مولانا ندیم احمد انصاری
ڈیرکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا
جس وقت سے سورج گرہن شروع ہو اور جب تک گرہن کا اثر باقی رہے، اس وقت تک ایک نماز پڑھی جاتی ہے- جب کہ مکروہ وقت نہ ہو- اسے نمازِ کسوف کہتے ہیں۔ اگر سورج گرہن مکروہ اوقات یعنی زوال یا عصر بعد ظاہر ہوا تو ان اوقات میں نمازِ کسوف نہیں پڑھی جائے گی، بلکہ لوگوں کو دعا و استغفار میں مشغول ہونے کا حکم دیا جائے گااور اس نماز کے لیے اذان و اقامت بھی نہیں کہی جائے گی، البتہ لوگوں کو جمع کرنے کے لیے اعلان کیا جا سکتا ہے۔ قراءت سے متعلق امام ابو حنیفہؒ کی رائے یہ ہے کہ نمازِ کسوف میں امام آہستہ قراءت کرے گا، لیکن امام ابو یوسفؒجہری قراءت کے قائل ہیں، اس لیے اگر مقتدیوں کو اکتا ہٹ سے بچانے کے لیے جہری قراءت کی جائے تو اس میں حرج نہیں۔ امام کو چاہیے کہ لمبی قراءت کرے مثلاًسورۂ بقرہ اور سورۂ آل عمران پڑھے اور اسی مناسبت سے رکوع اور سجدے وغیرہ بھی خوب طویل کرے۔ بہتر یہ ہے کہ نماز اس قدر لمبی ہو کہ گرہن کا پورا وقت اسی میں گذرجائے، لیکن اگر یہ نہ ہوسکے تو نماز کے بعد دعائوں میں مشغول رہنا مستحب ہے، یہاں تک کہ گرہن کا اثر بالکل ختم ہوجائے۔ امام اگر چاہے تو اس موقع پر جہراً دعا بھی کراسکتا ہے،نیز سورج گرہن کے وقت عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروں میں نماز اور دعا وغیرہ میں مشغول رہیں، جماعت میں شریک نہ ہوں۔ [شامی]
سورج گرہن عہدِ نبویؐ میں
حضرت عائشہؓفرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سورج گرہن ہوگیا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور کھڑے ہوئے تو دیر تک قیام کیا۔ پھر رکوع کیا تو طویل کیا۔ پھر کھڑے ہوئے تو دیر تک کھڑے رہے، لیکن وہ پہلے قیام سے کم تھا۔ پھر رکوع کیا تو طویل کیا، لیکن پہلے رکوع سے کم تھا۔ پھر سجدہ کیا تو طویل کیا۔ پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کیا جس طرح پہلی رکعت میں کیا تھا۔ پھر نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب روشن ہوچکا تھا۔اس کےبعد آپﷺ نے لوگوں کو خطبہ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ آفتاب و ماہتاب دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں،انھیں کسی کی موت وحیات کے سبب سے گہن نہیں لگتا،جب تم یہ گہن ہوتے دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، تکبیر کہو، نماز پڑھو اور صدقہ کرو۔ پھر فرمایا: اے امتِ محمدیہ ! اللہ سے زیادہ غیرت مند کوئی نہیں۔ اسے غیرت آتی ہے کہ اس کا بندہ یا اس کی بندی زنا کرے۔ اے امتِ محمدیہ! جو میں جانتا ہوں اگر تم اسے جان لو تو ہنسو کم اور روؤزیادہ۔عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بِالنَّاسِ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ مَا فَعَلَ فِي الْأُولَى، ثُمَّ انْصَرَفَ وَقَدِ انْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَصَلُّوا وَتَصَدَّقُوا، ثُمَّ قَالَ: يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرُ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلبَكَيْتُمْ كَثِيرًا. [بخاری]
گرہن کیوں ہوتا ہے؟
حضرت ابوبکرہؓنے بیان کیا، رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سورج گرہن ہوا تو آپ چادر کھینچتے ہوئے باہر نکلے، یہاں تک کہ مسجد میں پہنچے اور آپﷺ کی طرف لوگ متوجہ ہوئے۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی۔ چناںچہ آفتاب روشن ہوگیا تو آپ ﷺنے فرمایا: آفتاب و ماہتاب اللہ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں اور یہ دونوں کسی کی موت کے سبب سے گہن میں نہیں آتے۔جب یہ صورت پیش آئے تو نماز پڑھو یہاں تک کہ وہ چیز دور ہوجائے جو تمھارے ساتھ ہے (یعنی گرہن)۔یہ اس لیے فرمایا کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے ایک صاحب زادے نے جن کا نام ابراہیم تھا، اسی دن وفات پائی تھی اور لوگوں نے ان کے متعلق کہا تھا کہ گرہن ان کی موت کے سبب لگا ہے۔عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَخَرَجَ يَجُرُّ رِدَاءَهُ حَتَّى انْتَهَى إِلَى الْمَسْجِدِ وَثَابَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَصَلَّى بِهِمْ رَكْعَتَيْنِ فَانْجَلَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ: إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، وَإِنَّهُمَا لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَإِذَا كَانَ ذَاكَ فَصَلُّوا وَادْعُوا حَتَّى يُكْشَفَ مَا بِكُمْ وَذَاكَ، أَنَّ ابْنًا لِلنَّبِيِّ ﷺ مَاتَ يُقَالُ لَهُ إِبْرَاهِيمُ: فَقَالَ النَّاسُ فِي ذَاكَ. [بخاری]
