ڈاکٹر مفتی ندیم احمد انصاری
[پڑوسی کے حقوق، قسط:۱]
صالح معاشرے یا اچھی سوسائٹی کے قیام کے لیے پڑوسیوںکے حقوق کی رعایت نہایت ضروری ہے۔ اسلام میں پڑوسیوں کے بہت سے حقوق بتائے گئے ہیں، لیکن فی زماننا اس بابت غفلت عام ہے۔ جس سے مزاج کی موافقت ہو اسے تو کسی درجے میں اس کا کچھ حق دے بھی دیتے ہیں، لیکن جس سے مزاج کی موافقت نہ ہو اس سے ہر ظلم رَوا رکھا جاتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ نے چند لمحوں کے لیے پاس میں بیٹھنے والے کا بھی حق بتایا ہے، پھر جو مستقل پڑوس میں رہتا ہو اس کا کیا حق ہوگا آپ خود اندازہ فرما لیں۔
عمرمیں برکت اور شہرکی آبادی کا باعث
حضرت عائشہؓسے مروی ہے، حضرت نبی کریم ﷺنے ان سے فرمایا: جس شخص کو نرمی کا حصہ دیا گیا اسے دنیا و آخرت کی بھلائی کا حصہ مل گیا، اور صلہ رحمی حسنِ اخلاق اور اچھی ہم سایگی شہروں کو آباد کرتی اور عمر میں اضافے کا سبب بنتی ہے۔(مسند احمد)
پڑوسی ہمارے لیے آئینہ ہیں
کلثوم خزاعی سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺکے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگایا: اے اللہ کے رسول!مجھے کیسے پتہ چلے گا میں نے فلاں کام نیک کیا اور فلاں کام براکیا؟ آپ ﷺنے فرمایا: جب تیرے پڑوسی تجھ سے کہیں کہ تو نے اچھا کیا تو تو نے اچھا کیا! جب وہ کہیں کہ تونے برا کیا، تو سمجھ لے کہ تونے برا کیا! (ابن ماجہ)
قرآنی ہدایت
اللہ سبحانہ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:﴿وَاعْبُدُوا اللّٰهَ وَلَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَـيْـــــًٔـا وَّبِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا وَّبِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ وَمَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْــتَالًا فَخُــوْرَا﴾اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، اور والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو، نیز رشتے داروں، یتیموں، مسکینوں، قریب والے پڑوسی، دور والے پڑوسی، ساتھ بیٹھے (یا ساتھ کھڑے) ہوئے شخص اور راہ گیر کے ساتھ اور اپنے غلام باندیوں کے ساتھ بھی (اچھا برتاؤ رکھو)! بے شک اللہ کسی اِترانے والے، شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ (النساء)
پڑوسیوں کے تین درجے
قرآن و سنت نے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی بڑی تاکید فرمائی ہے، پھر پڑوسیوں کے تین درجے اس آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں:(۱)پہلے درجے کو ﴿الْجَارِ ذِي الْقُرْبٰى﴾قریب والا پڑوسی (۲)دوسرے کو ﴿الْجَارِ الْجُنُبِ﴾ کہا گیا ہے، جس کا ترجمہ اوپر دور والے پڑوسی سے کیا گیا ہے۔ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اپنے گھر سے بالکل ملا ہوا ہو اور دوسرے سے مراد وہ پڑوسی ہے جس کا گھر اتنا ملا ہوا نہ ہو۔ بعض حضرات نے اس کی تفسیر یہ کی ہے کہ پہلے سے مراد وہ پڑوسی ہے جو رشتے دار بھی ہو اور دوسرے سے مراد وہ جو صرف پڑوسی ہو۔ نیز بعض مفسرین نے پہلے کا مطلب مسلمان پڑوسی اور دوسرے کا مطلب غیر مسلم پڑوسی بتایا ہے، قرآنِ کریم کے الفاظ میں ان سب معانی کی گنجائش ہے(۳)﴿الصَّاحِبِ بِالْجَـنْۢبِ﴾: یہ پڑوسی کی تیسری قسم ہے، اس سے مراد وہ شخص ہے جو عارضی طور پر تھوڑی دیر کے لیے ساتھی بن گیا ہو مثلاً سفر کے دوران ساتھ بیٹھا یا کھڑا ہو، یا کسی مجلس یا کسی لائن میں لگے ہوئے اپنے پاس ہو، وہ بھی ایک طرح کا پڑوسی ہے اور اس کے ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی تاکید فرمائی گئی ہے بلکہ اس سے بھی آگے ہر راہ گیر اور مسافر کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے، چاہے وہ اپنا ساتھی یا پڑوسی نہ ہو۔ (توضیح القرآن)
