کاتبِ وحی ،جلیل القدر صحابیِ رسول ؑ ،سیدنا حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما

کاتبِ وحی ،جلیل القدر صحابیِ رسول ؑ ،سیدنا حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما
مولانا ندیم احمد انصاری
(ڈائریکٹر الفلاح اسلامک فاؤنڈیشن، انڈیا)
جلیل القدر صحابی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ عالمِ اسلام کی ان چند گنی چنی ہستیوں میں سے ایک ہیں، جن کے احسانات سے یہ امتِ مسلمہ سبکدوش نہیں ہوسکتی۔ آپؓ ان چند کبار صحابہؓ میں ہیں، جن کو سرکار دوعالمﷺ کی خدمت میں مسلسل حاضری اور حق تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ وحی کو لکھنے کا شرف ہوا۔پھر— آپؓ اسلامی دنیا کی وہ مظلوم ہستی ہیں، جن کی خوبیوں اور ذاتی محاسن وکمالات کو نہ صرف نظر انداز کیا گیا، بلکہ ان کو چھپانے کی پیہم کوششیں کی گئیں، آپؓ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے، آپؓ کے متعلق ایسی باتیں گھڑی گئیں اور ان کو پھیلایا گیا، جن کا کسی عام صحابیؓ میں تو درکنار کسی شریف انسان میں بھی پایا جانا مشکل ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف جس شد ومد کے ساتھ پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کیا گیا، اس کی وجہ سے آپؓ کا وہ حسین ذاتی کردار نظروں سے بالکل اوجھل ہوگیا ہے، جو آنحضرت ﷺ کے فیضِ صحبت نے پیدا کیا تھا، نتیجہ یہ ہے کہ آج دنیا حضرت معاویہؓ کو بس جنگ صفین کے قائد کی حیثیت سے جانتی ہے، جو حضرت علیؓ کے مقابلے کے لیے آئے تھے، لیکن وہ حضرت معاویہؓ جو آنحضرتﷺ کے منظورِ نظر تھے، جنہوں نے کئی سال تک آپﷺ کے لیے کتابتِ وحی کے نازک فرائض انجام دیے، آپﷺ سے اپنے علم وعمل کے لیے بہترین دعائیں لیں، جنہوں نے حضرت عمرؓ جیسے خلیفہ کے زمانے میں اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا، جنہوں نے تاریخِ اسلام میں سب سے پہلا بحری بیڑہ تیار کیا، اپنی عمر کا بہترین حصہ رومی عیسائیوں کے خلاف جہاد میں گذارا اور ہربار ان کے دانت کھٹے کیے، آج دنیا ان کو فراموش کرچکی ہے۔ لوگ یہ تو جانتے ہیں کہ حضرت معاویہ ؓ وہ ہیں، جن کی حضرت علیؓ کے ساتھ جنگ ہوئی تھی، لیکن قبرص، روس، صقلیہ اور سوڈان جیسے اہم ممالک کس نے فتح کیے؟ سالہا سال کے باہمی خلفشار کے بعد عالمِ اسلام کو پھر سے ایک جھنڈے تلے کس نے جمع کیا؟ جہاد کا جو فریضہ تقریباً متروک ہوچکا تھا، اسے از سرِ نو کس نے زندہ کیا؟ اور اپنے عہدِ حکومت میں نئے حالات کے مطابق شجاعت وجواں مردی، علم وعمل، حلم وبردباری، امانت ودیانت میں نظم وضبط کی بہترین مثالیں کس نے قائم کیں؟ یہ ساری باتیں وہ ہیں، جو پروپیگنڈے کی غلیظ تہوں میں چھپ کر رہ گئی ہیں۔