نمازِ کسوف سنت یا نفل
حضرت عائشہؓبیان کرتی ہیں؛ ایک مرتبہ سورج گرہن ہوگیا تو حضرت نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو حکم دیا ‘ اس نے اعلان کیا کہ نماز باجماعت ادا کی جائے گی۔ ابن ابی داؤد نامی راوی کہتے ہیں یہ سنت ہے اور اسے نقل کرنے میں اہلِ مدینہ منورہ منفرد ہیں۔عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ كَسَفَتِ الشَّمْسُ فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ رَجُلاً فَنَادَى فَقَالَ إِنَّ الصَّلاَةَ جَامِعَةٌ . قَالَ لَنَا ابْنُ أَبِى دَاوُدَ هَذِهِ سُنَّةٌ تَفَرَّدَ بِهَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ۔ وَلَمْ يَرْوِهِ إِلاَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ نَمِرٍ عَنِ الزُّهْرِىِّ النِّدَاءَ لِصَلاَةِ الْكُسُوفِ.[دارقطنی]
گرہن کی نماز میں قراءت
حضرت ابوہریرہؓسے روایت ہے؛ رسول اللہ ﷺ کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور نماز میں سورۂ صافات اور سورۂ نجم پڑھی۔ عن أبي هريرة قال: انكسفت الشمس على عهد رسول الله ﷺ فأقام بالناس فقرأ بالصافات صفا، ثم ركع، ثم رفع رأسه ولم يسجد، ثم قرأ والنجم، ثم ركع، ثم رفع رأسه، ثم سجد، ثم لم يزل ساجدا حتى انجلت الشمس فكانت قراءتين وركعتين وسجدة. [کنزالعمال] حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپؓنے لوگوں کو نماز پڑھائی جس میں سورۂ یٰس اور سورۂ روم قراءت کی۔ عن حنش بن المعتمر قال: انكسفت الشمس على عهد علي فقام فصلى بالناس فقرأ: بيس والروم، الخ.[کنزالعمال]
جہری قراءت
حضرت عائشہؓسے روایت ہے؛ حضرت نبی کریم ﷺ کے دور میں سورج گرہن ہوا تو آپ کھڑے ہوئے، تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی تکبیر کہی، پھر آپ نے بلند آواز سے قرآن پڑھا اور لمبی قراءت کی۔ عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ عَلَی عَہْدِ رَسُولِ اللَّہِ ﷺ فَقَامَ فَکَبَّرَ وَکَبَّرَ النَّاسُ ثُمَّ قَرَأَ فَجَھَرَ بِالْقُرْآنِ وَأَطَالَ۔[سنن کبریٰ بیہقی]
نمازِ کسوف مسجد میں
حضرت عائشہؓسے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی زندگی میں سورج گرہن ہوا تو آپ مسجد کی طرف آئے۔ ابو موسیٰ اشعری، ابو بکرہ، سمرۃ بن جندب، اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہم یہ تمام فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ کی نماز مسجد میں ہوتی تھی۔ عَنْ عَائِشَۃَ زَوْجِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِی حَیَاۃِ رَسُولِ اللَّہِ ﷺ فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّہِ ﷺ إِلَی الْمَسْجِدِ وَذَکَرَ الْحَدِیثَ۔أَخْرَجَہُ مُسْلِمٌ فِی الصَّحِیحِ مِنْ حَدِیثِ ابْنِ وَہْبٍ وَأَخْرَجَہُ الْبُخَارِیُّ مِنْ حَدِیثِ عَنْبَسَۃَ عَنْ یُونُسَ وَرَوَاہُ أَبُو مُوسَی الأَشْعَرِیُّ وَأَبُو بَکْرَۃَ وَسَمُرَۃُ بْنُ جُنْدُبٍ وَأَسْمَائُ بِنْتُ أَبِی بَکْرٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمْ فِی صَلاَتِہِ فِی الْمَسْجِدِ۔[سنن کبریٰ بیہقی]
سورج گرہن کی نماز کے بعد خطبہ
گرہن کی نماز کے بعد خطبے کا ذکر بخاری شریف کی ایک روایت میں مستقلاً وارد ہوا ہے۔حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جب نمازِ کسوف سے فارغ ہوئے تو سورج روشن ہوچکا تھا۔ آپ نے خطبہ دیا، اس میں اللہ تعالیٰ کی شایانِ شان حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا : امام بعد!عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ: فَانْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَخَطَبَ فَحَمِدَ اللَّهَ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ ثُمَّ قَالَ أَمَّا بَعْدُ ۔[بخاری]
