ ﷺ نے فرمایا : اے گروہِ قریش ! یہ کیسی ہمسایگی ہے؟(مصنف ابن ابی شیبہ)
پڑوسی کی تکلیف پر صبر اور اس پر اجر
حضرت ابن احمسؓکہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذرؓسے کہا: مجھے آپ کا بیان کردہ ایک ارشادِ نبوی پہنچا ہے۔ انھوں نے فرمایا : بیان کرو، میرے خیال میں مَیں نے کبھی حضور ﷺ کی طرف کسی جھوٹی بات کو منسوب نہیں کیا۔ میں نے کہا: آپ نے بیان کیا ہے کہ تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔ انھوں نے فرمایا: میں نے اس بات کو سنا ہے اور بیان کیا ہے کہ جن تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے ان میں :(۱)ایک تو وہ شخص ہے جو کسی جماعت سے قتال کرے، وہ جماعت غالب آنے لگے تو یہ پھر بھی ان سے لڑتا ہوا شہید ہوجائےیا اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے فتح عطا فرما دیں (۲)دوسرا وہ شخص جو رات کو لوگوں کے ساتھ سفر کرے، جب وہ سب تھک کر لیٹ جائیں تو یہ کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور پھر لوگوں کو آگے بڑھنے کے لیے جگائے (۳)تیسرا وہ شخص جس کا پڑوسی کوئی برا آدمی ہو اور وہ اس کی تکلیفوں پر صبر کرے۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
پڑوسی کو نصیحت کرتے رہو
حضرت عقبہ بن عامر ؓکے منشی دُخین فرماتے ہیں کہ ہمارے قریب کچھ پڑوسی شراب پیا کرتے تھے،میں نے انھیں اس سے روکا لیکن وہ باز نہ آئے تو میں نے حضرت عقبہ بن عامرؓسے کہا: ہمارے یہ پڑوسی شراب پیتے ہیں اور میں انھیں روک چکا ہوں لیکن یہ رکتے نہیں ، اب میں ان کے لیے پولِس بلاؤں گا! حضرت عقبہؓنے فرمایا: انھیں ان کے حال پر چھوڑ دو! پھر کچھ عرصے بعد میں دوبارہ حضرت عقبہؓکے پاس آیا اور کہا: ہمارے پڑوسیوں نے شراب پینے سے باز رہنے سے انکار کردیا ہے، میں ان کے واسطے پولِس کو بلانے لگا ہوں! حضرت عقبہؓنے فرمایا: تیرا ستیاناس! انھیں چھوڑ دو، کیوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سناہے: آگےسابقہ حدیث بیان کی۔ امام ابوداودؒفرماتے ہیں: ہاشم بن القاسم نے لیث سے یہ حدیث روایت کی ہے، اس میں انھوں نے فرمایا: حضرت عقبہؓنے مجھ سے کہا: تم ایسا نہ کرو، لیکن انھیں نصیحت کرتے اور ڈراتے رہو۔(ابوداود)سابقہ حدیث اس طرح ہے: حضرت عقبہ بن عامر ؓرسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں، آپﷺ نے فرمایا: جس نے کسی مسلمان کا کوئی عیب دیکھا پھر اسے چھپایا تو وہ ایسا ہے گویا اس نے کسی زندہ درگور لڑکی کو زندہ کردیا۔(ابوداود)
ناقابلِ برداشت تکلیف پر جائز تدبیر
حضرت ابوہریرہؓفرماتے ہیں کہ ایک شخص حضرت نبی کریم ﷺ کے پاس اپنے پڑوسی کی شکایت کرتا ہوا آیا۔آپﷺ نے فرمایا: جاؤ اور صبر کرو! وہ دو یا تین مرتبہ آیا تو آپﷺ نے فرمایا: جاؤ اور اپنا سامان گھر سے نکال کر راستے میں پھینک دو ۔ اس نے اپنا سامان راستے میں پھینک دیا۔ لوگوں نے اس سے وجہ پوچھی تو اس نے پڑوسی سے ہونے والی تکلیف کے بارے میں بتایا، لوگ اس پڑوسی کو لعنت ملامت کرنے لگے کہ اللہ اس کے ساتھ ایسا کرے، ویسا کرے! اس کا پڑوسی اس کے پاس آیا کہ تو سامان لے کر گھر لوٹ جا، آیندہ مجھ سے ناگواری کی کوئی بات نہیں دیکھے گا۔(ابوداود)