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل

حضرت نبی کریم ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی آپؓ کی امارت کی پیشین گوئی فرمادی تھی۔ حضرت معاویہؓ خود روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریمﷺ کے لیے وضو کا پانی لے کر گیا۔ آپﷺ نے وضو فرمایا اور وضو کرنے کے بعد میری طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا: ’’اے معاویہ! اگر تمہارے سپرد امارت کی جائے اور تمہیں امیر بنادیا جائے، تو تم اللہ سے ڈرتے رہنا اور انصاف کرنا۔‘‘ (مجمع الزوائد:۹؍۵۹۳)آپ کے متعلق محض یہ ایک پیش گوئی ہی نہیں بلکہ بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آپؓ کے لیے یہ دعا بھی فرمائی: اے اللہ! معاویہ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافتہ بنادیجئے اور اس کے ذریعے سے لوگوں کو ہدایت دیجئے۔(ترمذی:۳۸۴۲)نیز بعض روایتوں میں یہ دعا کے یہ الفاظ بھی وارد ہوئے ہیں: اے اللہ! معاویہ کو حساب وکتاب سکھادے اور ان کے لیے ٹھکانہ بنادے اور انہیں عذاب جہنم سے بچالے۔ (مجمع الزوائد:۹؍۵۹۶-۵۹۵)ان روایتوں پر غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے نبی کو شایداس بات کا احساس کروادیا تھا کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا کہ بعض سفہاء سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان میں لب کشائی کریں گے۔ اللّٰہم احفظنا منہ

حلیہ مبارکہ

سرخ وسفید رنگ، سر وقد لحیم وشحیم، وضع قطع تمکنت ووقار کی امتیازی خوبصورتی لیے ہوئے، بڑی اور موٹی آنکھیں، گھنی داڑھی مہندی وسمہ کے خضاب سے رنگی ہوئی، وجیہ صورت، جاذب نظر پرکشش بانکپن، بہت سوں کے مجمع میں ممتاز، قدرتی رعب، لیکن مزاج میں تقویٰ، عاجزی، نہایت حلیم وبردبار، فقیر کی سی تمکنت اور امیر کی سی مسکنت کا بہترین امتزاج، لباس میں سادگی، بلکہ اکثر دفعہ بیسیوں پیوند صرف قمیص میں— حضرت مسلمؓ فرماتے ہیں کہ حضرت معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما ہمارے پاس آئے، اور وہ لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت اور حسین تھے۔ (مجمع الزوائد: ۹؍۳۵۵)

حسب نسب

آپؓ عرب کے مشہور ومعروف قبیلہ قریش سے تعلق رکھتے ہیں، جو اپنی شرافت ونجابت اور جود وسخا میں پورے عرب میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا، اس قبیلہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس میں آقائے دو جہاںﷺ مبعوث ہوئے۔ پھر قریش میں سے آپ اس نامور خاندان بنوامیہ سے تعلق رکھتے ہیں، جو نسبی ومنصبی حیثیت سے بنو ہاشم کے بعد سب سے زیادہ معزز سمجھا جاتا تھا۔حضرت معاویہؓ کے والد ماجد، حضرت ابوسفیان ؓ اسلام لانے سے قبل ہی اپنے خاندان میں ممتاز حیثیت کے مالک اور قبیلہ کے معزز سرداروں میں شمار ہوتے تھے۔ آپؓ فتح مکہ کے دن اسلام لائے، آپؓ کے اسلام لانے سے آنحضرتﷺ کو بہت مسرت ہوئی اور آپﷺ نے اعلان فرمایا: ’’جو شخص بھی ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا اسے امن دیا جائے گا۔‘‘اسلام لانے سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی آپ اعلیٰ صفات کے مالک اور اخلاقِ کریمانہ کے حامل تھے، علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: ’’آپ ؓاپنی قوم کے سردار تھے، آپ کے حکم کی اطاعت کی جاتی تھی اور آپ کا شمار مال دار لوگوں میں ہوتا تھا۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۲۱) پھر آنحضرتﷺ کی خدمت میں رہے اور غزوۂ حنین اور غزوۂ یرموک میں شرکت کی۔ یہاں تک کہ ۳۱ھ؁ میں آپؓ کا انتقال ہوگیا۔ حضرت معاویہؓ آپ ہی کے فرزند ارجمند تھے، بعثت نبوی سے پانچ سال قبل آپؓ کی ولادت ہوئی۔ (الاصابۃ: ۳؍۴۱۲)بچپن ہی سے آپ میں اولوالعزمی اور بڑائی کے آثار نمایاں تھے، چنانچہ ایک مرتبہ جب آپؓ نوعمر تھے، آپؓ کے والدحضرت ابوسفیانؓ نے آپؓ کی طرف دیکھا اور کہنے لگے: ’’میرا بیٹا بڑے سر والا ہے، اور اس لائق ہے کہ اپنی قوم کا سردار بنے، آپ کی والدہ ہندؓ نے یہ سنا تو کہنے لگیں: ’’فقط اپنی قوم کا؟ میں اس کو روئوں اگر یہ پورے عالمِ عرب کی قیادت نہ کرے۔‘‘ (ایضاً) اسی طرح ایک بار عرب کے ایک قیافہ شناس نے آپؓ کو چھٹ پنے کی حالت میں دیکھا تو کہا: ’’میرا خیال ہے کہ یہ اپنی قوم کا سردار بنے گا۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۱۱۸)ماں باپ نے آپؓ کی تربیت خاص طور پر کی اور مختلف علوم وفنون سے آپؓ کو آراستہ کیا اور اس دور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کا رواج بالکل نہ کے برابر تھا اور عرب پر جہالت کی گھٹا ٹوپ تاریکی چھائی ہوئی تھی، آپؓ کا شمار ان چند گنے چنے لوگوں میں ہونے لگا، جو علم وفن سے آراستہ تھے اور لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔

قبولِ اسلام

آپؓ ظاہری طور پر فتحِ مکہ کے موقعہ پر ایمان لائے، مگر درحقیقت آپؓ اس سے قبل ہی اسلام قبول کرچکے تھے، لیکن بعض مجبوریوں کی بنا پر ظاہر نہ کیا۔ مشہور مورخ واقدی کہتے ہیں کہ: آپؓ صلحِ حدیبیہ کے بعد ہی ایمان لے آئے تھے، مگر آپؓ نے اپنے اسلام کو چھپائے رکھا اور فتح مکہ کے دن ظاہر کیا۔ اپنے اسلام کو چھپائے رکھنے اور فتحِ مکہ کے موقعہ پر ظاہر کرنے کی وجہ خود حضرت معاویہؓ نے بیان کی ہے، چنانچہ فاضل مورخ ابن سعد کا بیان ہے ؛ حضرت معاویہؓ فرمایا کرتے تھے : ’’میں عمرۃ القضا سے پہلے اسلام لے آیا تھا، مگر مدینہ جانے سے ڈرتا تھا کیوں کہ میری والدہ کہا کرتی تھیں کہ اگر تم گئے تو ہم تمہیں ضروری اخراجاتِ زندگی دینا بھی بند کردیں گے۔‘‘ اس عذر اور دوسری مجبوریوں کی بنا پر آپؓ نے اپنے والد کے ہمراہ فتح مکہ کے موقعہ پر اپنے اسلام لانے کا اعلان کیا۔ (الاصابۃ: ۳؍۴۱۲)یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بدر، احد، خندق، اور غزوۂ حدیبیہ میں آپؓ کفار کی جانب سے شریک نہ ہوئے حالانکہ اس وقت آپؓ جوان تھے، آپؓ کے والد ابوسفیان ؓ سالار کی حیثیت سے شریک ہورہے تھے، اور آپؓ کے ہم عمر جوان بڑھ چڑھ کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں حصہ لے رہے تھے، ان تمام باتوں کے باوجود آپ کا شریک نہ ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام کی حقانیت ابتداء ہی سے آپؓ کے دل میں گھر کر چکی تھی۔