تسبیح، تحمید، تکبیر، تہلیل، دعا، نماز
حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓکہتے ہیں، رسول اللہ ﷺ کے دور میں میں تیر اندازی کررہا تھا کہ اچانک سورج گرہن ہوگیا۔ میں نے تیروں کو پھینک دیا اور اس کوشش میں لگ گیا کہ اس موقع پر حضور ﷺکون سا نیا عمل کرتے ہیں! میں دیکھتا ہوں کہ آپ ﷺنے دونوں ہاتھ اٹھائے، تکبیر(اللہ اکبر) وتہلیل(لا الٰہ الا اللہ) اور حمد (الحمدللہ) و تسبیح (سبحان اللہ) کر رہے ہیں۔ پھر برابر دعا کرتے رہے،یہاں تک کہ سورج چھٹ گیا۔ چناں چہ آپ ﷺ نے دو سورتیں پڑھیں اور دو رکوع کیے ۔ عن عبد الرحمن بن سمرة قال: بينا أنا أرمي بأسهمي في حياة رسول اللہ ﷺ إذ كسفت الشمس فنبذتهن وسعيت أنظر ما أحدث كسوف الشمس لرسول اللہ ﷺ فإذا هو رافع يديه يسبح ويحمد ويهلل ويكبر ويدعو فلم يزل كذلك حتى حسر عن الشمس فقرأ سورتين وركع ركعتين.[کنزالعمال]
استغفار کا اہتمام
حضرت عبداللہ بن عمروؓکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک مرتبہ سورج گرہن ہوا (یہ قصہ جمہور کے نزدیک پہلی ہجری کا ہے)۔ آپ مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز شروع فرما کر اتنی دیر تک قیام فرمایا ، گویا رکوع کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے۔۔۔غرض ہر ہر رکن اس قدر طویل تھا کہ گویا یہی رکن اخیر تک کیا جائے گا، دوسرا کوئی رکن ہی نہیں ہے۔ شدتِ غم اور جوش سے سانس لیتے تھے اور روتے تھے اور حق تعالیٰ شانہ کی بارگاہِ عالی میں یہ عرض کرتے تھے: اے اللہ تو نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ میری موجودگی میں امت کو عذاب نہیں ہوگا! اے اللہ تو نے ہی یہ وعدہ کیا ہے کہ جب تک یہ لوگ استغفار کرتے رہیں گے عذاب نہیں ہوگا۔ ہم سب کے سب استغفار کرتے ہیں!آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب نکل چکا تھا۔ اس کے بعد آپ نے وعظ فرمایا، جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کے بعد ارشاد فرمایا کہ سورج و چاند کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گہن نہیں ہوتے، بلکہ یہ حق تعالیٰ جل شانہ کی دو نشانیاں ہیں۔ جب ایسا ہو تو اللہ جل جلالہ کی طرف فورا ًمتوجہ ہوجایا کرو اور استغفار و نماز شروع کردیا کرو۔ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ انْکسفَتِ الشَّمْسُ يَوْمًا عَلَی عَهْدِ رَسُولِ اللہ ﷺ فَقَامَ رَسُولُ اللہ ﷺ يُصَلِّي حَتَّی لَمْ يَکَدْ يَرْکَعُ ثُمَّ رَکَعَ فَلَمْ يَکَدْ يَرْفَعُ رَأْسَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَلَمْ يَکَدْ أَنْ يَسْجُدَ ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَکَدْ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَلَمْ يَکَدْ أَنْ يَسْجُدَ ثُمَّ سَجَدَ فَلَمْ يَکَدْ أَنْ يَرْفَعَ رَأْسَهُ فَجَعَلَ يَنْفُخُ وَيَبْکِي وَيَقُولُ رَبِّ أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لا تُعَذِّبَهُمْ وَأَنَا فِيهِمْ رَبِّ أَلَمْ تَعِدْنِي أَنْ لا تُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ وَنَحْنُ نَسْتَغْفِرُکَ فَلَمَّا صَلَّی رَکْعَتَيْنِ انْجَلَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ فَحَمِدَ اللَّهَ تَعَالَی وَأَثْنَی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللهِ لا يَنْکَسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا انْکَسَفَا فَافْزَعُوا إِلَی ذِکْرِ اللهِ تَعَالَی۔[شمائلِ ترمذی]
گردنیں آزاد کرنا
اس موقع پر ایک اور عمل کا ذکر ملتا ہے؛ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓنے بیان کیا، حضرت نبی کریم ﷺ نے سورج گرہن میں گردنیں آزاد کرنے کا حکم دیا۔عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: أَمَرَ النَّبِيُّ ﷺ بِالْعَتَاقَةِ فِي كُسُوفِ الشَّمْسِ. [بخاری]