ایک، دو، تین حق والا پڑوسی
حضرت جابرؓ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: پڑوسی تین قسم کے ہیں؛ ایک حق والا یعنی ادنیٰ، دو حق والا، اور تین حق والا یعنی اعلیٰ۔ ایک حق والا وہ ہے جو مشرک ہو اور اس سے رشتے داری نہ ہو، دو حق والا وہ ہے جو مسلمان ہو اور رشتے دار نہ ہو، ایک حق اسلام کا دوسرا حق پڑوس کا، تین حق والا وہ ہے جو مسلمان بھی ہو، پڑوسی بھی ہو، اور رشتے دار بھی ہو، تو ایک حق اسلام کا، ایک حق پڑوس کا اور ایک حق صلہ رحمی کا، اس طرح اس کے تین حق ہو گئے۔(مسندِ شاميين طبرانی)
پڑوسی نیک یا مسلمان ہونا ضروری نہیں
جو شخص پڑوس میں رہتا ہے، اب چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر، عبادت گزار ہو یا گنہ گار؍فاسق، دوست ہو یا دشمن، دیہاتی ہو یا شہری، نفع پہنچانے والا ہو یا نقصان پہنچانے والا، قریبی ہو یا اجنبی، دروازہ قریب ہو یا دور، جس شخص میں پڑوس کی جتنی زیادہ صفات جمع ہو جائیںگی اس کا حق اتنا ہی زیادہ ہوگا۔(فتح الباری )
پڑوسیوں کی حقوق کی تاکید
حضرت عائشہ ؓسے روایت انھوں نے بیان کیا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جبرئیلؑ پڑوسی کے لیے ہمیں مسلسل وصیت کرتے رہے یہاں تک کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ اس کو وارث بنادیں گے۔(بخاری)حضرت مجاہدؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمروؓکے گھر میں ان کے لیے ایک بکری ذبح کی گئی، جب وہ تشریف لائے تو پوچھا: کیا تم نے اپنے یہودی پڑوسی کو گوشت بھیجا ہے، اس لیے کہ میں نے رسول اللہ ﷺکو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جبرئیل مجھے ہمیشہ پڑوسی کے ساتھ بھلائی اور احسان کی وصیت کرتے رہے، یہاں تک کہ مجھے گمان ہونے لگا کہ اسے وارث بنادیں گے۔(ترمذی)
پڑوس چالیس گھروںتک
حضرت عائشہؓنے کہا : اے اللہ کے رسول ﷺ! پڑوس کی کیا حد ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : چالیس گھروں تک۔(سنن کبری بیہقی) حضرت عائشہؓسے ہی روایت ہے،حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مجھے جبرئیل نے پڑوسی کے بارے میں چالیس گھروں تک وصیت کی، ہر طرف سے دس دس گھر ہیں۔ اسماعیل نے کہا : دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے۔ ابنِ شہاب حضرت نبی کریم ﷺ سے مرسلاً نقل کرتے ہیں: چالیس گھر۔ ابن شہاب سے کہا گیا : چالیس گھر کس طرح؟ انھوں نے کہا : دائیں، بائیں، پیچھے اور آگے کی جانب سے۔(سنن کبری بیہقی)
کون سا پڑوسی زیادہ حق دار
حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے دو پڑوسی ہیں؛ مَیں ان مِیں سے کسے ہدیہ بھیجوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو۔(بخاری)
اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں
ابوشریحؓکہتے ہیں، حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں! اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں! اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں! پوچھا گیا: کون اے اللہ کے رسول! آپ ﷺ نے فرمایا: جس کا پڑوسی اس کی تکلیفوں سے بےخوف نہ ہو۔(بخاری)
کوئی اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، حضرت نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہو، وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے۔(بخاری)
اپنے پڑوسی کی عزت کرے
ابوشریح عدویؓکا بیان ہے کہ میرے دونوں کانوں نے سنا اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا جب آپ ﷺ نے ارشاد فرمایاتھا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے پڑوسی کی عزت کرے۔ اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی جائزے سے عزت کرے۔ پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول! جائزہ کیا ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ایک دن ایک رات (جائزہ ہے)، اور ضیافت تین دن ہے، اس سے زیادہ جو ہو، وہ صدقہ ہے۔ اور جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے، ورنہ خاموش رہے۔(بخاری)