دربار رسول میں

اسلام لانے کے بعدآگے چل کر آپ مستقلاً آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لگے رہے اور آپؓ اس مقدس جماعت کے ایک رکنِ رکین تھے، جسے آنحضرتﷺ نے کتابتِ وحی کے لیے مامور فرمایا تھا۔ چنانچہ جو وحی آپﷺ پر نازل ہوتی اسے قلمبند آپؓ فرماتے اور جو خطوط وفرامین، سرکارِ دوجہاںﷺ کے دربار سے جاری ہوتے، انہیں بھی تحریر فرماتے، وحیٔ خداوندی لکھنے کی وجہ سے ہی آپؓ کو کاتبِ وحی کہا جاتا ہے۔ (النجوم الزاہرۃ فی ملوک مصر والقاہرۃ: ۱؍۱۵۴، مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ۹؍۳۵۷، الاستیعاب تحت الاصابۃ: ۳؍۳۷۵) علامہ ابن حزم لکھتے ہیں : ’’نبی کریمﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حضرت زید بن ثابتؓ آپﷺ کی خدمت میں حاضر رہے اور اس کے بعد دوسرا درجہ حضرت معاویہ ؓ کا تھا۔ یہ دونوں حضرات دن رات آپﷺ کے ساتھ لگے رہتے اور اس کے سوا کوئی کام نہ کرتے تھے۔‘‘ (جوامع السیرۃ: ۸؍۲۱)حضورﷺ کے زمانے میں کتابتِ وحی کا کام جتنا نازک تھا اور اس کے لیے جس احساس ذمہ داری، امانت ودیانت اور علم وفہم کی ضرورت تھی، وہ محتاجِ بیان نہیں، چنانچہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں مسلسل حاضری، کتابتِ وحی، امانت ودیانت اور دیگر صفات محمودہ کی وجہ سے نبی کریمﷺ نے متعدد بار آپؓ کے لیے دعا فرمائی۔ایک روایت میں تو یہاں تک ہے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ کو کسی کام میں مشورہ کے لیے طلب فرمایا، مگر دونوں حضرات کوئی مشورہ نہ دے سکے تو آپﷺ نے فرمایا : ’’معاویہ کو بلائو اور معاملہ کو ان کے سامنے رکھو کیوں کہ وہ قوی ہیں (مشورہ دیں گے) اور امین ہیں۔‘‘ (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد: ۹؍۳۵۶)لیکن اس روایت کی سند کمزور اور ضعیف ہے۔نیز ایک اور روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ سواری پر سوار ہوئے اور حضرت معاویہؓ کو اپنے پیچھے بٹھایا تھوڑی دیر بعد آپﷺ نے فرمایا: ’’اے معاویہ! تمہارے جسم کا کون سا حصہ میرے جسم کے ساتھ مل رہا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا پیٹ (اور سینہ) آپﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ ملا ہوا ہے۔ یہ سن کر آپﷺ نے دعا دی: ’’اے اللہ! اس کو علم سے بھردے۔‘‘ (تاریخ الاسلام: ۲؍۳۱۹ للذہبی)

صحابہ کرامؓ کی نظر میں

ان احادیث سے سرکارِ دوجہاں ﷺ کا حضرت معاویہؓ سے تعلق اور اس سے آپؓ کی فضیلت صاف ظاہر ہے، اس کے علاوہ دیگر جلیل القدر صحابہؓ سے بھی متعدد اقوال مروی ہیں، جن سے ان کی نظر میں حضرت معاویہؓ کے مقامِ بلند کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ایک بار حضرت عمر فاروقؓ کے سامنے حضرت معاویہؓ کی برائی کی گئی تو آپؓ نے فرمایا: ’’قریش کے اس جوان کی برائی مت کرو، جو غصہ کے وقت ہنستا ہے (یعنی انتہائی بردبار ہے) اور جو کچھ اس کے پاس ہے بغیر اس کی رضامندی کے حاصل نہیں کیا جاسکتا اور اس کے سر پر کی چیز کو حاصل کرنا چاہو تو اس کے قدموں پر جھکنا پڑے گا (یعنی انتہائی غیور اور شجاع ہے)۔‘‘ (الاستیعاب تحت الاصابۃ: ۳؍۳۷۷)اور حضرت عمرؓ سے منقول ہے کہ آپؓ نے فرمایا: اے لوگو! تم میرے بعد آپس میں فرقہ بندی سے بچو اور اگر تم نے ایسا کیا تو سمجھ رکھو کہ معاویہؓ شام میں موجود ہیں۔ (الاصابۃ: ۳؍۴۱۴)حضرت عمر فاروقؓ کے بعد حضرت عثمان غنیؓ کا دور آیا، وہ بھی آپ پر مکمل اعتماد کرتے تھے اور تمام اہم معاملات میں آپؓ سے مشورہ لیتے اور اس پر عمل بھی کیا کرتے تھے۔ انھوں نے بھی آپؓ کو شام کی گورنری کے عہدہ پر نہ صرف باقی رکھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آس پاس کے دوسرے علاقے اردن، حمص، قنسرین اور فلسطین وغیرہ بھی آپ کی ماتحت کر دیئے۔اس کے بعد حضرت عثمان غنیؓ شہید کردیئے گئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ہاتھ پر مسلمانوں کی ایک جماعت نے بیعت کرلی اور آپ خلیفہ ہوگئے اور آپ کے اور حضرت معاویہؓ کے درمیان قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص لینے کے بارے میں اختلاف پیش آیا جس نے بڑھ کر قتال کی صورت اختیار کرلی اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ کی بنیاد پڑگئی، مگر جیسا کہ ہر ہوش مند جانتا ہے کہ اس میں دونوں جانب اختلاف کا منشاء دین ہی تھا، اس لیے فریقین ایک دوسرے کے دینی مقام اور ذاتی خصائل واوصاف کے قائل تھے اور اس کا اظہار بھی فرماتے تھے۔ حافظ ابن کثیرؒ نے نقل کیا ہے کہ حضرت علیؓ جب جنگِ صفین سے واپس لوٹے تو فرمایا: ’’اے لوگو! تم معاویہؓ کی گورنری اور امارت کو ناپسند مت کرو، کیونکہ اگر تم نے انہیں گُم کردیا تو دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے جس طرح حنظل کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ کر گرجاتا ہے۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۱۳۱)خلفائے راشدین کے علاوہ اب دیگر اجلہ صحابہ کرامؓ کو دیکھئے کہ ان کی نگاہ میں حضرت معاویہؓ کی کیا قدر ومنزلت تھی؟حضرت ابن عباسؓ سے ایک فقہی مسئلہ میں حضرت معاویہؓ کی شکایت کی گئی تو آپؓ نے فرمایا: یقینا معاویہؓ فقیہ ہیں۔ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۱۲۳)(جو کچھ انہوں نے کیا اپنے علم وفقہ کی بنا پر کیا ہوگا) ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے جواب میں فرمایا: معاویہؓ نے حضور ﷺ کی صحبت کا شرف اٹھایا ہے (اس لیے ان پر اعتراض بے جا ہے)۔ (الاصابہ: ۳؍۴۱۳، صحیح بخاری: ۱؍۵۳۱) حضرت ابن عباسؓ کے یہ الفاظ بتارہے ہیں کہ صرف آنحضرتﷺ کی صحبت کا شرف اٹھانا ہی اتنی بڑی فضیلت ہے کہ کوئی فضیلت اس کے برابر نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح ایک بار حضرت ابن عباسؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب نے آکر آپؓ سے شکایت کے لہجے میں بیان کیا کہ حضرت معاویہؓ نے وتر کی تین رکعتوں کے بجائے ایک رکعت پڑھی ہے تو حضرت ابن عباسؓ نے جواب دیا: ’’اے بیٹے! جو کچھ معاویہؓ نے کیا، صحیح کیا، کیوں کہ ہم میں معاویہؓ سے بڑھ کر کوئی عالم نہیں۔‘‘ (سنن کبریٰ للبیہقی: ۳؍۲۶)اس سے ظاہر ہے کہ حضرت ابن عباسؓ آپ کے علم وفقہ اور تقویٰ سے کس درجہ متاثر تھے، یہ حال تو دینی امور میں تھا، دنیوی امور میں حضرت ابن عباسؓ کا قول مشہور ہے کہ ’’میں نے معاویہؓ سے بڑھ کر سلطنت اور بادشاہت کا لائق کسی کو نہیں پایا۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۱۳۵)حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں ’’میں نے معاویہؓ سے بڑھ کر سرداری کے لائق کوئی آدمی نہیں پایا۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۱۳۵) سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ جو عشرۂ مبشرہ میں سے ہیں اور حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی آپس کی جنگوں میں غیر جانب دار رہے، فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں نے حضرت عثمانؓ کے بعد کسی کو معاویہؓ سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والا نہیں پایا۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۱۳۳)حضرت قبیصہ بن جابرؓ کا قول ہے:’’میں نے کوئی آدمی ایسا نہیں دیکھا جو (حضرت) معاویہؓ سے بڑھ کر بردبار، ان سے بڑھ کر سیادت کا لائق، ان سے زیادہ باوقار، ان سے زیادہ نرم دل، اور نیکی کے معاملہ میں ان سے زیادہ کشادہ دست ہو۔‘‘ (البدایۃ والنہایۃ: ۸؍۱۳۵، تاریخ الخلفاء: ۱۵۶)اللہ تعالیٰ ہمیں بھی رسول اللہ ﷺ او ر آپ کے اصحاب ؓ سے سچی محبت کرنے والا بنائے،آمین۔
(بامداد حضرت معاویہؓ اور تاریخی حقائق از مفتی محمد تقی عثمانی وغیرہ)
[email protected]

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here