بہترین پڑوسی کے لیے بشارت
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے نزدیک بہترین ساتھی وہ ہے جو اپنے ساتھی کے لیے بہتر ہو، اور بہترین پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لیے بہتر ہو۔(ترمذی)
پڑوسی کی خاطر قتل ہونے والا شہید ہوگا
حضرت ابنِ عباسؓسے روایت ہے:جو شخص اپنے گھر والوں کی خاطر ظلماً قتل کیا گیا وہ شہید ہے، جو اپنے مال کی خاطر ظلماً قتل کیا گیا وہ بھی شہید ہے، جو اپنے پڑوسی کی خاطر ظلماً شہید کیا گیا وہ بھی شہید ہے، جو اللہ کے لیے قتل کیا گیا وہ بھی شہید ہے۔(کنزالعمال)
پڑوسی کی پرواہ نہ کرنے والا مومن نہیں
حضرت ابن عباسؓسے روایت ہے، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: وہ شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی اس کے پہلو میں بھوکا رہے۔(مشکوۃ المصابیح)
پڑوسی کا خیال رکھنا
حضرت عائشہ ؓ نے عروہؓسے کہا: اے میرے بھانجے! ایک وقت ایسا بھی تھا کہ ہم ایک چاند دیکھتے، پھر دوسرا چاند دیکھتے، پھر تیسرا چاند دیکھتے، دو دو مہینے رسول اللہ ﷺ کے گھروں میں آگ نہ سلگتی۔ میں نے پوچھا: اے خالہ! پھر کون سی چیز آپ کو زندہ رکھتی تھی؟ حضرت عائشہ ؓنے فرمایا: دو کالی چیزیں یعنی چھوہارے اور پانی، مگر یہ کہ رسول اللہ ﷺ کے پڑوس میں چند انصار تھے ان کے پاس دودھ والی بکریاں تھیں، وہ لوگ آپ ﷺ کی خدمت میں دودھ بھیج دیتے تو آپ ﷺ ہمیں بھی پلاتے۔(بخاری)
پڑوسی کی خاطر شوربے میں پانی بڑھا دینا
حضرت ابوذرؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے ابوذر! جب تو سالن پکائے تو اس کے شوربے کو زیادہ کرلے اور اپنے پڑوسی کی خبر گیری کر۔(مسلم)
پڑوسی پر مہربانی کے لیے مال جمع کرنا
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص حلال دنیا سوال سے بچنے کے لیے، اپنے گھر والوں کی کفالت کرنے کے لیے اور اپنے پڑوسی پر مہربانی اور نرمی کرنے کے لیے جمع کرے، ایسا شخص اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوگا، اور جو شخص کثرتِ مال اور ریاکاری کی نیت سے حلال مال جمع کرے گا تو ایسا شخص اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہوگا۔(مصنف ابن ابی شیبہ)
پڑوسی کا خیال نیکی سمجھ کررکھیں
حضرت ابوزرؓسے روایت ہے، میرے خلیل ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی کہ جب تم سالن پکاؤ تو اس کے شوربے کو زیادہ کرلو، پھر اپنے پڑوس کے گھر والوں کو دیکھ لو اور انھیں اس میں سے نیکی کے ساتھ بھیج دو۔(مسلم)
پڑوسی سے سلوک کے موافق جنت یا جہنم
حضرت ابوہریرہؓکہتے ہیں کہ ایک دن کسی شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں عورت کا نماز، روزے اور کثرتِ صدقہ و خیرات کی وجہ سے بڑا چرچا ہے لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف پہنچاتی ہے، آپ ﷺ نے فرمایا: وہ دوزخ میں جائے گی۔ اس شخص نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! فلاں عورت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت کم روزے رکھتی ہے، بہت کم صدقہ دیتی ہے، بہت کم نماز پڑھتی ہے اور اس کا صدقہ و خیرات قروط کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا، لیکن وہ اپنی زبان کے ذریعے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف نہیں پہنچاتی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ جنت میں جائے گی۔(مسند احمد)
[کالم نگار الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن کے صدر و مفتی ہیں]





